کیا کِیا جائے ؟-محمد عامر حسینی

میری نسل کے لوگ ایک اعتبار سے وہ خوش قسمت لوگ ہیں جنہیں سن ِشعور کی ابتدائی منزلیں طے کرتے ہوئے اس نسل کے لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے، سیکھنے کا موقع  میسر آیا، جن کی زندگی اس ملک میں جمہوریت اور سماجی انصاف کے بلند ترین آدرش کی خاطر جدوجہد کرتے ہوئے گزری ۔

ہمارے سامنے دو بڑے ادوار کے سیاسی کارکن ، ادیب ، دانشور اور صحافی تھے ۔ ایک وہ جن کا چراغ زندگی ٹمٹما رہا تھا جن کی پیدائش کا زمانہ نوآبادیاتی دور کے آخر کا زمانہ تھا اور ان کی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ تقسیم ہند تھا ۔ وہ یا تو پاکستان کی اولین طلباء سیاست کے معمار تھے یا پھر براہ راست سیاست میں آئے تھے یا ٹریڈ یونین کے راستے سے وہ سیاست میں آئے تھے۔ یہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان، اس کے ذیلی ونگز پھر نیشنل عوامی پارٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی کے معمار تھے ۔ ان میں اس نسل کے لوگ بھی شامل تھے جو 60ء کی دہائی میں تعلیمی اداروں میں پہنچے اور ایوب خان کے خلاف تحریک میں کسی نہ کسی طرح شامل ہوگئے ۔

دوسری نسل ان میں وہ تھی جو بھٹو صاحب کے دور میں پہلے یا آخری سالوں میں تعلیمی اداروں میں پہنچی اور پھر وہ جنرل ضیاع الحق کی آمریت کے خلاف چلنے والی تحریک کا ہر اول دستہ بن گئی۔
ہم جنرل ضیاع الحق کے آخری چار سالوں میں سن شعور کی منزل پر پہنچ گئے تھے اور ان دو نسلوں کے سیاسی ،سماجی، ادبی اور صحافتی محاذوں پر جمہوریت اور سماجی انصاف کی لڑائی لڑنے والوں کے زیر سایہ آ گئے ۔

ہمیں نا  صرف پیپلزپارٹی سے وابستہ مذکورہ بالا دو نسلوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں ، اس سے ہمدردی رکھنے والے شاعروں، ادیبوں، دانشوروں اور صحافیوں سے انٹریکشن کا موقع  ملا بلکہ کمیونسٹ پارٹی اور نیپ کے اندر سے نکلنے والی سیاسی جماعتوں ( کمیونسٹ پارٹی، کمیونسٹ مزدور کسان پارٹی، سوشلسٹ پارٹی ، پاکستان نیشنل پارٹی، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی ۔این ڈی پی ) سے وابستہ سیاسی کارکنوں اور ان سے ہمدردی رکھنے والے شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں سے بھی انٹریکشن کا موقع  میسر آیا ۔

یہی دو نسلوں کے نمائندہ جمہوریت پسند اور سماجی انصاف پرست تھے جن سے کئی بار ہمیں کبھی نرم تو کبھی سخت ترین اختلافات بھی ہوئے لیکن ان سے ہمارے انٹریکشن اور مکالمے سے ہمیں سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ہم نے نو آبادیاتی اور ما بعد نو آبادیاتی دور کی حقیقی سماجی۔معاشی تاریخ کا مطالعہ کرنا سیکھا اور ہم مطالعہ پاکستان ، ملائیت اور اردو پرنٹ میڈیا کی سرخیوں سے بننے والے گمراہ کن شعور کی دلدل میں دھنسنے سے بچ گئے ۔
ہم نہ تو افغان جہاد کا ایندھن بنے نہ جہاد کشمیر کا اور نہ ہی ہم اس
Anti۔religious & Ethnic minorities narrative
کے اسیر ہوئے جسے جنرل ضیاع الحق پوری شدت اور طاقت سے ہمارے سماج پر مسلط کرنے لگا ہوا تھا ۔

ہمارے سے بعد والی نسل اور اس کے بعد والی نسل کے ساتھ سب سے بڑا المیہ اور زیادتی یہ ہوئی کہ اس کے پاس نہ تو مطالعہ پاکستان سمیت مروجہ نصابی کتب کے تاریخی اور فکری مغالطوں کی ردتشکیل کرنے والی نرسری طلباء یونیز تھیں اور نہ ہی نظریاتی جدال سے گزارنے والی بالغ طلباء قیادت تھی ۔ ان کے مطالعے میں زیادہ سے زیادہ اردو اخبارات تھے جن کی سرخیاں سیاست سے ان کی نفرت بڑھایا کرتی اور جمہوری سیاست دانوں کو مجسم شیطان بنا کر دکھایا کرتی تھیں ۔ ادب اور تاریخ کے نام پر ان کے پاس پڑھنے کے لیے نسیم حجازی تھے، اشفاق احمد تھے، مینا ناز تھا ، بشری رحمان تھی اور بعد والوں کے پاس عمیرہ احمد تھیں ۔ انھیں ارشاد احمد حقانی ، کامران خان ،الطاف حسن ، تکبیر والے صلاح الدین، حسن نثار جیسے لوگ علم و تحقیق کا منبع لگتے تھے۔ جنرل ضیاع الحق کے آخری چند سالوں میں پی ٹی وی پر ڈاکٹر اسرار احمد اور درمیانے تنخواہ دار طبقے کی اولادوں کو غامدی جیسے میسر تھے ۔ پنجاب میں نواز شریف کی رجعت پرستی ان سب کی سرپرستی کر رہی تھی ۔ مسجد میں جمعہ کے اجتماعات میں انھیں بدترین رجعت پرستانہ پروپیگنڈے سے لیس کیا جا رہا تھا ۔ اور پنجاب کے دیہاتوں اور نیم مضافاتی شہروں میں دیوبندی جہادی تنظیموں اور فرقہ پرست جماعتوں سپاہ صحابہ و سنی تحریک وغیرہ کا لٹریچر ، تقاریر کی کیسٹیں نوجوانوں کے شعور کو بدترین پسماندگی کے گڑھے میں دھکیل رہی تھیں۔ اس نسل کے پاس یک طرفہ رجعت پرست پروپیگنڈا تھا اور اس کا موازانہ کرنے کے لیے متبادل نہ تو لٹریچر تھا اور نہ ہی تعلیم اور کام کی جگہ پر تربیت یافتہ پڑھا لکھا اور منجھا ہوا طالب علم سیاسی کیڈر اور مزدور ٹریڈ یونینسٹ جو انھیں رجعت پرست بیانیہ کی ردتشکیل کی تربیت دیتا۔

جمہوری سیاست گلیوں، محلوں ، بازاروں ، تعلیمی اداروں اور کارخانوں ،فیکٹریوں سے بے دخل ہوچکی تھی اور انتخابی سیاست ڈرائنگ روم کی زینت بن چکی تھی ۔
عملی جمہوریت پسند سیاست سے محرومی آج کی نئی نسل کا سب سے بڑا المیہ ہے اور یہ اس خلاء کے ساتھ پروان چڑھی ہے۔

اس دوران کمزور ترین جمہوری سیاست اور جمہوریت پسند جماعتوں ( جن میں روایتی مذہبی سیاسی جماعتیں جماعت اسلامی ، جے یو آئی ایف بھی شامل ہیں) پر سب سے بڑا حملہ تو فوجی جنتا نے تحریک طالبان پاکستان جیسی مذہبی کلنگ مشین کے خوفناک حملوں سے کرایا اور ان حملوں میں پیپلزپارٹی ، اے این پی ، جے یو آئی جیسی جماعتوں کے بہترین سیاسی کارکن اور لیڈر مارے گئے اور ان کی عوام تک رسائی کے بچے کچھے راستے بھی مسدود کر دیے گئے ۔ دوسرا خودکش حملہ پروجیکٹ عمران خان تھا جو اس جنتا کے اپنے گلے پڑ گیا ۔

بلوچستان میں فوجی جنتا نے تمام روایتی قوم پرست جماعتوں ، جے یو آئی ایف کو ایک طرح سے پارلیمانی سیاست سے باہر کر دیا اور اپنی حملہ آوری و قبضہ گیری کے ساتھ سیاست کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنے کے اقدام نے قومی حقوق کی لڑائی کا راستہ  مسلح جدوجہد کے لیے چھوڑ دیا ۔

جمہوری سیاسی عمل کا تجربہ نہ رکھنے والے مگر فوجی جنتا کی ریشہ دوانیوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے والے پنجاب اور کے پی کے میں درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والی نوجوان نسل کے ایک بہت بڑے حصے کے پاس فوجی جنتا سے نفرت کرنے کی طاقت تو ہے لیکن ان کے شعور پر ضیاع الحق اور پوسٹ ضیاع الحق دور کی جو گمراہ کن چھاپ ہے وہ بار بار ان کے راستے کی رکاوٹ بن رہی ہے۔

پاکستانی سماج میں میری نسل کے لوگ جو اب 40 سے 55 سال کی عمر کے درمیان ہیں جن کے پاس جمہوریت پسند شعور بھی ہے لیکن وہ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں میں حاشیے پر پڑے ہوئے ہیں جن کے پاس ابھی مزید 10 سے 20 سال ہیں کہ وہ نئی نسل سے انٹریکشن میں اور مکالمے میں آئیں لیکن وہ سوائے انتہائی محدود قسم کی
Social intervention
کے کچھ نہیں کر پا رہے ۔
میرے جیسے لوگ بھی بہت کم ہیں جو نئی نسل کے
Fourious anger, frustration , extremely aggression and cult oriented tendencies
اور ایک نیا کرادری مظہر
Characteristic phenomenon
جسے ہم بہت سادگی سے
Trolling attitude
کہہ سکتے ہیں کے سامنے اپنا
Patience
نہ کھو بیٹھیں اور نئی نسل کے ان رویوں کے پیچھے موجود
Deeply rooted retrogressive indoctrination and intensive sense of insecurity
کا ادراک رکھتے ہوں ۔
نئی نسل کی اس بے یقینی اور دھوکہ دہی کے احساس
Sense of disbelief and of betrayal
کے پیچھے ان خوابوں کی بدترین تعبیر اور ان کے جھوٹ نکل آنے کا بڑا ہاتھ ہے جو انھیں “ریاست ماں جیسی ہوتی ہے” ، ” جرنیل خاموش مجاہد ہوتے ہیں”، “ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے” ، ” پہلے روس بکھیرتے دیکھا تھا اب امریکہ ٹوٹتے دیکھیں گے ” ” سبیلینا سبیلینا، الجہاد الجہاد” ” کشمیریوں سے رشتہ کیا لا الہ الا اللہ” ، “دس کروڑ نوکریاں، ڈالر آئیں گے”، “بڑا مجاہد بنا پھرتا ہے جو بچوں سے ڈرتا ہے سے ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے” کے نام پر دکھائے گئے تھے ۔

یہ نئی نسل جمہوریت پسند سیاست دانوں کے جانشینوں اور ان کے مٹھی بھر شاگردوں کی بار بار کی جمہوریت سے غداری اور مال و منال کے ڈھیر لگاکر اس ملک کی بدترین معاشی حالت کا سارا بوجھ درمیانے طبقے اور غریب عوام پر ڈالنے کے سبب بھی شدید غصے میں ہے ان کا بس چلے تو یہ اس ملک کے تمام ڈی ایچ ایز، بحریہ ٹاونز جیسی اشراف بستیوں اور اس ملک میں اشرافیہ کے محلات کو آگ لگادے یا خودکش بن کر وہاں پھٹ جائے ۔

اس نسل کے پاس منفی اور نفرت انگیز شعور کی کوئی کمی نہیں ہے ،کمی ہے تو بس اس نفرت اور منفی شعور کو مثبت جمہوری طاقتور جذبے میں بدلنے کی ۔
مجھے اپنی نسل کے ان تمام لوگوں پر ترس اور رحم آتا ہے جو نئی نسل کے بے پناہ غصے، نفرت ، تناو، فرسٹریشن اور ان کی ٹرولنگ کی بنیاد اور جڑیں سمجھنے کی بجائے ان کو
Cult oriented and following
کے طعنے دے کر ان کے مقابلے میں
Slang invention
میں دن رات مصروف ہیں ۔ وہ انھیں جیتنے سے زیادہ انھیں بچھاڑنے اور اپنے علم و تجربے کے رعب تلے دبانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سب سے بڑی بد بختی اور مذاق موجودہ ہائبرڈ سسٹم کا حصہ بننے والی جمہوریت پسند جماعتوں نے کیا ہے انھوں نے اپنا سوشل میڈیا ان نوجوان لوگوں کو سونپ رکھا ہے جن کے پاس نہ تو سیاسی تجربہ ہے نہ جمہوری سیاست کی تاریخ کے وہ شناور ہیں اور نہ ہی ان کے پیش نظر عظیم جمہوری و سماجی انصاف کے آدرش ہیں ان کی اکثریت
Worst form of opportunism and cheap careeristic marshes
میں گردن تک دھنسی ہوئی ہے ۔ سب سے بڑھ کر یہ جمہوری علم سے کوسوں دور بلکہ اس سے نفرت کرتی ہے ۔
ہم جیسے ایک
Vicious dichtomous crisis
سے نبرد آزما ہیں جس سے لڑتے ہوئے ہماری ہمت بار بار ٹوٹتی اور قدم بار بار لڑکھڑا جاتے ہیں ہم نہ تو جمہوریت پسند کیمپ میں چل رہے موقعہ پرستی کے جھکڑوں کے ساتھ خود کو گھومتے چلے جانے کی اجازت دے سکتے ہیں نہ ہی کسی جعلی مہاتما کے قدموں میں گر سکتے ہیں ۔ ہم یہی کرسکتے ہیں کہ جو دل پہ گزرے اسے رقم کرتے جائیں ۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply