مانسہرہ میں ہم بھیگتے بھگاتے قریبی مسجد میں چلے گئے تاکہ نمازیں بھی ادا کر لیں اور کچھ آرام بھی کر لیں ، نماز پڑھ کر اور تھوڑی دیر کمر ٹکا کر ہم سب تو چلے گئے باہر لیکن محمد ہمارے سامان کے پاس ہی رہے ، وجہ بنی محمد کی داڑھ کا درد جو شدت اختیار کر گیا تھا خیر محمد نے رخ کیا نیند کی آغوش کا اور ہم سارے ناشتے کیلئے چلے گئے ، چھولے پراٹھے ، دال اور سبزی کا ناشتہ گرما گرم چائے کے ساتھ کیا اور پھر ہم “مان سنگھ” کے مانسہرہ کی سیر کو نکل گئے ، پیدل ہی ہم بازار سے ہوتے ہوئے ایک پہاڑی کی ظرف روانہ ہوئے لیکن جوں جوں ہم اس پہاڑی کے قریب ہوتے جاتے وہ پہاڑی ہم سے دور ہوتی چلی جاتی ، یعنی پہاڑی ہم سے کافی دور تھی اس لئے فیصلہ کیا کہ واپس لوٹ جاتے ہیں ، ہم وہاں سے واپس لوٹ ہی رہے تھے کہ پانی بہنے کی آواز نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا کہ جیسے کوئی آبشار ہو، پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک گندا نالہ بہہ رہا تھا پھر ہمیں سمجھ آیا کہ وہ جو ہمیں دریا نظر آ رہا ہے وہ دریا نہیں بلکہ اس نالے کی بڑی شاخ ہے ، یہ دیکھ کر ہم واپس لوٹ گئے اور جا کر محمد کو اٹھایا کہ چلو بھئی اب ناران کاغان بھی جانا ہے۔۔
لیکن جب ہم گاڑی کا پتا کرنے نکلے تو معلوم چلا کہ کاغان تو جا سکتے ہیں لیکن ناران نہیں ، ارے یہ کیا بات ہوئی بھئی “ناران ، کاغان” میں ناران پہلے آتا ہے پھر کاغان آتا ہے نا۔۔۔۔نہیں بھائی صاحب یہ آپ کا غلط فہمی ہے پہلے کاغان آئے گا پھر ناران آئے گا!
“اس سے پہلے شوگران آئے گا ، بولے تو آپ کو وہاں لے جائے؟” بیچ میں ایک دوسرا گاڑی والا بولا.
نہیں بھئی ہم نے تو “ناران” ہی جانا ہے۔۔۔ہم بھی بضد تھے لیکن سب ہی سچائی کے ساتھ کہے جا رہے تھے کہ “ناران بند ہے”
بالآخر ہمارا فیصلہ “چاچا ارشاد” کے ساتھ جانے کا ہوا ، جنہوں نے وعدہ کیا کہ “جہاں تک کوئی روکے گا نہیں میں آپ کو لے جاؤں گا”
ہم نے سارا سامان Hi-Roof (کیری ڈبہ) میں اندر کو ہی ٹکایا اور پھر خود بھی بھر گئے یوں ہمارا ایک نیا سفر شروع ہوا۔۔۔۔
پھر وہی پہاڑ ، کھائیاں ، کچے پکے مکانات ، بھیڑوں کے لشکر ، باغات ، بارش اور مزے مزے کی باتیں ، اور کچھ دیر بعد ہماری مخالف سمت میں بہتا ہوا دریاء کنہار!
کیا ہی خوبصورت منظر تھا ، دیکھتے ہی دل چاہا کہ یار گاڑی رکوا لی جائے ، ہم نے چاچا ارشاد سے کہا تو ارشاد فرمانے لگے کہ بس دو منٹ میں روکتا ہوں ، اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ یہ “دو منٹ” والا جھوٹ کتنا مشہور و معروف جھوٹ ہے ، ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا ، “انکل اب تو بیس منٹ ہو گئے” میرا اب متلی سے برا حال تھا ، لیکن چاچا پھر وہی دو منٹ والا لولی پاپ دے رہے تھے۔۔۔
تقریباً آدھے گھنٹے بعد دو منٹ پورے ہوئے اور ہم ایک خوبصورت پوائنٹ پر اترے ، ایک طرف شاندار سا ہوٹل تھا اور دوسری طرف ترتیب سے رکھی ہوئی اس ہوٹل کی کرسیاں ، ذرا نیچے کو اتر کر دریا کنہار کا ٹھنڈا ٹھار پانی ، جس کے کنارے جھرمٹ کی طرح سائے کئے ہوئے درخت۔
ویسے ہم میں کوئی چائے کا شوقین نہیں تھا ورنہ دریا دیکھ کر وہ تو پاگل ہی ہو جاتا کیونکہ یہ دریا پانی کا نہیں چائے کے دریا کا منظر پیش کر رہا تھا ، اور یہ صرف اس دریا کا حال نہیں تھا بلکہ بارش کی وجہ سے دریاء کنہار ، دریاء نیلم ، دریاء سوات اور دریاء جہلم سب ہی چائے کے دریا بنے ہوئے تھے لیکن یہ چائے گرما گرم نہیں بلکہ “کولڈ ٹی” تھی ، جس میں کچھ دیر ہاتھ رکھنے کے بعد دوسرے سے پوچھنا پڑ جائے کہ “بھائی ذرا بتانا میرے ہاتھ میں ہاتھ ہے بھی یا میں اپنے ہاتھ دھو کر ہاتھ سے ہی ہاتھ دھو بیٹھا ہوں”
ابھی ہم بیر کے درختوں کا معائنہ ہی کر رہے تھے کہ محمد واش روم سے نکل کر ایک دم گر گئے ، اللہ خیر کیا ہوا بھئی ، سب خیریت ہے نا؟
جلدی جلدی دیکھا تو سر سے خون نکل رہا تھا ، عبید نے زخم پر ہاتھ رکھا اور لا کر گاڑی میں بٹھا دیا ، زخم کو صاف کیا اور سنی پلاس لگا کر ہم محمد کے اس مقولے کے ساتھ اپنی منزل کو روانہ ہوئے کہ “لو جی شہداء بالاکوٹ کے خون میں میرا خون بھی مل گیا ہے”
کیا آپ جانتے ہیں یہ شہداء بالاکوٹ کا خون آخر ہے کیا؟ اگر نہیں تو آئیے ذرا تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں اور اپنے اسلاف کا تذکرہ پڑھتے ہیں!
بالاکوٹ میں شہید ہونے والوں کی ابتداء شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے پوتے شاہ اسماعیل شہید اور شاہ عبد العزیز کے شاگرد شاہ احمد شہید سے ہوتی ہے ، ان دونوں کو سیدین شہیدین کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ، اور ان کی تحریک “تحریکِ مجاہدین” یا “تحریک استخلاصِ وطن” کے نام سے جانی جاتی ہے ، مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ اور ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد یہ تحریک اٹھی جس نے اسلام کا جھنڈا بلند کیا اور بادشاہی مسجد کو اصطبل بنا دینے والے اور مسلمان عورتوں کو بطورِ رہن (گروی) اپنے پاس رکھنے والے سکھوں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا جن کی پشت پناہی انگریز کر رہا تھا ، اس تحریک کا جامع ترین تعارف خورشید عالم نے ان الفاظ میں لکھا ہے کہ:
یہ تحریک سید احمد شہید رحمہ اللہ اور مولانا اسماعیل شاہ شہید رحمہ اللہ کی زیر قیادت اللہ کے نام پر اٹھی تھی۔ جس کا مقصد اعلاء کلمۃ اللہ، استخلاص وطن اور مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ اور شوکتِ گم گشتہ کی واپسی تھا۔ اس تحریک سے وابستہ نفوس قدسیہ سر پر کفن باندھ کر میدان میں اترگئے۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے دشوار گزار گھاٹیوں، برف پوش پہاڑوں، بے آب وگیاہ صحراؤں، خوف ناک دروں اور مہیب غاروں کو اپنا مسکن بنایا، اور ہمالیہ کی فلک بوس چوٹیوں سے لے کر وادی کشمیر، درہ امبیلا تک ، مدراس سے خلیج بنگال کے کناروں تک کی زمینوں کو اپنے دوروں اور تقریروں سے ہی نہیں بلکہ اپنے خون سے رنگین بنادیا۔”
یہ تحریک نا صرف دعوتی میدان میں بلکہ میدانِ جہاد میں بھی اپنا کردار ادا کرتی رہی ، جہاں جہاں سے سیدین کا قافلہ گزرتا مسلمان اس تحریک کا حصہ بن جاتے بلکہ رنجیت سنگھ سے تنگ آئے ہندو بھی سیدین کے ممنون و مشکور نظر آتے ، اسی دوران کاشغر سے شاہ سلیمان کی دعوت آئی ، ادھر کشمیر میں بھی لوگ سیدین کو بلا رہے تھے اور فیصلہ ہوا کہ کشمیر کو چلے جائیں ، لیکن اسی دوران کچھ اپنے ہی غداری پر اتر آئے اور غیر کی صفوں میں جا ملے ، قافلہ آگے بڑھتا رہا اور شیر سنگھ گھیرا تنگ کرتا رہا ، کچھ اپنوں کو خریدا کچھ غیروں کا حوصلہ بڑھا ، اور ۱۸۳۰ کی ایک شام سر زمینِ بالاکوٹ پر گھمسان کا رن پڑا ، اور مسلمانوں کی امیدوں کے محور سیدین سر زمینِ ہزارہ کی کلیوں کو خونِ جگر دے کر شہیدین ہو گئے ، جس پر شورش کاشمیری نے کہا کہ:
واہ رے تیرا کیا کہنا سرزمین ہزارہ
تو نے جب بھی مارا سید کو مارا
ہم شہداء کی اس سر زمین کو تو چھوڑ آئے لیکن سیدین کے مشن کو نہ چھوڑنے کا عزم آج بھی باقی ہے۔۔۔۔

جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں