ابوظہبی کی شاہراہ دفاع پر الواحدہ فٹبال کلب کے سٹیڈیم اور مسجد ، جہاں اب الوحدہ مال کی بہت بڑی عمارت کھڑی ہے، کے سامنے ایک عمارت کے 12 فلیٹوں میں راولاکوٹ کے کم و بیش ایک سو لوگ رہائش پذیر تھے۔مستقل رہنے والے بیس پچیس ہی تھے جبکہ اکثریت ان لوگوں کی تھی جو شہر سے باہر دور دراز علاقوں میں کام کرتے تھے۔بلدیہ، دفاع اور پرائیویٹ کمپنیوں میں کام کرنے والے یہ لوگ ویک اینڈ پر ابو ظہبی آتے ، ایک رات کو خوب رونق لگتی اور دوسرے دن وہ اپنا بستر اور ابو ظہبی خالی کر کہ واپس کام پر چلے جاتے۔راولاکوٹ پرانے پٹرول پمپ کے پڑوسی بشیر صاحب ہماری کمیونٹی کے نمایاں اور متاثر کن شخصیت کے مالک انسان تھے۔سب سے پہلے وہی داغ مفارقت دے گئے۔متیالمرہ والے ابراہیم صاحب خوش گفتار و خوش اخلاق ابراہیم صاحب بھی ریٹائرمنٹ کے تھوڑے ہی عرصہ بعد فوت ہوگئے۔ان کا بیٹا سجاد اور میں ہم عمر تھے اور ایک ہی کمرے میں رہتے تھے۔بیروزگاری کے دن سو کر اور راتیں اکٹھے جاگ کر گزاریں۔کافی عرصہ امارات میں نوکری کی اور پھر چھوڑ چھاڑ کر واپس آ گیا۔ مگر یہاں بھی زیادہ نہیں ٹکا۔عامر رفیق کے والد رفیق صاحب ہمارے ان بزرگوں میں سے تھے جن سے ہم آخری دم تک ڈرتے رہے۔ خوبصورت شخصیت کے مالک ، بے تکلف اور بے باک انسان تھے۔ہارٹ اٹیک میں بچ گئے، گھر آئے ، ایک مسجد بنوائی اور چلے گئے۔لطیف صاحب کا تعلق متیالمرہ سے تھا۔ کئی ایک پریشانیوں کے باوجود خوش باش رہنے یا نظر آنے والے لطیف صاحب بھی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔آصف صاحب راولاکوٹ کے سب سے پرانے استاد ماسٹر جمس صاحب کے بڑے صاحب زادے تھے۔ بے قرار روح کی مانند کبھی ایک جگہ ٹک کر نہ بیٹھتے ۔ چند ماہ قبل وہ بھی انتقال کر گئے۔
افتخار صاحب کو ابو ظہبی میں ہمارے سرپرست کی حیثیت حاصل تھی۔ وہ ان چند لوگوں میں سے ہیں جن سے کبھی کسی کی برائی نہیں سنی۔اپنی کمیونٹی کی بہت خدمت ، بلکہ قیادت کی۔ سیون برادز والے صدیق صاحب ، نمبردار ریاض صاحب، سہراب خان، افتخار صاحب، رفیق صاحب، لطیف صاحب سجاد وغیرہ ہم ایک ہی بڑے ہال میں رہتے تھے۔ ہمارا ڈیڑہ” دال والا ڈیرہ” کے نام سے پورے یو اے ای میں شہرت حاصل کر چکا تھا۔ اس شہرت کا کریڈٹ سردار زرین انور صاحب کو جاتا ہے انہوں نے ہمارے ڈیرے کی مارکیٹنگ میں کوئی کسر باقی نہیں رہنے دی۔ایک شام میں اور نمبردار ریاض صاحب ڈنر کر رہے تھے کہ زرین صاحب سر پر آموجود ہوئے۔ خوب ہماری تعریف کی اور ذوالفقار صاحب کے کمرے میں دیر تک ہماری دال پر تبصرہ فرماتے رہے۔ ایک آدھ ہفتے بعد جمعرات کی شام ہم دونوں حسب سابق مونگ کی دال سے دو دو ہاتھ کر رہے تھے کہ پھر رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔خوب شور مچا اورقہقہے لگے، تب تہیہ کر لیا کہ اب کے نہیں پکڑے جائیں گے۔ٹھیک ایک ہفتے بعد جمعرات ہی کا دن تھا اور اتفاق سے ہم اپنی من پسند ڈش تناول فرما رہےتھے کہ فلیٹ کا مین گیٹ کھلا اور زرین صاحب کی آواز ہمارے کانوں میں پڑی۔وہ باہر کوریڈور میں کسی سے خیر خیریت دریافت کر رہے تھے۔ میں نے شور مچایا نمبردار جی، نمبردار جی! زرین صاحب پھر آگئے ہیں۔ ہمارے لیے “آلوئی بالوئی” مچ گئی، رنگ پیلا پڑ گیا، ہاتھ پاؤں سُن ہو گئے ۔ برق رفتاری سے اخبار والا دستر خوان کھینچ کر بیڈ کے نیچے چھپایا، الٹے ہاتھوں منہ صاف کیا اور ہاتھ پیچھے باندھ کر مصیبت کے انتظار میں کھڑے ہو گئے۔مصیبت نے ہا ل کا دروازہ کھولا،اندر داخل ہوئی اور کہا” اوئے نمبردارا تے نسواریا، یہ دال کھا کھا کر مر جاؤ گے، خدا کے واسطے کچھ اور بھی کھا لیا کرو”۔ لیکن ہم نے انہیں یقین دلا دیا کہ ہم کھانا کھا ہی نہیں رہے تھے۔ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو ہمارا جھوٹ پکڑ لیتا۔یہ سب حقائق اپنی جگہ مگر انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا، کم بختو یہ لو بیس درہم اور جاکر لبنانی ہوٹل سے تکہ لے کر کھاؤ۔
رمضان میں عرب ہریسہ اور چاول بنا کر غریبوں (یا پردیسیوں)میں تقسیم کرتے ہیں۔ہریسہ گوشت سے بنی ہوئی بہت مزیدار اور طاقتور ڈش ہوتی ہے۔ عصر کے بعد لوگ اپنے اپنے برتن لے کر عربوں کی بستیوں میں جاتے اور ہریسہ ، چاول وغیرہ لے آتے۔جمعرات کی ایک شام ہماری بلڈنگ کے نیچے سائیڈ وں سے آئے ہوئے لوگوں کا میلہ سا لگا ہوا تھا۔لطیف صاحب بھی پیشانی سے پسینہ صاف کرتے کرتے پہنچے۔اسی اثنا میں ان کابیٹا عامر ہریسہ لے کر پہنچا۔ آصف صاحب نے موقع غنیمت جان کر لطیف صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا ۔ کہا ایک ہی بیٹا ہے اور وہ بھی مانگنے پر لگا رکھا ہے۔ لطیف صاحب کی خاصی سُبکی ہوئی اور وہ مشکل سے جان چھڑا کر نکلے۔ اگلے ہی ہفتے اسی مقام پہ یہ محفل پھر سجی ہوئی تھی ۔ آصف صاحب کا اکلوتا بیٹا دیگر لوگوں کے ہمراہ ہریسہ لینے گیا ۔ مگر ان لوگوں کو تاخیر ہو گئی، ہریسہ بٹ گیا اور یہ خالی ہاتھ واپس پہنچے۔ یہ دل پسند منظر دیکھ کر لطیف صاحب کی باچھیں کھل گئیں ۔ پھر وہاں پر وہ جملہ بازی ہوئی اور وہ قہقہے لگے کہ آسمان کے فرشتوں نے بھی سنے ہوں گے ۔
ابو ظہبی کے یہ پچیس سالہ شب و روز چند دن پہلے میری آنکھوں کے سامنے گھوم گئے۔ رات دس بجے کا وقت تھا میں بچوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ہمشیرہ نے فون پر بتایا طاہر غنی فوت ہو گیا ہے۔ طاہر بھی ہمارا فلیٹ میٹ تھا۔ خاموش طبیعت ،بے ضرر اور تنہائی پسندطاہر غنی کبھی بے روزگاری پر رویا نہ نوکری پر اترایا۔ وہ اپنی نشست و برخاست ، گفتگو اور آداب کے اعتبار سے ایک خاندانی آدمی تھا۔اپنے کام سے کام رکھنے والا اور فراغت میں بھی فضولیات سے دور رہنے والا ایک شریف انسان تھا۔ ابو ظہبی سے واپس آئے اسے کافی وقت ہو گیا تھا۔ میری اس سے دوتین مرتبہ ہی ملاقات ہو سکی۔ وہ تراڑ کے ایک خوبصورت اور گوشہ نشین علاقے میں رہتا تھا۔ مجھے اُس طرف آنے کی دعوت ہی نہیں دی ، اصرار بھی کیا۔ میں نے اس کا نمبر لیا اور آنے کا وعدہ کیا۔ مگر یہ وعدہ اس کے جنازے پر پورا ہوا۔ میں رات گیارہ بجے گھر سے نکلا۔ وہاں پہنچا تو اسے غسل دے رہے تھے۔ مجھ سے غلطی یہ ہوئی کہ بہت قریب سے اسے دیر تک دیکھتا رہا۔ معمولی سی بڑھی ہوئی شیو ،ہلکی مونچھیں اور وہی خاموش چہرہ۔ جیسے سویا ہوا ہے، ابھی جاگ جائے گا۔اٹھ کر بیٹھے گا، چائے بنا کر لائے گا اور ہم دونوں نوکری کی تلاش میں اپنی اپنی بھاگ دوڑ ایک دوسرے کو سنائیں گے۔ مگر دفعتاً خوف کی ایک لہر میرے سرسے نکلی اور رینگتی ہوئی پاؤں تک چلی گئی۔ اتنی جلدی مر گیا؟ مجھے لگا جیسے میں خود مر گیا ہوں۔ یہ طاہر کا نہیں میرا جنازہ پڑا ہے۔ اور میں زندگی کی کون کون سی منصوبہ بندیوں میں پڑا ہوں۔ مجھے اپنے آپ پہ ترس آیا اور اس سے قبل کہ میری ٹانگیں جواب دیتیں، میں اُسے آخری بار دیکھ کر باہر نکل آیا۔ساجد صدیق نے اسے غسل دیا اور اب وہ اس کے جنازے کا اعلان لکھ رہا تھا۔ ایک پرچی لکھنے کے بعد اس نے کہا مجھے نہیں پتہ کیا لکھ رہا ہوں۔ میں نے اس کے ہا تھ سے کاپی لی اور اعلان جب لکھنا شروع کیا تو مجھے بھی پتہ نہیں چل رہا تھا کیا لکھ رہا ہوں۔ یہ جنازے کا اعلان تھا، ہم سب کے جنازےکا اعلان !
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں