غلاظت/محمد عامر حسینی

پیپلزپارٹی ضلع خانیوال کے صدر ہوا کرتے تھے جاوید اقبال ہاشمی ایڈوکیٹ جو 1972ء میں پی ایس ایف کے پلیٹ فارم سے ہوتے ہوئے ، پی ایل ایف سے گزرتے ہوئے مدر پارٹی کے ضلع کے سب سے بڑے عہدے تک پہنچے تھے ۔ وہ مشرف کی آمریت کا دور تھا اور شہید بی بی دبئی میں مقیم تھیں اور عام انتخابات 2002ء کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم زیرِ غور تھی ۔ وہ اس وقت ضلعی جنرل سیکرٹری تھے ۔ راو سکندر اقبال پنجاب کے صدر تھے۔ انھوں نے ٹکٹ کے لیے درخواست دی ۔ کوئی شنوائی نہیں ہو رہی تھی اور انھیں انٹرویو تک کے لیے نہ بلایا گیا ۔

میں رات کو اکثر ان کے گھر 26۔سول لائن چلا جاتا جہاں پر وہ کافی پریشان دکھائی دیتے تھے ۔ انھوں نے بی بی شہید کے ذاتی ای میل ایڈریس پر درجنوں رپورٹس ارسال کی تھیں کہ پارٹی ھراج گروپ کو پارٹی ٹکٹ نہ دے وہ آزاد لڑنے کا فیصلہ کر چکے ہیں ۔ لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ ھراج گروپ نے ایک قومی اور دو صوبائی کے ٹکٹ لیے اور جس دن ٹکٹ جمع کرانے کی آخری تاریخ اور چند منٹ باقی رہ گئے تو ٹکٹ جمع نہ کرائے گئے اور آزاد الیکشن لڑا ، جیت کر ق لیگ کو پیارے ہوگئے ۔

2006ء میں ق لیگ کے رکن صوبائی اسمبلی اچانک فوت ہوئے تو ضمنی الیکشن آیا ہاشمی صاحب چاہتے تھے کہ ٹکٹ انھیں ملے اور وہ جانتے تھے کہ یہ ٹکٹ انھیں اس صورت میں مل سکے گا جب وہ دبئی میں جاکر شہید بی بی سے ملیں ۔ اب اس کا راستہ کیسے نکلے؟ ایک رات ہاشمی صاحب نے اپنے گھر میں موجود پی پی پی کے سٹی صدر شیخ عرفان ، ضلعی سیکرٹری اطلاعات شمس القمر خان قاسمی اور راقم کو بتایا کہ انھیں پیپلزپارٹی پارلیمینٹرین کے مرکزی جنرل سیکرٹری عبد اللطیف خان کھوسہ نے ان کی ملاقات شہید بی بی سے کرانے کی حامی بھری ہے بس انھیں کھوسہ خاندان کے افراد ( بشمول خواتین) کے لیے دبئی کے ائر ٹکٹ اور دبئی میں قیام و طعام کا خرچ برداشت کرنا ہوگا ۔ ہماری رائے تھی کہ وہ نہ جائیں لیکن جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ اس ملاقات سے اگلے عام انتخابات میں ٹکٹ کا راستہ بن جائے گا اور پارٹی اقتدار میں آئی تو وہ کارکنوں کو کچھ ڈیلیور کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے ۔ خیر وہ اتنے بھاری جرمانے کے ساتھ دبئی گئے اور شہید بی بی سے ملاقات میں کامیاب ہوگئے لیکن ٹکٹ کی یقینی دہانی نہ مل سکی ، جب کاغذات نامزدگی کا سلسلہ شروع  ہوا تو پتا یہ چلا کہ کوئی بھی امیدوار نہیں بنا، الیکشن لڑنے کے لیے تب ان کی درخواست کو قبولیت ملی اور ٹکٹ مل گیا لیکن ان کی حمایت پی پی پی کے با اثر لوگ تو کیا کرتے خود اس وقت کے نامور کارکنوں نے ق لیگ سے ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد انتخاب لڑنے والے نشاط خان ڈاہا کا ساتھ دیا اور ایک بڑا حصہ ھراج گروپ کے امیدوار کی حمایت کرتا رہا ۔ جاوید ہاشمی ایڈوکیٹ نے اس ضمنی انتخابات میں 30 لاکھ روپے کے قریب خرچہ کیا اور ووٹ انھیں ملے 2870 اور اس پر انھیں خوب شرمندہ کیا گیا اور جب عام انتخابات کی مہم شروع ہوئی تو حلقہ پی پی ۔214 کو خالی چھوڑ دیا گیا ۔ بی بی شہید ہوگئیں تو ان کے خون سے یک دم فائدہ اٹھانے کا خیال نشاط خان کو آیا ،جاوید ہاشمی کو پھر ٹکٹ نہ ملا اور یوں پیپلزپارٹی کا نشان گم کرنے کے ذمہ دار کا بھائی، عوام دوست گروپ سے تحصیل ناظم بننے والا اور ق لیگ میں شامل ہوجانے والا پی پی پی کے ٹکٹ کا حقدار ٹھہر گیا جس نے بعد ازاں فارورڈ بلاک میں شمولیت کی اور وہ نواز لیگ سے 2013ء کا انتخاب لڑا ۔

جاوید ہاشمی جو ضلع کے صدر تھے پی پی پی نے پانچ سالہ دور اقتدار میں درجہ چہارم، ششم اور ہفتم کی کل ملا کر 7 نوکریاں دیں ( جاوید ہاشمی نے وہ سب نوکریاں اپنے ساتھ کھڑے غریب ورکرز کے بیٹوں کو دیں ) اور پانچ رکشے دیے اور کل ملا کر 200 بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے فارم دیے جسے انھیں پورے ضلع کو تقسیم کرنا تھے ۔ اور انھیں ڈپٹی اٹارنی لاہور ہائیکورٹ ملتان بنچ لگایا گیا وہ بھی کھوسہ کو خوش کرنے کا صلہ تھی ۔

جاوید ہاشمی ایڈوکیٹ مانا کہ کارکنوں میں مقبول نہیں تھے اور وہ بہت زیادہ عملی کام نہیں کرتے تھے ( بار کی سیاست ان کا محور و مرکز زیادہ تھی ) مجھ سمیت کئی کارکن ان سے ناراض ہوئے کہ وہ پارٹی کے پانچ سالہ دور میں کارکنوں کو پارٹی کی حکومت سے کچھ لے کر نہ دے پائے ۔( مجھ سمیت ان سے ناراض ہونے والے اور الگ ہونے والے کارکنوں نے اپنے یا اپنے گھر والوں یا عزیز و اقارب کے لیے کچھ نہیں مانگا تھا)

مجھے ان پر اس وقت غصہ آیا جب مجھے میپکو ملتان آفس میں کمپیوٹر آپریٹر کی نوکری کے لیے ایک واسطے سے عبدالقادر گیلانی کو ملنا پڑا اور عبدالقادر گیلانی نے کہا کہ وہ خود تو کچھ نہیں مانگتے لیکن محکمے کے سیکرٹری کو 2 لاکھ روپے دینے پڑیں گے ،میں نے جاوید ہاشمی سے کہا کہ وہ بطور ضلعی صدر صدر مملکت آصف علی زرداری کے نوٹس میں تحریری شکایت درج کرائیں ۔ تو مجھے جاوید ہاشمی نے کہا کہ دو لاکھ روپے ادا کرکے جو بچہ امیدوار ہے اس کی نوکری پکی کراؤ۔ انھوں نے مجھے دو لاکھ روپے بطور قرض دینے کی پیشکش کی اور کہا بچہ تنخواہ سے کٹواتا رہے گا ۔ میں غصہ کرکے اُٹھ آیا اور ان کے مخالف دھڑے کو جوائن کرلیا جبکہ اس دوران اس نوجوان کے باپ نے مجھے کہا کہ اس نے دو لاکھ کا انتظام کرلیا ہے ،میں عبدالقادر گیلانی کو ہاں کردوں ۔ وہ بچہ کمپیوٹر آپریٹر لگ گیا ۔ بعد میں پتا چلا کہ اس بچے کے باپ کو جاوید ہاشمی نے بلایا تھا اور دو لاکھ روپے دیے اور کہا کہ “عامر حسینی جذباتی ہو رہا ہے اسے مت بتانا اور بچے کو نوکری لگاؤ ۔ یہاں ہر کوئی نوکریاں بیچ رہا ہے ۔ یہ بات مجھے اس بچے کے باپ نے اس وقت بتائی جب جاوید ہاشمی ایڈوکیٹ کورونا کا شکار ہوکر اس دنیا سے چلے گئے ۔ بچے کے باپ نے کہا کہ جب وہ اپنے بچے کی پہلی تنخواہ سے قرض کی قسط اور مٹھائی لیکر جاوید ہاشمی کے گھر پہنچا تو ہاشمی صاحب نجانے کس موج میں بیٹھے تھے کہنے لگے کہ انھیں پیسے نہیں چاہئیں اپنے بیٹے کو کہنا کہ تمہارا فرمانبردار رہے ۔ اور پھر کہا کہ “جب میں چالیس چک سے شہر آیا تھا تو میرے پاس غلہ منڈی کی دکان پر بنے چوبارے کے کرائے تک کے پیسے نہیں ہوتے تھے اور میرا باپ اس چک کے غریب آباد کی مسجد کی امامت کیا کرتا تھا اور یہ طعنہ میں ساری عمر جاگیرداروں اور اس شہر کی اشرافیہ سے کہیں زیادہ اپنی پارٹی میں شامل مڈل کلاسیوں سے زیادہ سنتا رہا اور اس پر کڑھتا رہا ہوں “۔

جاوید ہاشمی ایڈوکیٹ جنوبی پنجاب کے ٹاپ کے انتہائی ذہین و قابل وکیل تھے ۔ ایک عرصہ تک وہ یہ تمنا کرتے رہے کہ پارٹی انھیں جج بنادے گی ( ان کے گھر پر درجنوں کارکنوں ،ضلع ناظم، یونین ناموں کے سامنے سردار اللہ یار ھراج نے انھیں ٹکٹ مانگنے پر انتہائی حقارت سے ڈانٹ پلاتے ہوئے اور مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا، تم پہلے ججی مانگتے تھے اب صوبائی اسمبلی میں جانے کا خواب دیکھنے لگے) ۔ پھر وہ صوبائی اسمبلی جانے کی آرزو کرنے لگے اور پارٹی کے پانچ سالہ دور اقتدار اور پھر دو مرتبہ سینٹ انتخابات کے موقع  پر ان کی آرزو تھی سینٹ کا ٹکٹ مل جائے ۔

مانا وہ درمیانے طبقے کے فرد کی طرح خواہشوں کا جہنم اپنے اندر پالے ہوئے تھے اور ان کا سر آسمان پر پاؤں کیچڑ میں دھنسے ہوئے تھے لیکن انہوں نے کبھی خواب میں بھی پیپلزپارٹی نہیں چھوڑی تھی ۔ لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت اور اشرافیہ نے ان کا خوب جی بھر کر مذاق اڑایا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج پارٹی کے اشراف اور ان کی جوتیاں اٹھانے والے دیہاڑی باز کسی سفید پوش اور غریب کارکن کی جانب سے اپنے لیے عہدے کی مانگ کرنا یا اپنے بچے کے لیے نوکری مانگ لینے پر اسے لالچی اور نجانے کیا کچھ قرار دینے لگتے ہیں اور جب کارکن کسی کمزور لمحے میں بھوک ،غربت اور بدحالی سے تنگ آکر کسی پارٹی کے وڈ وڈیرے کو درخواست پر مبنی وٹس ایپ بھیجنے کی غلطی / جرم کر بیٹھے تھے تو وہ اس وٹس ایپ میسج کو دکھا کر اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور خود اربوں کھربوں کے کمیشن بٹورنے کے بعد بھی نیک نام بنے رہتے ہیں ۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply