اپنے بچوں کی جسمانی، نفسیاتی، جنسی اور جذباتی صحت کی حفاظت لوگ کیسے کرتے ہیں، یہ کسی بھی حساس اور “زندہ” معاشرہ ہونے کا لٹمس ٹیسٹ ہوتا ہے۔
پاکستان میں لاکھوں بچے خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ بھوک اور بیماری سے تباہ حال ہیں۔ تعلیم سے محروم ہیں۔ سڑکوں پر بھیک مانگتے، گاڑی کے شیشے صاف کرتے، پھول بیچنے سے لے کر گیراج، ڈھابے، دکانوں پر چائلڈ لیبر میں مصروف دیکھے جا سکتے ہیں۔
ان سے بہتر سماجی حیثیت والے گھروں کے بچے بھی کہیں خاندان اور کہیں درسگاہوں میں جسمانی، نفسیاتی اور کہیں کہیں جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک عام سی بات ہے، اعداد و شمار بھی موجود ہیں مشاہدے بھی۔
وطن عزیز میں ہر کمزور طبقے کو (جانوروں سے شروع کریں، بچوں، غریبوں خواتین اور پھر مختلف کلاسز تک آتے جائیں)، ہر جگہ کسی طاقتور کے ہاتھوں استحصال ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔ بچوں کی حفاظت کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، کہ یہ بنیادی طور پے کمزوروں کا طاقتور کے ہاتھوں استحصال ہے۔ بھلے مالی ہو، جسمانی ہو، جنسی ہو، یا نفسیاتی ہو۔
کمزور کو طاقتور سے کون بچاتا ہے؟ قانون۔ عدلیہ۔ ریاست۔
پچھلے دس سالوں میں کتنے مشہور کیسز میں عدالتوں نے مظلوم کو انصاف اور طاقتور کو سزا دی؟ کتنے کیسز میں ریاستی مشینری (پولیس، قانون نافذ کرنے والے ادارے وغیرہ) نے اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے طاقتور پارٹی کو سزا دلوانے میں کردار ادا کیا؟ جواب سب کو معلوم ہیں۔
فی الحال ذرا باقی تمام چائلڈ ابیوز کو چھوڑ کر بس بچوں کے جنسی استحصال کو فوکس کر لیتے ہیں۔ خاندان، محلے والے، درسگاہیں ہر جگہ یہ جاری و ساری ہے۔ مگر سزائیں نہیں ہوتیں, یا ہوتی نظر نہیں آتیں۔ لوگ نشان عبرت نہیں بنتے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
بچوں کی حفاظت پر بلاشبہ ہم سبھی حساس ہیں, لیکن حساسیت جذباتیت میں جب بدلتی ہے تو انسان اور معاشرے استعمال ہو جاتے ہیں۔ بیانیے بنانے اور پھیلانے والوں کے ہاتھوں استعمال ہو کر پٹڑی سے اترنے کی بجائے بہتر ہے معاملات کو ان کے صحیح تناظر میں رکھ کر ممکنہ حل کی بات ہو۔
بھائی، اگر بچوں کی حفاظت مسئلہ ہے، تو اس میں ادارے، نظام انصاف، عدالتوں کی ناکامی مسئلے کا سبب ہے۔ اصل ولن ارباب اختیار ہیں جو ہمارے بچوں کو پیدائش کے وقت سے نہ طبی سہولیات دے سکے، نہ غذا کا بندوبست کر سکے، نہ تعلیم کا اور نہ جسمانی و جنسی حفاظت ممکن ہوسکی۔
اس تمام معاملے میں مدرسے، مولوی اور مذہب کا کردار بڑے اسکیل پر صفر اعشاریہ کچھ فیصد ہے۔ نومولود بچوں کی ہسپتالوں میں اموات سے شروع ہو کر غذائیت کی کمی، غربت، ناخواندگی سے شروع کر کے وائلینس تشدد جنسی جرائم تک اعداد و شمار میں مدرسے والے واقعات کا حجم کیا ہے؟ کتنے فیصد ہے؟
لیکن کمال دیکھیے، پورے سوشل میڈیا پر بچوں کی حفاظت میں ریاست کی صریح ناکامی کے عنوان پر گفتگو کس جگہ ہو رہی ہے؟ کہاں بتایا جا رہا ہے کہ کون کون اپنے فرائض کی ادائیگی میں غفلت کا مرتکب ہوا اور آج ہمارے بچے غیر محفوظ ہوئے؟ اصل بات کو یکسر چھوڑ کے پورے سوشل میڈیا پر مولوی، مدرسہ، اور بالآخر مذہب نشانے پر ہے۔
فی الوقت مان لیجیے موجودہ کیس میں انصاف کے راستے کی رکاوٹ مولوی طبقے کا پریشر سہی، کیا دیگر ننانوے اعشاریہ نو فیصد کیسز میں بھی انصاف نہ ملنے کی یہی وجہ ہے؟ مولویوں، مدرسوں اور مذہب نے ارباب اختیار کو انصاف کرنے، جنسی جرائم میں ملوث ہر طبقے کے لوگوں کو سزا دینے، بچوں کے استحصال کے مرتکب لوگوں کو نشان عبرت بنانے سے روکا ہوا ہے؟
ذرا پھر غور کر لیں، کیا آپ کا اصل مسئلہ واقعی اپنے بچوں کی حفاظت ہی ہے؟ یا آپ بہت بھولے ہیں اور معصومیت میں ہی استعمال ہوتے چلے جا رہے ہیں؟ یا آپ کا ایک ایجنڈا یا بیانیہ ہے جسے بچوں کی حفاظت کی آڑ میں آگے بڑھانا مقصود ہے؟ ذرا اپنے اندر جھانکیں اور ان سوالوں کا جواب لیں۔ اور اپنی اصل نیت کو سامنے لائیں۔ معقول آدمی کو چاہیے کہ ایمانداری سے کھل کر اپنا مدعا بیان کرے، کسی اہم ایشو کی آڑ لے کر اپنا اُلو سیدھا کرنا نہایت گری ہوئی حرکت ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں