ہمیں ایک حکومت درکار ہے/ مہ ناز رحمان

ہم نے نصابی کتابوں میں پڑھا تھا کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے لیکن پاکستانیوں کو دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ انسان ایک سیاسی حیوان ہے۔پان کا کھوکھا لگانے والا ہویا ٹیکسی ڈرائیور یا کوئی دانشور ہر کوئی سیاست پر بات کر رہا ہوتا ہے۔جس سے ملو ، وہ پاکستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں سوال کرتا ہے۔آخر اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے یا تو ہم بہت محب وطن ہیں یا ہمیں دنیا میں اور کوئی کام نہیں لیکن ٹھہریے، یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہم بہت با شعور ہیں اور جانتے ہیں کہ ہمارے سارے مسائل کا حل ریاست اور حکومت کے طرز حکمرانی اور پالیسیوں میں چھپا ہوا ہے شاید اسی لئے ہم ہر وقت سیاست کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ویسے تو سبھی کچھ سیاسی ہے اور فیمنسٹس کے بقول ہر ذاتی معاملہ بھی سیاسی معاملہ ہوتا ہے لیکن معلوم نہیں کیوں میں نے آج تک خود کو کرنٹ افئیرز کے بارےمیں لکھنے سے روکے رکھا ۔

ہوا یوں کہ پہلے تو ضیاء الحق کی آمریت کو روتے رہے پھر جمہوری حکومتیں آنا شروع ہوئیں۔ایک عورت کی حیثیت سے ہمیں بے نظیر کے وزیر اعظم بننے کی بے حد خوشی ہوئی اور پھر پیپلز پارٹی کی آمریت کے خلاف جدوجہد بھی ہمارے سامنے تھی، ان کے والد کی کرشمہ ساز شخصیت نے زمانہء طالب علمی میں ہم میں سے اکثر کو بے حد متاثر کیا تھا۔عورتوں کے لئے انہوں نے بہت سے اچھے اقدامات کئے لیکن جب ان کی حکومت نے پرائیوٹائزیشن کی پالیسی اپنائی تو ہمیں بے حد حیرت ہوئی، کیا یہ وہی پیپلزپارٹی ہے جس کے بانی نے نیشنلائزیشن کی تھی، صحیح کی تھی یا غلط، اس کے لئے ایک الگ تحقیقی مقالہ درکار ہے لیکن یہ بات واضح ہو گئی کہ اب پیپلز پارٹی وہ نہیں رہی تھی۔اب وہ ریگن اور تھیچر کی نیو لبرل پالیسیوں کا دور تھا ۔اور پاکستان جیسے ممالک نے ان ہی پالیسیوں پر عمل کرنے میں عافیت جانی۔ ضیا کے بعد آنے والی جمہوری حکومتوں کے سر پر 58 B کی تلوار لٹک رہی تھی جس کا بے دریغ استعمال کیا گیا اور عوام کو یوں لگا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے درمیان میوزیکل چیئر کا کھیل شروع ہو گیا ہے۔

ہمارے ہاں ہر حکومت کے لئے اپنے حامی آرمی چیف کا تقرر اور اس کے عہدے میں توسیع سب سے اہم مسئلہ رہا ہے۔بھٹو نے ضیا کو بے ضرر اور تابعدار سمجھ کر بہت سے سینئرز کو نظر انداز کر کے آرمی چیف بنایا تھا لیکن اس نے بھٹو کا عدالتی قتل کرا دیا۔نواز شریف نے آرمی سے پنگا لیا تو قوم کو مشرف کی آمریت کا سامنا کرنا پڑا ۔البتہ ان کے دور میں جو ایک اچھی بات ہوئی، وہ مقامی حکومتوں کا نظام تھا۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں آنے والی نئی حکومت پچھلی حکومت کے اچھے کاموں بھی لپیٹ کر رکھ دیتی ہے۔ مقامی حکومتیں یا بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسری ہوتے ہیں ۔یہ سیاست دانوں کی تربیت گاہ ہوتے ہیں اور عوام کے بنیادی اور روزمرہ کے مسائل حل کرتے ہیں ۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں بلدیاتی نظام صرف آمرانہ دور میں سامنے آتا ہے جب کہ جمہوری حکومتیں وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں تک خود کو محدود رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ بر سر اقتدار سیاسی پارٹی کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں حزب مخالف کے امیدوار جیت جائیں گے اور اس کی سبکی ہو گی۔ اسی لئے برسر اقتدار پارٹی کبھی بھی بلدیاتی انتخابات کرانا نہیں چاہتی۔ جب کہ آمر حضرات چونکہ آتے ہی وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں تحلیل کر دیتے ہیں ، اس لئے انہیں بلدیاتی اداروں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور کچھ عرصہ بعد ہی انہیں سیاسی پارٹی کی ضرورت بھی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اسی لئے کبھی کنونشن لیگ بنتی ہے تو کبھی مسلم لیگ کا کوئی نیا دھڑا وجود میں آتا ہے۔

خیر یہ سب تو تاریخ کا حصہ ہے۔ ہمیں بات کرنی تھی کرنٹ افئیرز یعنی حالات حاضرہ کی۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اتنے زیادہ ٹی وی چینلز پر اینکر حضرات یہی تو کر رہے ہوتے ہیں تو ہم کون سی نئی بات کر لیں گے یا کون سا نیا مسئلہ سامنے لے آئیں گے مگر یہ بھی ہے کہ ہر کوئی ان مسائل کے حوالے سے اپنے دکھوں اور تکلیفوں کا اظہار بھی کرنا چاہتا ہے ورنہ ذہنی صحت کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ٹی وی چینلز اس موقع پر پر مہمان خصوصی میاں رضا ربانی نے کہا کہ ماضی میں ٹریڈ یونینز بہت فعال کردار ادا کر رہی تھیں اور ضیاء الحق کے دور میں طلبہ یونین اور مزدور یونین کی شکل میں دو بڑی طاقتیں سامنے بھی آئیں جن پر پابندیاں لگا دی گئیں اور بعد میں آنے والی حکومتیں بھی ان پابندیوں کو ختم نہ کرا سکیں، انہوں نے کہا کہ میڈیا سے وابستہ بہت سے سینئر صحافی دوست بھی ہیں جن کے ذریعے معلومات ملتی رہتی ہے کہ وہ تکالیف میں ہیں اور بہت افسوس ہوتا ہے کہ معاشرے کی عکاسی کرنیوالے خود بنیادی حقوق سے محروم رہتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ صحافیوں پر ریاستی سطح پر ایک گٹھ جوڑ کر کے خاص مہربانی کی گئی جس میں قانون کا ہاتھ ہے اور اس گٹھ جوڑ میں میڈیا مالکان اور عدلیہ بھی شامل ہے، انہوں نے کہا کہ مزدور کے مقدمات وقت پر نمٹائے نہیں جاتے اور مزدور ایک عدالت سے دوسری عدالتوں کے چکر پر چکر لگاتے رہتے ہیں یہ تاخیر بھی قتل انصاف کے مترادف ہے، اس وقت انڈسٹری میں تین سے چار یونینز کا وجود باقی رہ گیا ہے جو کہ افسوسناک ہے ، جنہوں نے جمہوری اقدار کے لئے قربانیاں دیں ان کے ہی حقوق سلب کر لئے گئے، میاں رضا ربانی نے کہا کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مزدوروں کی قوت کو ختم کر دیا گیا ۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ ویج ایوارڈ وقت پر نہیں آتا اور آجائے تو عمل نہیں ہوتا، انہوں نے کہا کہ مختلف اشتہارات کی اسکیمز آتی ہیں لیکن تنخواہوں کو اس اعتبار سے ترتیب ہی نہیں دیا جاتا۔

انہوں نے صحافیوں کی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ تمام اختلافات بھلا کر نیشنل ڈائیلاگ کی طرف بڑھیں تاکہ ٹریڈ یونینز کو پھر سے مستحکم کیا جا سکے۔ میاں رضا ربانی نے مزید کہا کہ سیاسی جماعتوں نے بھی ٹریڈ یونیز کی بحالی اور استحکام کے لئے کوئی کردار ادا نہیں کیا اور انہوں نے کہا کہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ طلبہ یونینز اور مزدور یونینز سے لیڈر شپ سامنے آتی تھیں جس سے آج ملک میں قیادت کا بحران ہے۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے صدر و سیکریٹری کراچی پریس کلب نے کہا اس موقع پر پر صدر عباسی نے کہا کہ مزدور یونینز پر پابندی کی وجہ سے آج ملک تنزلی کا شکار ہے، عدلیہ بھی انحطاط کا شکار ہے اور وقت کا تقاضا ہے کہ الائنس بنایا جائے تاکہ تمام یونینز کو اکٹھا کیا جاسکے۔ اس موقع پر سینئر صحافی و تجزیہ کار مظہر عباس نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا ورکرز کا استحصال اپنے عروج پر ہے اور حکومت کی مقرر کردہ کم از کم تنخواہ بھی نہیں دی جا رہی صحافیوں کے نمائندوں کو بر طرف صحافیوں کی بحالی کے لئے کوشش کرنی چاہیے۔”

Advertisements
julia rana solicitors

میڈیا ورکرز کے علاوہ عام شہری بھی ان گنت مسائل کا شکار ہیں لیکن کیا وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل حل کر پائیں گی۔ پنجاب میں مریم نواز سیلف پروجیکشن کے ساتھ ساتھ کچھ کام کرتی بھی نظر آتی ہیں۔ کے پی کے گنڈاپور صاحب کا اپنا انداز ہے اور وفاقی حکومت نیب کے ذریعے انہیں گرفتار کرنے کے چکر میں بھی رہتی ہے۔بلوچستان کا کیا ذکر کیا جائے، وہاں کے معاملات دیکھ کر تو مشرقی پاکستان کی ایوب نواز صوبائی حکومتیں یاد آجاتی ہیں۔رہ گیا سندھ تو وہاں عرصہ سے پیپلز پارٹی کی حکومت چلی آ رہی ہے اور ایم کیو ایم بھی ہر دور میں حکومت کا حصہ رہی ہے لیکن آج حال یہ ہے کہ سندھ کے کچے میں ڈاکوئوں کا راج ہے جنہیں پکے کے ڈاکوؤں کی سر پرستی حاصل ہے۔کراچی میں اسٹریٹ کرائمز عروج پر ہیں، مزاحمت پر شہریوں کو گولی مار دی جاتی ہے۔بے رحم ڈاکو اب تک نجانے کتنے گھرانوں کو اجاڑ چکے ہیں۔ پاکستان خاص طور پر سندھ کی صورتحال دیکھ کر تو ارون دھتی رائے کی طرح یہی کہنے کو دل چاہتا ہے:” ہمیں بڑی شدت سے ایک حکومت کی ضرورت ہے لیکن ہمارے پاس حکومت ہے نہیں۔ہمارے پاس ہوا کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہم مر رہے ہیں۔کوئی سسٹمز نہیں ہیں جن سے پتہ چل سکے کہ مدد اگر مل بھی جائے تو ہمیں کیا کرنا ہے۔”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply