پاکستان کے ساتھ وفاداری؟-قمر رحیم خان

یہ نوے کی دہائی کا زمانہ تھا جب راولاکوٹ میں افغانیوں کے انخلا کی تحریک چلی۔ حکومت نے اسے کچلنے کی پوری کوشش کی۔ مگر اس کی شدت میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا۔آئے روز ہڑتالیں، پتھراؤ، آنسو گیس شہر کا معمول بن گیا۔ دن بھر میں پانچ چھ گھنٹے بازار بند رہتا۔ پولیس اور دیگر فورسز کی بڑی جمعیت کے ساتھ مظاہرین کا مقابلہ رہتا۔ مظاہرین میں سے جو شخص پولیس کے ہتھے چڑھتا وہ بیچ چوراہے میں اسے الٹا کر کے  پیٹتے، لوگ خوفزدہ ہوگئے   اور انہوں نے بازار میں آنا چھوڑ دیا۔البتہ دور دراز سے لوگ بچشم خود ان حالات کا مشاہدہ کرنے راولاکوٹ کا رخ کرتے ۔اسی دوران گولی چلی اور ایک شہری امجد اکبر شہید جبکہ ایک زخمی ہو گیا۔ حالات زیادہ بگڑ گئے اور تحریک طول پکڑ گئی۔تاجر حضرات کا کاروبار ٹھپ ہو گیا تھا اس لیے سخت نالاں تھے۔ ٹرانسپورٹرز کا کام بھی مندے کا شکار ہو گیا تھا۔ عام آدمی بھی تنگ آگیا تھا ۔ والدین الگ پریشان تھے ، خدا خبر کس وقت ان کے بیٹے کے ساتھ کیا ہو جائے۔

بالآخر یہ تحریک دسمبر 1995ء کی برفباری تلے دب گئی۔ تب لوگوں نے سکھ کا سانس لیا اور چین کی نیند سوئے۔ گو یہ تحریک بعد میں پھر شروع ہوئی اور کافی حد تک اپنے مقاصد میں کامیاب بھی ہوئی۔ یہ تحریک اور اس طرح کے حالات اس شہر کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ لیکن لوگ اور خصوصاً تاجر طبقہ ایسے حالات سےسخت نالاں تھا ۔ پھر یوں ہواکہ لوگوں کے ہی ایک نمائندے نے آٹے پر سبسڈی ختم کروا دی۔ غم و غصے اور بے چینی کی ایک لہر پیدا ہوئی ۔ پھر بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہو ا۔ غصہ اور بڑھا مگر اس کا اظہار انفرادی سطح تک محدود رہا۔ حتی کہ ایک تنظیم نے اس مہنگائی کے خلاف دھرنا دے دیا۔ صدرِ ریاست نے نومبر 2021ء میں ایک ماہ میں مطالبات کو پورا کرنے کے وعدہ پر دھرنا ختم کروایا۔ مگر یہ وعدہ وفا نہ ہوا۔تب سے دھرنوں ، تھانوں، جیلوں، لاٹھیوں ، ہتک آمیز رویوں اور الزامات کا نہ ختم ہونے والاسلسلہ شروع ہو گیا۔ مگر اس سارے عمل میں لوگوں کی شمولیت کم رہی۔ حتیٰ کہ 2022ء میں پندرہویں ترمیم اور ٹورازم ایکٹ کی خبروں پر لوگوں کے کان کھڑے ہو ئے اور وہ جلسے سننے کے لیےجلوسوں میں شامل ہونے لگے۔ پندرہویں ترمیم واپس ہوئی اور ٹورازم ایکٹ بھی۔ مگر آٹے اور بجلی کے معاملے میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔

بجلی کے نرخوں پر لوگ زیادہ سیخ پا ہوئے۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ منگلا ڈیم کی تعمیر کے وقت حکومت پاکستان او رآزاد کشمیر کے مابین آزاد کشمیر کو فری بجلی مہیا کرنے کا معاہدہ ہوا تھا جس پر عمل درآمد کروایا جائے۔ آخری درجے میں لوگ اس پر راضی تھے کہ منگلا ڈیم کی پیداواری لاگت پر بجلی فراہم کی جائے۔ ترسیل کے اخراجات کی مد میں اگر کچھ اضافی چارجز بھی شامل ہوں تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کم و بیش 3،500 میگاواٹ سے زاید پن بجلی پیدا کرنے والے آزادکشمیر کو محض 350 میگاواٹ بجلی آئی پی پیز کی مہنگے نرخوں پر دی جائے۔اور رائلٹی میں بھی ڈنڈی ماری جائے۔

دھرنوں اور قید و بند کے سلسلے میں تھوڑا وقفہ ہوا اورمتحرک لوگوں نے تھوڑا سستانے کا فیصلہ کیا۔ مگر اسی وقفے کے دوران تاجران ، جو پچھلے عرصے میں اس تحریک سے جڑ گئے تھے، میدان میں اتر آئے۔ انجمن تاجران راولاکوٹ کے ایک دھڑے کے قائمقام صدر عمر نذیر کشمیری اپنے ساتھیوں سمیت شہر کے آخری کونے میں ضلعی و ڈویژنل انتظامیہ کی رہائش کے باہر دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ یہ ایک بے ضرر دھرنا تھا ۔ انتظامیہ کوچند شریف لوگوں کے اس طرح کنارا کش ہو کر بیٹھنے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ سوائے ان سیاسی لوگوں کےجو 2021ء سے اس کام میں پڑے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سیاسی جدو جہد کا متقاضی ایک مشکل کام ہے جسے غیر سیاسی ہاتھ انجام نہیں دے پائیں گے۔ لیکن کہتے ہیں جب شریف آدمی بگڑ جائے تو سب پہ بھاری ہو جاتا ہے۔ چند ایک ماہ گزرنے کے بعد عمر کشمیری اور ان کے ساتھیوں کو احساس ہو ا کہ گر یونہی بیٹھے رہے تو مر کھپ جائیں گے ، ان کے مطالبات کی شنوائی نہ ہو گی۔ تب انہوں نے مظفرآباد ، میرپور کوٹلی کے تمام شہروں کے دورے شروع کر دیے۔ یوں جگہ جگہ دھرنے لگنا شروع ہو گئے۔ حتیٰ کہ پورا آزاد کشمیر دھرنوں کی زد میں آگیا۔ اور لوگوں نے بجلی بل ادا کرنا چھوڑ دیے۔

تحریک میں تیزی آگئی۔ لوگوں نے غم و غصے کا کھل کر اظہار کر نا شروع کر دیا۔ جبکہ حکومت نے ٹال مٹول سے کام لینا شروع کر دیا۔ درجن بھر سے زائد وزرا پر مشتمل ایک مصالحتی کمیٹی بنائی گئی۔ جس کے جواب میں جائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کمیٹی میں تاجران ، کچھ سیاسی کارکنان اور ٹرانسپورٹرز کے نمائندے شامل تھے۔ کئی مہینوں کی تگ و دو کے بعد جب کچھ ہاتھ نہ آیا تو کمیٹی نے 11 مئی 2024ء کو مظفرآباد کی طرف مارچ شروع کر دیا۔ مارچ کا آغاز میرپور ڈویژن سے ہوا ۔ پہلے ہی دن ایک سب انسپکٹر گولی کا نشانہ بن گیا، ایک سپاہی زخمی ہو گیا۔ تمام لوگ اپنی سواریوں پر اور پیدل گھروں سے نکل آئے۔ بہت بڑی تعداد میں لوگ اس مارچ میں شامل ہوئے۔ بارہ مئی کی شام کو مارچ راولاکوٹ پہنچا۔ چیف سیکریٹری آزاد کشمیر مذاکرات کے لیے تشریف لائے جو ناکام رہے۔ لوگ مظفرآباد کی طرف نکل پڑے۔ رات دھیرکوٹ کے مقام پر رکے اور دوسرے دن اس جلوس کی پہلی گاڑی مظفرآباد میں تھی جبکہ آخری گاڑی دھیرکوٹ میں رینگ رہی تھی۔

اس صورتحال پر حکومت پاکستان نے نوٹس لیا ، بجلی او رآٹے کے نرخوں میں نمایاں کمی کے نوٹی فیکیشن ہوئے ، اشرافیہ کی مراعات پر نظر ثانی کے لیے کمیشن تشکیل دیا گیااور وزیر اعظم پاکستان نے آزاد کشمیر حکومت کے لیے 23 ارب روپے کے فنڈز ریلیز کیے۔ لیکن اسی دوران جب رینجرز نے دوبارہ مظفرآباد کا رخ کیاتو نوجوانوں نے رینجرز کو شہر میں داخلے سے روکنے کے لیے پتھراؤ شروع کر دیا۔  نتیجتاً  رینجرز نے فائر کیا جس میں تین نوجوان شہید اور کئی ایک زخمی ہو گئے۔یہ انتہائی افسوس ناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب سب معاملا ت طے ہو چکے تھے۔ ہم دکھے دل کے ساتھ وزیر اعظم پاکستان کے شکرگزار ہیں کہ بالآخر انہوں نےلوگوں کے مطالبات کو پورا کیا اور یہاں پر کسی بڑے حادثے کو رونما ہونے سے بچالیا۔ کم و بیش تین سال بعد ہمارے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا اور وہ چین کی نیند سوئے۔

julia rana solicitors london

لیکن ایک خطرناک اور جھوٹے پروپیگنڈا کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری ہے۔ جو لوگ آزاد کشمیر میں نظریہ الحاق پاکستان کی چھتری تلے پاکستان سے وفاداری کا ناٹک کھیل رہے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو اس دوران اسلام آباد اور پنڈی میں جا چھپے تھے۔ یہ منافقین پچھلی کئی دہائیوں سے یہ پراپیگنڈا کر رہے ہیں کہ یہاں پر انڈیا کے ایجنٹ ہیں۔تاکہ ان کی روٹیاں لگی رہیں۔ یہاں کے لوگ اپنی صفائی میں یہ کہتے ہیں کہ اگر یہاں کا نوجوان پاکستان رینجرز کی گولیوں کے سامنے اپنا سینہ تان کر کھڑا ہو سکتا ہے تو انڈین آرمی کو آزاد کشمیر پر قبضے کے لیے لاشوں کے پہاڑ پار کرنا ہوں گے۔ یہاں کا نوجوان خدا نخواستہ پاکسان سے نالاں بھی ہے تو بھی آزادکشمیر کی حفاظت کا یہ جذبہ کیا پاکستان کے کام نہ آئے گا؟ اس وقت بھی آپ دیکھ لینا یہ 53 کا ٹولہ جنہیں پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنا دودھ پلا رہی ہیں، یہ پنڈی اسلام آبا د میں چھپے بیٹھے ہوں گے۔ اور انڈین فوج سے یہی نوجوان لڑرہے ہوں گے جو مطفرآباد میں شہید ہوئے۔ لہٰذا دیکھنا یہ چاہیے کہ آزاد کشمیرکی سیاست میں کون لوگ ہیں جو پاکستان کے ساتھ وفاداری کی آڑ میں منافقت کر رہے ہیں اور کون ہیں جو ایک واضح موقف کے ساتھ با کردار سیاست کر رہے ہیں۔وہ لوگ جو اپنے گھر کے وفادار نہیں ، وہ پاکستان کے ساتھ کیا خاک وفا کریں گے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply