پھر وہی مسلم مخالف پروپیگنڈا/ابھے کمار

سوموار کے روز، چوتھے مرحلے کے انتخابات اختتام پذیرہوئے۔اب صرف تین مراحل کے الیکشن باقی رہ گئے ہیں۔مگر جس قدر بر سر اقتدار بی جے پی مسلم مخالف پروپیگنڈے کا سہارا لے کر انتخابات جیتنے کی مذموم کوشش کر رہی ہے، وہ ملک کی جمہوریت کے لیے تشویش کا باعث ہے۔بھاجپا کسی طرح یہ ثابت کرنے کو بے چین ہےکہ حزب اختلاف مسلمانوں کی جماعت ہے اور وہ دلت، ادی واسی اور او بی سی مخالف ہے، جبکہ زعفرانی جماعت ہندوؤں کی واحد اور ان کی سب سے بڑی خیرخواہ تنظیم ہے۔ایک نہیں بلکہ کئی مواقع پر، بھگوا لیڈران مسلمانوں کا ڈر دکھلا رہے ہیں۔ان کی یہ کوشش ہے کہ مسلمانوں کے خلاف دلتوں، آدی واسیوں اور پسماندہ ذاتوں کو کھڑا کرکے، ان کا ووٹ حاصل کیا جائے۔اس بار تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ بی جے پی مسلمانوں کو نشانہ بنانے میں اپنے ہی سابقہ ریکارڈ کو توڑنے جا رہی ہے،مگر مایوسی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس پروپیگنڈے کو ہوا دینے میں، ملک کے وزیراعظم  پیش پیش  ہیں۔وزیر اعظم، جو ایک سو چالیس کروڑ  ہندوستانیوں کا لیڈر ہے، وہ صرف انتخابات جیتنے کے لیے، سماج میں زہر کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔

گزشتہ ہفتوں کے اخبارات کے صفحات نریندر مودی کے انتخابی ریلیوں کی کوریج سے بھرے پڑے ہیں۔ٹی وی چینلز بھی ان کی  ہی تقاریر اور بیانات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ان کی انتخابی تقریر میں، خواہ شمال بھارت میں دی گئی ہو یا پھر جنوبی بھارت میں، ایک خاص قسم کا پیٹرن دکھائی دے رہا ہے۔اپنی بیشتر تقاریر میں  مودی یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کانگریس دلتوں، آدی واسیوں اور او بی سی کے حقوق کو چھیننے کی سازش رچ چکی ہے۔ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کانگریس محکوم طبقات کے ریزرویشن کو مسلمانوں میں بانٹ دینے کو بیتاب ہے۔دُکھ کی بات ہے کہ مودی یہ سب بغیر کسی پختہ ثبوت کے بولے جا رہے ہیں۔ان سے ذمہ داری طلب کرنے کی ہمت کوئی نہیں کر رہا ہے۔میڈیا تو ان کی تعریف کرنے میں ہی مصروف ہے۔حالانکہ الیکشن کمیشن نے کرناٹک بی جے پی کے ایک انتہارئی فرقہ وارانہ اشتہار کو سوشل میڈیا سے ہٹانے کا حکم جاری کیا ہے۔مگر عوام کی توقعات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن مزید فعال بنے اور وہ انتخابی مہم کو فرقہ واریت کے زہر میں ڈوبنے سے بچائے۔کمیشن کو چاہیے کہ وہ مودی کے بیانات پر غور کرے۔ایک ریلی کے بعد دوسری ریلی میں وہ مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرتے نظر آ رہےہیں۔

مثال کے طور پر راجستھان کے ٹونک ضلع میں  مودی نے ۲۳ اپریل کو ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے  یہ الزام عائد کیا کہ اگر کانگریس اور ان کی اتحادی جماعت اقتدار پر قابض ہو جائے گی، تو وہ دلتوں اور او بی سی کمیونٹی کے ریزرویشن کو لوٹ کر  ایک خاص جماعت میں بانٹ دے گی۔ایک خاص جماعت سے ان کا اشارہ مسلمانوں کی طرف تھا۔انہوں نے اپنی اسی تقریر میں کہا کہ بابا صاحب امبیڈکر نے دلتوں، آدی واسیوں اور بیک وارڈ طبقات کو ریزرویشن دیا، جبکہ کانگریس مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کو ریزروشن دینا چاہتی ہے اور اس طرح دلتوں، آدی واسیوں اور او بی سی کمیونٹی کا   حق مارنے   جا رہی ہے۔مودی نے اس تقریر میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کا ۲۰۰۶ میں دیے گئے ایک بیان کو بھی توڑ مروڈ کر پیش کیا اور کہا کہ ڈاکٹر سنھگ نے کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔دو دن پہلے، راجستھان کے بانس واڑا میں  مودی نے مسلمانوں کا ڈر اکثریتی طبقہ میں پیدا کرنے کی پوری کوشش کی۔وزیر اعظم نے کہا کہ کانگریس اگر اقتدار میں آئی تو وہ عوام کی دولت کو ہڑپ کر اسے ان میں بانٹ دے گی، جن کے پاس زیادہ  بچے  ہیں اور جو درانداز ہیں۔بھگوا جماعت کے لیڈران مسلسل مسلمانوں پر یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ بچے پیدا کرکے  ملک کی ڈیموگرافی بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔بھگوا جماعت دہشت گردوں، جرائم پیشوں اور دراندازوں کو بھی ایک خاص مذہب سے جوڑنے کی مذموم کوشش کرتی ہے۔

اس طرح کی باتیں، ۷ مئی کی مدھیہ پردیش ایک ریلی میں مودی نے پھر کہیں۔انہوں نے الزام لگایا کہ جو چارہ گھوٹالہ کا ملزم ہے اس نے مسلمانوں کو پورا ریزرویشن دینے کی بات کہیں ہے۔وہ بہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد کے اس بیان کی مذمت کر رہے تھے، جس میں انہوں نے مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کی حمایت کی ہے۔مودی نے مزید کہا کہ لالو کا بیان اس بات کی دلیل ہے کہ انڈیا اتحاد دلتوں، آدی واسیوں اور او بی سی کا حق غصب کرنا چاہتا ہے اور انہیں مسلمانوں میں تقسیم کر نے کی سازش کر رہا ہے۔مودی کے الزامات صرف ریزرویشن تک ہی محدود نہیں ہیں ۔مودی نے سیکولر جماعت پر نشانہ سادھتے ہوئے کہا کہ اس نے گودھرا کے حملہ آوروں کو بچانےکی کوشش کی۔سال ۲۰۰۲ کے گجرات فسادات کے دوران ہزاروں کی تعداد میں   ہلاک ہوئے تھے، جن کی غالب اکثریت مسلمانوں کی تھی۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ فساد زدہ عوام کو تحفظات فراہم کرنے میں مودی ناکام رہے تھے۔ تبھی تو تب کی اٹل بہار باجپائی کی مرکزی حکومت میں معاون جماعتوں نے مودی کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔مگر آخری وقت پر لال کرشن اڈوانی اور سنگھ پریوار کی ایک بڑی لابی نے ایسا نہ ہونے دیا اور مودی کو بچا لیا۔آج وہی مودی الٹے سیکولر پارٹیوں پر یہ الزام لگا رہےہیں کہ انہوں نے مسلم حملہ آوروں کو بچانےکی کوشش کی۔اپنی انتخابی ریلی میں، مودی نے مسلمان کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی کھسیٹا ہے۔۳ مئی کو آنند، گجرات میں تقریر کرتے ہوئے  مودی نے کہا کہ پاکستانی لیڈران کانگریس کی جیت کے لیے دعا کر رہے ہیں۔اس طرح مودی مسلمان، پاکستان اور کانگریس کو ایک صف میں لا کر کھڑا کرنے کی کوشش کر ہے تھے اور بی جے پی کو دیش بھکت اور ہندو نواز بتلا رہے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مودی کبھی یہ نہیں بتلا رہے ہیں کہ انہوں نے دلتوں، آدی واسیوں اور او بی سی کے لیے کیا کیا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ بات میڈیا آپ کو نہیں بتلائے گا کہ کانگریس پارٹی کے انتخابی منشور میں مسلمان لفظ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔وہیں اس نے ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کے نام کئی مرتبہ لیا ہے۔ کانگریس یہ چاہتی ہے کہ مسلمان سیکولرازم کے نام پر آنکھ بند کر اور خاموشی سے اسے ہی ووٹ کرے اور اقتدار کی کرسی پر بیٹھا دیں۔مگر بی جے  پی کو ان باتوں سے کوئی مطلب نہیں ہے۔اس نے پہلے ہی یہ بات ٹھان لی تھی کہ اسے مسلمانوں کی منہ بھرائی کے لیے کانگریس کو ہر حال میں ٹارگٹ کرنا ہے۔یہ بات مودی کبھی نہیں بولتے کہ ان کی معاون جماعت این سی پی نے فروری میں ایک قرار داد پاس کر کے مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کی بات کہی تھی۔حالانکہ این سی پی کا یہ قرار دار بھی علامتی ہی دکھائی دے  رہا ہے۔مگر پھر بھی مودی کو یہ ہمت نہیں ہے کہ وہ اجیت پوار پر سوال اٹھائے کیونکہ ان کی حمایت سے مہاراشٹرا کی بی جے پی اور شیو سینا کی حکومت چل رہی ہے۔جو بی جے پی آج مسلم ریزرویشن  میں  ڈر پیدا کر رہی ہے وہ اس تاریخی حقیقت پر بھی بات نہیں کرنا چاہے گی کہ سردار پٹیل، جن کو وہ اپنا ہیرو مانتی ہے،نے قانون ساز اسمبلی کے مشاورتی کمیشن کی قیادت کرتے ہوئے، اقلیتوں بشمول مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کی بات کہی تھی۔یہ دوسری بات ہے کہ جب آئین بن کر تیار ہوا تو مسلمانوں کے ہاتھوں سے ریزرزیشن چھین لی گئی ۔یاد رہے کہ مسلمانوں کو ریزرویشن انگریزوں کے دور میں ملتا تھا،جسے آزاد بھارت میں گناہ سمجھا جانے لگا۔آج مسلمان اپنی آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ جیلوں میں ہیں ، جبکہ اس کی نمائندگی کالجوں، یونیورسیٹوں، نوکریوں اور کاروبار میں بہت ہی کم ہے۔آج ان کو ہندوستانی سیاست میں الگ تھلک کر دیا گیا ہے۔افسوس کی بات کہ  مسلمانوں کو آگے لانے کی بجائے، ان کو ہی کھلنایک بنا کر سیاست ہو رہی ہے۔
مضمون نگار نے جے این یو سے جدید تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ 

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply