اپنی ناک کی لمبائی سے متعلق مُلانوراللہ کا تبصرہ سن کر میں خاموش ہوا۔ میں نے خود اس سے قبل اپنی ناک کی لمبائی بارے سوچا نہیں تھا۔ اس لئے میں ان کے تبصرے سے لاتعلق ہوا۔ میں ان کی باتیں کانوں سے سن رہا تھا لیکن میری آنکھیں مسلسل اردگرد کے ماحول کو دیکھنے میں مصروف تھیں۔
پہاڑیوں نے جلال آباد کے میدانی علاقے کو ہالہ بناکر لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ جلال آباد براؤن رنگ کے درودیواروں پر مشتمل شہر ہوگا، مگر یہ دیکھ کر میری خوشی بڑھ گئی کہ پختونوں کا یہ شہر ایک سر سبز نخلستان جیسا منظر پیش کررہا تھا۔ دریائے کابل کا پانی بڑی فراوانی کے ساتھ اسے سیراب کررہا تھا۔
یہ اس ماحول میں نظر آنے والا اکلوتا خوش نما منظر تھا۔ اس کے علاوہ وہاں نظر آنے والی ہر چیز بے حد مایوس کن تھی۔ چلتے ہوئے لوگوں کے چہروں سے تھکاوٹ عیاں تھی۔ جیسے وہ کئی صدیوں سے سفر میں ہوں۔
دور تلک بکھری ہوئی عمارتوں پر خستہ حالی اور تباہی کے آثار نمایاں تھے۔ شہر کے درمیان سے گزرتے ہوئے لوگوں کی غربت کا حال دیکھ کر مجھے حیرت کا جھٹکا سا لگا۔
وہ بغیر چھت کی کھلی گدھے گاڑیوں پر سفر کرنے پر مجبور تھے۔کھلے چوڑے کپڑے پہنے ہوئے کچھ نوجوان لاغر ،دبلے پتلے اور کمزور گھوڑوں اور افسردہ قسم کے خچروں کی ننگی پیٹھوں پر سواری کرتے نظر آرہے تھے۔
اس ماحول کو دیکھ کر میں بھی صدیوں پیچھے چلاگیا ۔ مجھے خود پر ایسا گمان ہونے لگا جیسا کہ میں صدیوں کا مسافر ہوں اور ابھی ابھی سفر سے واپس آگیا ہوں ۔میں پلک جھپکتے ہوئے سو سال پیچھے چلاگیا۔
اس دوران مُلا نور کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ،جو میرے والد سے کہہ رہے تھے کہ آپ میرے کسی ایک مکان میں رہائش اختیار کروگے۔ کچھ دن قیام کے بعد آپ کو جلال آباد میں واقع سابق شاہی محل بطور رہائش گاہ دیاجائے گا۔ یہ شاہی محل افغانستان کے سابق شاہی خاندان کے زیر استعمال رہنے والا محل تھا۔
جلال آباد کی ویرانی چھائی عمارتوں سے گزرتے ہوئے ہمارے گاڑیوں کا قافلہ اچانک ایک بڑے عالیشان بنگلے کی طرف مڑ گیا۔
یہ سفید رنگ ایک وسیع اور کشادہ بنگلہ تھا۔ جو ملانور کی ملکیت تھا۔ پچیس کمروں پر مشتمل اس کمرے کے اندر ایک اور جہاں بسا ہوا تھا۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس شہر میں ایسے لگژری لائف بھی ممکن ہے۔
بہت سارے بہن بھائیوں کے سبب مجھے کبھی الگ کمرے میں رہنے کی سہولت نہیں ملی تھی۔ مجھے یہاں اپنا خواب پورا ہوتا نظر آیا۔ مگر مجھے اس وقت جھٹکا لگا جب میرے والد نے مُلا نور سے تہہ خانے میں رہنے کا انتظام کرنے کی درخواست کردی۔ مُلا کے لوگوں نے ہم دونوں کے لئے ایک تاریک کمرے میں دو چارپائیاں بچھائیں۔ جبکہ میرے والد کے آدمی اسی تاریک بیسمنٹ کے برابر والے کمروں میں سوگئے۔
مُلا نے ہمارے لئے باورچی رکھا، مگر میرے والد نے حسب معمول اسے سادہ اور ہلکا کھانا بنانے کی تاکید کرتے رہے۔ مُلانور وقتا فوقتاً میرے والد کو لذیذ کھانوں کی رغبت دلاتے رہے، مگر والد نہیں مانے۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں