اپنی زندگی میں ہر انسان مشکلات، ناکامیوں، اضطراب اور مایوسیوں سے گزرتا ہے، بعض اوقات یہ دورانیہ اس قدر طویل ہو سکتا ہے کہ فرد اسے ہی زندگی کی حقیقت سمجھتے ہوئے سمجھوتہ کر لیتا ہے یا پھر آخری وار کرتے ہوئے اس دلخراش کیفیت سے ہمیشہ کیلئے جان چھڑا لیتا ہے۔
اس کی کچھ جسمانی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں جیسا کہ عمر کے مخصوص حصوں میں ہارمونز کی تبدیلی انسان کی نفسیات پہ اثر انداز ہوتی ہے اور مناسب تعلیم اور سمجھ کے نہ ہونے سے یہ تبدیلی ایک خوف کو جنم دیتی ہے، لیکن یہ چیز ثانوی ہے۔
روح کی تاریک شب کے پیچھے اصل وجہ شعور کا پرانے لباس کو پہننے سے انکار اور نئے لباس کی طلب کرنا ہے، ایسے ہی جیسے سانپ مقرر وقت پہ پرانی کھال اتار پھینکتا ہے، اسی لئے یہ عمل نہایت تکلیف دہ ہے، اس کیفیت کو ڈپریشن سمجھنا بڑی غلطی ہے، ڈپریشن ایک نفسیاتی عارضہ ہے جبکہ یہ تاریک شب ایک روحانی آزمائش ہے۔
سماج میں رہتے ہوئے انسان ایک اجتماعی سماجی رنگ میں رنگا جاتا ہے، اکثر اوقات تو ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ہماری جدوجہد اور بھاگ دوڑ کا مقصد کیا ہے، ہم کیوں اور کیا کر رہے ہیں اور کس لئے کر رہے ہیں، بس دیکھا دیکھی میں بہت کچھ کئے جاتے ہیں کہ یہ زمانے کی ریت ہے، ایسے میں بالخصوص وہ افراد جو ذات کا اندرونی جوہر رکھتے ہیں ، بھاگتے ہانپتے ایک بند گلی میں آن کھڑے ہوتے ہیں ۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے سے فرد جنابِ لوط کی بیوی کی طرح پتھر کا ہو سکتا ہے، آگے بھی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی، کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ جیسے پرندے کے پر کاٹ کر اسے ایک پنجرے میں قید کر دیا گیا ہو۔
یہ سٹیج بڑی خطرناک ہے، آپ نہ صرف یہ نہیں جانتے کہ آپ کو کیا کرنا چاہیے بلکہ یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ آپ کیا چاہتے ہیں، اس سٹیج پر سب سے پراثر نسخہ یہ ہے کہ قلم اٹھا کر اپنے خیالات کو پوری دیانتداری کے ساتھ کاغذ پہ اتارا جائے، اور یہاں دیانتداری پہ قائم رہنا بڑا مشکل ہے کہ اپنی ذات کے کھوکھلے اور سیاہ چہرے کو دیکھنے کیلئے بڑی ہمت درکار ہوتی ہے، لیکن ایسا کرنا ہر اس شخص کیلئے لازم ہے جو اس بند گلی میں کوئی دروازہ ڈھونڈھنے کی تڑپ رکھتا ہے۔
اگر آپ اپنی ذات کے تاریک پہلوؤں کو اپنے ہاتھوں سے کاغذ پہ لکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بند گلی میں ایک دروازہ دکھائی دیتا ہے ، اس دروازے پر کچھ سپاہی موجود ہیں ، یہ کوانٹم کی دنیا کے سپاہی ہیں، وہ آپ کو اندر آنے کی اجازت دیتے ہیں لیکن اس شرط پہ کہ آپ اپنے پرانے شعور کا لباس اتار پھینکیں اور مکمل عریاں ہو کر اس دروازے میں داخل ہو جائیں، یہاں پرانا لباس اتارنا آسان نہیں کہ انا غالب ہونے کی کوشش کرتی ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنے پرانے تجربات، خیالات اور ذات کی ساری کمائی سے یک لخت خود کو بیگانہ کر دیا جائے، انا کسی زخمی شیرنی کی طرح حملہ آور ہوتی ہے، انسان اپنے اندر ایک جنگ میں مصروف ہو جاتا ہے، شکست کی صورت میں سامنے دکھتا دروازہ نظروں سے اوجھل ہو جائے گا اور فرد خود کو ایک بار پھر بند گلی میں پائے گا، لہٰذا یہاں اس زخمی شیرنی سے جیتنا ضروری ہے، اگرچہ یہ جیت بھی گاہے مایوسی کو جنم دے سکتی ہے، شیرنی جیسا شکاری گر خود شکار ہو جائے تو دل افسردہ ہوتا ہے، نیشنل جیوگرافک پہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ شیر کو لگڑ بگڑ مار گرائیں تو دل پشیمان ہوتا ہے، لیکن یہ فطرت کے اعتدال کیلئے ضروری ہے، اس کیفیت کو برداشت کرنا ہوگا۔
جیتنے کے بعد مکمل عریاں حالت میں فرد اس دروازے میں داخل ہوتا ہے، کوانٹم کی دنیا کے سپاہی پیچھے سے دروازہ بند کر دیتے ہیں، آگے بس ایک سرنگ ہے، تاریک اور طویل سرنگ، جس کے دوسرے حصے سے سورج کی کرن دکھائی دے رہی ہے، سرنگ کا یہ سفر ہر شخص کو خود طے کرنا ہے، کوئی دوسرا آپ کی مدد نہیں کر سکتا، یہ سفر ایک سیدھی لکیر کی صورت جلد بھی طے کیا جا سکتا ہے، یا پھر سپرنگ کی صورت فرد ایک دیوار سے دوسری دیوار کو ٹٹولتا پھرے اور اپنے سفر کو طویل تر بناتا جائے، سفر کی طوالت کا انحصار فرد کے فیصلہ لینے کی اہلیت پر ہے، فیصلے جتنے جلد لئے جائیں گے، سفر اتنا جلد کٹتا جائے گا۔
تاریک راہوں کا یہ سفر کٹھن ہے، مشکلات اور مایوسیوں سے بھرا ہے، لیکن جوں جوں فرد روشنی کے قریب ہوتا جاتا ہے، طمانیت کا ایک احساس اسے گھیرتا جاتا ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فرد اپنی اندرونی صلاحیتوں اور اپنی ذات کے مقصد کو بہتر دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ تخلیقیت، روشن فکری اور مقصدیت کا مفہوم اس پہ واضح ہوتا جاتا ہے، سرنگ کے آخر میں کوانٹم کی دنیا کے مزید کچھ سپاہی موجود ہیں جو ایک نئی اور خوبصورت پوشاک کے ساتھ عریاں فرد کا استقبال کرتے ہیں، باقاعدہ دستار بندی کی جاتی ہے، سرنگ سے نکلتے ہی فرد اپنے اندر موجود جوہر کا ایسے اظہار کرتا ہے جیسا کرنے کا حق ہے، دنیا میں جتنے بھی عظیم کارنامے، تخلیق، ایجاد یا افکار سامنے آئیں وہ ایسے ہی افراد کی مرہونِ منت ہیں جو بند گلی میں قید کے بعد، پرانے شعور کا لباس اتارتے ہوئے اس سرنگ سے گزرے ہیں اور تخیل کی نئی روشنی سے متعارف ہوئے ہیں۔
اگر آپ خود کو ان کیفیات میں مبتلا پاتے ہیں تو سمجھ لیجئے کہ آپ اپنی ذات میں خاص جوہر رکھتے ہیں، آپ عامیوں سے ہٹ کر ہیں، اور اس بے ڈھنگی مادیت سے بلند مقام پر ہیں، بس خود کو اضطراب کی ان کیفیات اور گھٹن کے ان راستوں پہ ثابت قدم رکھنا ہے، روح کی یہ تاریک شب آزمائش ضرور ہے لیکن یہ آزمائش عظمتوں کی ضامن ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں