• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • کچھ دلچسپ مطالعاتی یادیں/شاہی محل اور تورا بورا کے درمیان(3)-علی ہلال

کچھ دلچسپ مطالعاتی یادیں/شاہی محل اور تورا بورا کے درمیان(3)-علی ہلال

مجھے جلال آباد شہر گھومنے کا بڑا شوق تھا مگر سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر ہمار ے لئے باہر نکلنا مناسب نہیں تھا۔ ہم دو ہفتوں کے لئے اس عالیشان بنگلے کے تاریک بیسمنٹ میں خودساختہ نظر بندی کی زندگی گزار رہے تھے ۔ جہاں ہوا خوری کا اکلوتا ذریعہ وہ باغیچہ تھا جس کے گرد اونچی فصیلوں کا حصار تھا۔ ہماری اس تنہائی کی اکتاہٹ کو مُلا نور  نے اپنی روایتی مہمان نوازی کے ذریعے کم کرنے کی جی بھر کر کوشش کی ۔

وہ روزانہ  کی بنیادوں پر ہم سے ملنے آتے۔ ہمارا حال احوال پوچھتے اور ہمارے لئے وضع کردہ انتظامات کا تفصیلی جائزہ لیتے۔ اس دوران وہ میرے والد کو مقبول ولذیذ افغانی کھانوں کی طرف راغب کرنے کی مقدور بھر کوشش کرتے،لیکن میرے والد کبھی ان پُرتعیش کھانوں کے لئے آمادہ نہ ہوئے۔

مُلانور اور میرے والد سوویت یونین جنگ کے دنوں کے دوست تھے۔ ان دونوں نے جنگ کے سرد و گرم کو ایک ساتھ دیکھا تھا۔اس رفاقت نے ان کے درمیان نہ ٹوٹنے والا تعلق اور گہری محبت کی ایک مضبوط فضا قائم کی تھی۔ وہ میرے والد سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ جس کا اظہار وہ عمل کے ساتھ ساتھ لفظوں میں بھی بڑی سخاوت کے ساتھ کرتے تھے۔

میرے والد بھی مُلانور پر غیرمعمولی اعتماد اور بھروسہ کرتے تھے۔ ان سے بہت سے اہم راز اور دل کے دکھ  درد بانٹتے    کرتے تھے۔ میں نے اپنے والد کو کسی سے بہت کم دل کی باتیں   کہتے دیکھا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنی زندگی سے متعلق اہم باتوں کو خفیہ رکھتے تھے مگر مُلا نور کے ساتھ ان کا تعلق غیرمعمولی تھا۔ جس کے باعث وہ انہیں بہت سی باتیں بتاتے تھے۔

میرے والد نے مُلانور کو سوڈان سے اپنی جبری بے دخلی کی دکھ بھری کہانی سنائی۔ انہوں نے بڑے دکھ بھرے  لہجے میں بتایا کہ کس طرح انہوں نے سوڈان میں اپنی دولت ، وسائل اور توانائی خرچ کی اور سوڈان و  سوڈانی عوام کو فائدہ پہنچا نے والے منصوبوں پر کام کیا۔

“میرے دوست ! میں نے اپنی ساری جمع پونجی لگائی۔ بہت کچھ کھویا۔ مجھے مستقبل کے حوالے سے تشویش ہے۔ میں تنہا بندہ ہوں اور بڑے اہل وعیال کا بوجھ میرے سر پر ہے۔ ان کے علاوہ بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو میرے ساتھ آئے ہیں۔ ان کے بھی بیوی بچے ہیں۔ان لوگوں کا بھی اکلوتا سہارا میں ہوں ” ۔

میں نے اپنے والد کے منہ سے پہلی مرتبہ اس طرح کا شکوہ سنا۔میرے والد کی دینی وسیاسی سرگرمیوں اور تین بیویوں کے ساتھ ان کی اولاد کی بڑی تعداد کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ ان سب کے لئے ایک بڑی دولت درکار ہے۔
مُلانور  نے میرے والد کے لہجے  میں  چُھپے درد کو محسوس کرتے ہوئے قسم اٹھاتے  کہا   ، کہ اسامہ بے فکر رہو۔ تم واحد غیر افغانی شخص ہو، جو انتہائی سخت حالات میں بھی افغانستان کے وفادار اور مخلص رہے۔ فکر نہ کرو، اپنے غموں کو بکھرنے کے لئے ان ہواؤں کے دوش پر چھوڑ دو۔ افغانستان تاحیات تمہارا مسکن ہے۔ تمہارے جنت سدھارنے کے بعد تمہارے اہل خانہ کے لئے بھی یہ وطن ایک محفوظ ٹھکانہ  ثابت ہوگا۔

میں تمہیں ضمانت دیتا ہوں کہ یہاں تمہاری اور تمہارے اہل خانہ کے ساتھ سارے ساتھیوں کو مکمل تحفظ حاصل ہوگا۔ تم جب تک چاہو اس محل میں زندگی گزار سکتے ہو۔

مُلانور نے میرے والد کو جلال آباد میں اراضی کا ایک بڑا حصہ عطیہ کردیا ۔ انہیں کہا کہ وہ اپنے لئے اس پرایک وسیع رہائشی کمپلیکس تعمیر کریں۔ اپنے اہل خانہ کو یہاں بلائیں اور سکون کی زندگی گزاریں۔

اس کے چند دن بعد دوسری بار انہوں نے میرے والد کو تورا بورا میں پورا ایک پہاڑ گفٹ کردیا۔ نا  صرف یہ بلکہ سوویت یونین سے افغانستان کو آزادی دلانے میں میرے والد کےتابناک کردار اور نمایاں تعاون کے پیش نظر مُلانور نے میرے والد کواعزازی پشتون کا لقب بھی دے دیا۔

مُلانور کی جانب سے اظہار محبت کے اس انوکھے انداز نےمیرے والد  کو خوشی سے نہال کردیا اور انہوں نے مُلا نور  کا شکریہ ادا کیا۔

اس دوران مُلا نور  بنگلے کے اندر محبوس رہنے سے ہمیں پہنچنے والی اکتاہٹ کو محسوس کررہے تھے۔ جس سے نکالنے کے لئے وہ ہمیں دیواروں کے اندر گھرے ہوئے اس ویلا سے نکال کر اس قدیم تاریخی محل لے گئے۔ جس کی  بابت انہوں نے ہمیں پہلے بھی بتایا تھا۔

یہ محل دریائے کابل کے قریب ایک پُرفضا مقام پر واقع تھا۔وہ مستطیل شکل میں دو منزلوں پر مشتمل ایک پرانا محل تھا۔وہ جلال آباد کے دیگر پُر تعیش محلات کی طرح سفید رنگ کا تھا۔ اس کی چھت سعودی عرب اور سوڈان کے مکانات کی طرز پر کھلی اور کشادہ تھی۔ جو میرے والد کے لئے نہایت موزوں تھی۔ کیونکہ وہ ارگرد کے ماحول کا اندازہ لگانے کے لئے چھت کو ضروری خیال کرتے تھے۔

محل کے دروازے سے داخل ہونے کے بعد ایک طویل راہداری دور تک پھیلی ہوئی تھی جو سرخ قالین سے ڈھکی ہوئی تھی۔ گزرگاہ میں دست کاری سے مزیّن کرسیاں قطار درقطار لگی ہوئی تھیں۔ دونوں جانب دس کمرے تھے۔ جن میں سے نو کمرے انتہائی نفیس کلاسیکل فرنیچرز سے آراستہ تھے ۔ فرنیچر پرانا مگر بیش قیمت اور خوبصورت تھا۔ جس پر گزرے وقت میں شاہی خاندان کے افراد کی پرچھائیاں محسوس ہوتی تھیں۔حیران کُن بات یہ تھی کہ ہر کمرے میں اٹیچ باتھ روم کی سہولت میسر تھی۔ حالانکہ اس محل کے تعمیر کے وقت افغانستان میں اٹیچ باتھ روم کا فیشن نہیں تھا ۔

ہم جائزہ لینے کے لئے سیڑھیاں چڑھ کر دوسری منزل پر چلے گئے۔ وہ بھی پہلے والی منزل کا نقشہ پیش کررہی تھی۔ وہی آنکھوں کو خیرہ کردینے والا سفید رنگ اور راہداریوں میں بچھی ہوئی سرخ قالین اس کے حسن کو دوبالا کررہی تھی۔ یہاں مگر کچن نہیں تھا۔

میرے لئے اطمینان بخش امر یہ تھا کہ یہاں پانی اور بجلی کی سہولت موجود تھی۔ اگر چہ مجھے یقین تھا کہ میرے والد کا مزاج تھا کہ ان کے بچے گھر میں بہتے ہوئے پانی کو استعمال کرنے کے بجائے دریائے کابل سے پانی لائیں۔ اور برقی توانائی کے بجائے گیس سے جلنے والی روشنی کا استعمال کریں۔

میرے والد کا خیال تھا کہ مسلمان کے لئے ہر آرام دہ چیز نقصان دہ ہے ۔( اسے پرتعیش زندگی کا عادی بننے کی بجائے پر مشقت زندگی گزارنی چاہیے).
محل کی حالت کافی اچھی تھی۔ مگر زمانہ گزرجانے کے باعث اس کی حالت دیکھ کر یہ نہیں لگتا تھا کہ یہاں کبھی شاہی خاندان کا بسیرا رہا ہوگا۔
مجھے بہت حال یہ بہت مناسب لگا۔ کیونکہ جلال آباد کے دیگر مکانات کے مقابلے میں یہ بہت پر تعیش تھا۔ محل کے گرد ایستادہ بڑے بڑے قد آوار درخت اس پر سایہ فگن تھے۔ محل کے اردگرددور دور تک خوبصورت باغات اور سرسبز کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ جن میں لگے ہوئے گہرے رنگوں والے خوبصورت پھول دل ودماغ کو فرحت ونشاط بہم پہنچارہے تھے۔

سوڈان سے رخصتی کے وقت مجھے یقین تھا کہ جلد ہو یا  دیر۔ ہماری ماں ،بہنیں اور بھائیوں سمیت میرے والد کی دیگر بیگمات ہمارے پاس پہنچ جائیں گی۔ مجھے بڑی شدت سے اس دن کا انتظار تھا ۔ میں سوچتا تھا کہ میں اپنے بھائیوں کے ساتھ دریائے کابل میں تیراکی کروں گا اور ہرسو پھیلے ہوئے ان باغات میں کھیلوں گا۔ اس دوران میرے والد مجھے کہتے کہ عمر ! ہم عنقریب اس محل کو چھوڑ کر تورا بورا میں اپنے پہاڑ پر جانے والے ہیں۔
مجھے اپنے والد کی یہ بات بہت تھکاتی تھی۔ یہ میرے لئے ایک ڈراؤنا خواب تھا۔
یہ خیال مجھے بے حد پریشان کرتا تھا کہ میرے بہن بھائی اور ماں زندگی کے بقیہ ایام تورا بورا جیسے پہاڑ کی غیر معیاری پناہ گاہوں میں گزاریں گے ۔

julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

علی ہلال
لکھاری عربی مترجم، ریسرچر صحافی ہیں ۔عرب ممالک اور مشرقِ وسطیٰ کے امور پر گہری دسترس رکھتے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply