پھول توڑنا منع ہے/جاوید ایاز خان

ہمارا سکول بڑا خوبصورت ہوا کرتا تھااور اس سے بھی زیادہ ہمارے ہیڈ ماسٹر محمد رحیم خان سدو زئی مرحوم ایک نہایت خوبصورت ذہن اور سوچ رکھنے والے انسان تھے ۔وہ ہر وقت اسکول کو مزید خوبصورت بنانے کی فکر میں رہتے تھے کیونکہ پھولوں کو ہماری تہذیب و ثقافت کا لازمی حصہ سمجھا جاتا ہے ۔پھولوں کی رنگا رنگ بہار ہماری اجتماعی اور ثقافتی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔اس لیے انہوں نے اسکول کے اردگر د نہایت خوبصورت پھولوں کی کیاریاں بنوائی تھیں۔ جن میں بےشمار رنگ برنگ پھول اور پودے لگواے اور اس کام کی نگرانی وہ خود کرتے تھے ۔پھولوں اور پودوں کی حفاظت پر بہت توجہ دیتے تھے ۔انہوں نے کیاریوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے بورڈ لگواے جن پر لکھا ہوتا تھا “پھول توڑنا منع ہے ” ۔وہ فرماتے تھے کہ پھول زندگی ہوتے ہیں اور پھول توڑنا دراصل زندگی کا قتل ہوتا ہے۔

ایک مرتبہ میں نے پوچھا جناب پھول تو خوبصورتی اور خوشبو ہوتے ہیں پھر یہ زندگی کیسے ہوئے؟ تو انہوں نے سمجھایا کہ برخوردار پھول دراصل پودے کی افزائش نسل کا کام کرتا ہے یہ عام طور پر نر اور مادہ حصوں پر مشتمل ہوتا ہے ان دونوں کے ملنے سے بیض بنتے ہیں۔ اکثر تتلیاں اور بھنورے یا پرندے ان دونوں کے ملاپ کا باعث بنتے ہیں اور پودے انہیں مختلف طریقوں سے اپنی طرف کھنچتے ہیں ۔ان طریقوں میں رنگ ،خوشبو ،اور رس وغیرہ شامل ہیں پھولوں میں لگے بیج پودوں کی بقا اور ان کی نسل کو آگے بڑھانے کا م سرانجام دیتے ہیں ۔پودوں کی زندگی کی بقا پھولوں کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔پودوں کی دلکش نسلیں پھولوں کی ہی مرہون منت ہوتی ہیں ۔اس لیے پھول توڑنا ایک طرح سے پودوں کی زندگی کا اختتام ہوتا ہے ۔بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ پھول توڑنا قتل کے مترادف ہے ۔بات میری سمجھ میں آگئی اور پھر میں نے پھول توڑنے سے ہمیشہ پرہیز اور احتیاط برتی ہے ۔کبھی پھول کو شاخ سے جدا نہ کیا ۔پھر میں نے ہیڈ ماسٹر صاحب سے پو چھا کہ اگر پھول توڑنا منع ہے تو ہم گلدستوں اور ہاروں کے لیے پھول کیوں توڑتے ہیں تو فرمایا برخوردار پھول توڑنے اور پھول چننے میں فرق ہوتا ہے پھول اور پھل ایک خاص وقت پر توڑے جاتے ہیں ۔اپنی چند لمحوں کی خوشی اور خوشبو کے لیے دوسروں کو دنیا کو ان کی خوبصورتی سے محروم کرنا جائزنہیں اس پر سب کا حق ہوتا ہے ۔پھر میں نے ہر نرسری ،باغ ،باغیچہ،اسٹیڈیم اور پارک میں اس طرح کے بوڑد پڑھے جو ایک اچھا تاثر دیتے تھے ۔گو پھول توڑنے سے لوگ رکتے تو نہ تھے مگر اس عمل میں کمی ضرور آتی تھی ۔یہ سائن بوڑد کوئی رکاوٹ نہیں ہوتے تھے۔ بلکہ صرف اسپیڈ بریکرز کا کام کرتے تھے ۔نقصان کو جس قدر کم کیا جاسکے وہ بہتر ہی ہوتا ہے ۔ہمارے ڈیرہ نواب صاحب میں اسکول ،ہسپتال یہاں تک کہ دارالاطفال کے باہر بورڈ آویزاں تھے کہ “یہاں ہارن بجانا منع ہے “تاکہ مریضوں کے آرام اور طلبہ کی پڑھائی متاثر نہ ہو سکے ۔ اکثر باغوں میں بورڈ لگے تھے ” یہاں کچے پھل توڑنا سخت منع ہے ” مختلف مقامات پر آپ کو یہ لکھا بھی نظر آتا تھا کہ “یہاں تھونکنا منع ہے ” یا صرف ” تھوکنا منع ہے ” پبلک مقامات پر لکھتے تھے کہ ” یہاں سگریٹ پینا منع ہے “یا کہ “سگریٹ کا دھواں مضر صحت ہے ” یا پھر “صفائی نصف ایمان ہے ” اور” گندگی پھیلانا منع ہے “‘بجلی کے کھمبوں پر بورڈ آویزاں ہوتے تھے کہ “کھمبے کو چھونا منع ہے ” یا پھر درج ہوتا تھا “خطرہ ۴۴۰والٹ ” اور ساتھ ہی خطرے کا نشان بنا دیا جاتا ہے ۔فٹ پاتھ پر بورڈ لگے تھے “پیدل چلنے والے فٹ پاتھ پر چلیں سڑک پر چلنا منع ہے “یا پھر ہدایت ہوتی کہ ” اپنی سائیڈ پر چلیں ” اور پھر “دیوار پر لکھنا منع ہے “ہم نے آج تک ان ہدایات پر عمل نہ کرنے والوں کو کوئی سزاہوتے نہیں دیکھی کیونکہ یہ تمام سائن بورڈ قانون سے زیادہ ہماری اخلاقیات اور احساسات سے متعلق ہوتے تھے ان کا مقصد لوگوں میں شعور اور احساس ذمہ داری پیدا کر نا ہوتا تھا شاید خلاف ورزی پر سزا دینا ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا شرمندہ کرنا ہی کافی ہو جاتا تھا ۔لیکن رفتہ رفتہ یہ سائن بورڈ اب نظر سے اوجھل ہوتے جا رہے ہیں یا تو لوگوں کو شعور آچکا ہے ؟ یا پھر ان کی ضرورت ختم ہو گئی ہے ؟یا پھر کسی کو اس جانب توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں ہے ؟

چند دن قبل میرے ایک دوست جو ایک بڑے آرٹسٹ بھی ہیں اور ایک حساس دل کے مالک ہیں ۔مجھے کہنے لگے جاوید صاحب یہ سائن بورڈ کون لگاتا تھا اور اب کیوں نہیں لگائے جاتے ؟ پھر فرمانے لگے صبح جب پارک میں چہل قدمی کو جاتا ہوں تو پھولوں ،پودوں اور گھاس کی بربادی دیکھ کر دل دکھنے لگتا ہے ۔لوگ واکنگ ٹریک کی بجائے گھاس اور کیاریوں کو برباد کر رہے ہوتے ہیں ۔وہاں پھول تو کھلنے سے پہلے ہی توڑ لیے جاتے ہیں ۔ یہی نہیں پلاٹوں میں اس قدر گندگی پھیلا دی جاتی ہے کہ وہ صحت افزاء  جگہ نہیں رہتی ۔ کہتے ہیں ہارن صرف ایمرجنسی اور خطرے کی علامت ہوتا ہے لیکن سرکلر روڈ پر قائم بہاولپور کے سب سے بڑے ہسپتال اور قائد اعظم میڈیکل کالج کے سامنے سے گزرنے والی بے ہنگم ٹریفک جب ہارن بجا بجا کر گزرتی ہے تو مجھے مریضوں کے آرام کا خیال آتا ہے۔سرکاری دفتروں ،سٹرکوں ،فٹ پاتھوں ،مساجد اور مختلف پبلک اور تفریحی مقامات پر تھوک اور پان کی پیکوں کے دھبے اور نشان دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اور تو اور بعض دفاتر میں جہاں کاغذات پر انگوٹھے لگوائے جاتے ہیں لوگ انگوٹھے کو دیواروں سے صاف کرکے آرٹ کے نمونے بنا دیتے ہیں ۔مگر انہیں روکنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔بجلی کے کھمبوں پر اب کوئی تحریر نظر نہیں آتی ۔فرید گیٹ کے سامنے شہر کے بڑے بڑے اسکول واقع ہیں لیکن ٹریفک کا شور اور ہارن کی آواز ہر وقت سنائی دیتی ہے ۔کیا بچے بھی اس شور کےعادی ہو گئے ہیں اور ان کی پڑھائی پر اب کوئی اثر نہیں پڑتا ؟آخر یہ ہدایات والے سائن بورڈ لگانا کس کی ذمہ داری ہے ؟ یہ سائن بورڈ پہلے کیوں لگتے تھے اور اب کیوں نہیں لگائے جاتے ؟کیا ہماری قوم شعوری ترقی کے اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں ان ہدایات اور یاد دہانیوں کی ضرورت باقی نہیں رہی یا پھر ہم ان ناقابل عمل ہدایات ااور یاد دہانیوں کے سائن بورڈ لگا لگا کر تھک چکے ہیں ؟کیا ماحولیات کا ادارہ ان تمام چیزوں کو انسانی ماحول کے لیے مضر صحت نہیں سمجھتا ؟ کیا ہماری ٹریفک پولیس ہسپتالوں اور اسکولوں کے سامنے ہارن بجانے کو قانوناً جرم تصور نہیں کرتی ؟ہمارے اسکولوں کے ہیڈ ماسٹر اب اس جانب توجہ کیوں نہیں دیتے ؟ ہمارے متعلقہ ادارے اب یہ سائن بورڈ ز اور ہدایات کیوں نہیں لگاتے ؟ فٹ پاتھ اب پیدل چلنے والوں کے نہیں رہے وہ تو ناجائز تجاوزات کے قبضہ میں آچکے ہیں ۔فٹ پاتھ پر قابض اب پیدل چلنے والوں کو کہتے ہیں کہ میاں سڑک پر چلو نظر نہیں آتا یہاں میرا سامان رکھا ہے ۔کیا یہ پیدل چلنے والوں کے حقوق کا استحصال نہیں ہے ؟ ان ناجائز تجاوزات کی اجازت کون دیتا ہے ؟دیواروں پر اشتہارات لکھنے کا رواج ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ۔ہماری مساجد کی دیواریں بھی مختلف اشتہارات سے بھری پڑی ہیں آخر ایسا کیوں ہے ؟ جگہ جگہ سگریٹ نوشی کا سلسلہ کب رک سکے گا ؟ کیا صرف “سگریٹ پینا منع ہے ” لکھ دینا ہی کافی ہو سکتا ہے ؟کب تک سگریٹ کے دھوئیں سے دوسروں کو بیمار کرتے رہیں گے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

میں ان کی بات سن کر کوئی جواب نہ دے سکا البتہ مجھے احساس ہوا کہ ابھی ہماری قوم کو ان ہدایات کی مزید ضرورت ہے ماحولیات کے بارے میں ہمارے احساس ذمہ داری کو یقینی بنانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے یقینا” اس طرح کے سائن بوڑد اور ہدایات سے یہ برائی مکمل ختم تو نہیں ہو سکتی لیکن ان برائیوں میں کمی ضرور لائی جاسکتی ہے ۔کم از کم ان کی جانب توجہ تو دلائی جاسکتی ہے ۔اس سلسلے میں ہمیں انفرادی اور اجتماعی کوششوں کی اشد ضرورت ہے اور اس شعور کو اجاگر کرنے لیے ہم سب کو ملکر کام کرنا ہوگا ۔یہ ہمارےریاستی کے ادروں کے تعاون سے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ کیونکہ قانون پر عملدرآمد تو انہوں نے ہی کرانا ہوتا ہے ۔اسلام صفائی کو نصف ایمان قرار دیتا ہے اور اپنے کسی عمل سے کسی دوسرے کو تکلیف پہچانے کو گناہ سمجھتا ہے ۔راستے سے کانٹا اور پتھر ہٹا دینے کو صدقہ قرار دیتا ہے ۔ہمار ا مذہب تو ہمیں ایک دوسرے کی دل آزاری کرنے سے بھی منع کرتا ہے۔ چاہے وہ کسی صورت میں بھی کیوں نہ ہو جی ہاں ہمارے مذہب میں کسی کا دل دکھانا منع ہے !ہمیں جانے کیوں یہ خیال ہے کہ ہم صرف نماز ،روزہ ،حج اور زکوۃ سے ہی بخشے جائیں گے ؟ ہم سے ان چھوٹے چھوٹے حقوق العبا د کی باز پرس بھی ضرور ہوگی ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply