اورنگزیب کی مجبوریاں/محمد عامر حسینی

ایک چشتی وحدت الوجودی صوفی تھے شیخ محب اللہ مبرز الہ آبادی۔ یہ معروف چشتی بزرگ شیخ ابو سعید گنگوہی چشتی کے سب سے معروف خلیفہ تھے اور 1628ء میں یہ الہ آباد منتقل ہوئے اور اپنی موت تک وہیں مقیم رہے ۔

انہوں نے شیخ ابن عربی اور نظریہ وحدت الوجود پر معرکتہ الآراء کتب تحریر کیں ۔ پہلے فصوص الحکم پر انھوں نے عربی زبان میں حواشی لکھے (ان حواشی کا اردو ترجمہ بڑی دلچسپ بات ہے معروف دیوبندی عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی نے کیا) پھر فصوص الحکم کا فارسی ترجمہ اور اس پر فارسی زبان میں حاشیہ لکھا ۔ انہوں نے قرآن پاک پر عربی میں وحدت الوجود پر ایک بیش قیمت تبصرہ وحدت الوجودی تفسیر کے ساتھ عربی میں لکھا پھر ایک اور حاشیہ ترجمہ القرآن ابن عربی کی تشریحات کے ساتھ لکھا ۔ شیخ ابن عربی کی تعلیمات پر انہوں نے عربی میں ایک تفصیلی کتاب “مناظر الاخوص الاخواص”کے عنوان سے لکھا ۔ فارسی زبان میں انھوں نے “ہفت احکام” کے نام سے ایک رسالہ مرتب کیا اور اس میں شیخ ابن عربی کے معروف تصور “وجود مطلق” کے تنزلات ستہ / مراتب تجلیات کی تشریح کی ۔ شیخ ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجود بارے جو مقبول عام نکتہ نظر تھا اس پر انہوں نے”عبادتہ الاخواص” کے عنوان سے ایک رسالہ لکھا اور پھر اس کی شرح خود عربی میں لکھی ۔ وحدت الوجود کے تین بنیادی ستونوں پر انھوں نے ایک رسالہ “سہ رکنی” کے نام سے مرتب کیا۔ اور کئی رسائل انھوں نے مرتب کیے ۔ ان کا ایک رسالہ جو اس زمانے میں مقبولیت کی بلند ترین سطح پر پہنچا وہ ” تسویہ” تھا ۔

شیخ محب اللہ مبرز الہ آبادی مغل بادشاہ شاہ جہاں اور اورنگ زیب کے دور میں سب سے نمایاں چشتی صوفی تھے جنھوں نے بڑی تفصیل سے عربی اور فارسی میں وحدت الوجود کے سب سے بڑے مخالف صوفی شیخ علاءالدولہ سمنانی، سید محمد گیسو دراز چشتی اور شیخ احمد سرہندی کا رد لکھا۔

قیام الہ آباد کے دوران ان کو ایک طرف تو جونپور میں قیام پذیر فلسفی ملا محمود اور ان کے حامیوں کی طرف سے فلسفہ و منطق کے راستے سے وحدت الوجود کی شدید مخالفت کا سامنا رہا ۔ لیکن سب سے خطرناک چیلنج انھیں سنی آرتھوڈوکس علما الہ آباد کی طرف سے پیش آیا جنھوں نے ان کے وحدت الوجودی نظریات کو کفر اور ارتداد کا مجموعہ قرار دیتے ہوئے انھیں مادیت پرست اور ملحد قرار دے ڈالا اور ایک مشترکہ فتوا ان کے واجب القتل ہونے کا صادر فرمایا ۔ قریب تھا کہ وہ اس فتوے کی رو سے شاہ جہاں (زبردست دباؤ میں آکر) کے ہاتھوں قتل ہوجاتے لیکن جونپور سے تعلق رکھنے والے ایک بہت بڑے عالم مولانا عبدالرشید فوری الہ آباد پہنچے اور انہوں نے اس فتوے پر خط تنسیخ پھیر دیا ۔

شیخ محب اللہ مبرز الہ آبادی جولائی 1648ء میں انتقال کرگئے تو اس وقت اورنگ زیب کو ان کے حواری علماء نے شیخ کے رسالے “تسویہ” کا ایک نسخہ پہنچایا اور اورنگ زیب نے اس پر سخت برہمی کا اظہار کیا ۔ شیخ تو فوت ہو چکے تھے ان کا وہ اب کچھ بگاڑ نہیں سکتا تھا لیکن اس کو بتایا گیا کہ اس وقت کے مغلیہ سلطنت کے دارالخلافہ میں شیخ محب الہ آبادی کے دو انتہائی قریبی مرید موجود ہیں ۔ ایک سید محمد قنوجی تھے جو ان کے دربار میں ملازم تھے اور دوسرے معروف صوفی شیخ محمد تھے ۔ سید محمد قنوجی نے تو شیخ محب اللہ مبرز الہ آبادی سے اپنی نسبت اور تعلق سے یکسر انکار کرکے جان چھڑوالی۔ دوسرے شیخ محمد کو طلب کیا گیا اور انھیں کہا گیا کہ یا تو وہ “تسویہ” میں مبینہ کفریہ عبارات کی تطبیق کریں وگرنہ “تسویہ” کو نذر آتش کردیں ۔ شیخ محمد نے اس کے جواب میں جو کہا وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے:
[مجھے شیخ محب اللہ مبرز الہ آبادی کے مرید اور شاگرد ہونے سے ہرگز انکار نہیں ہے۔ اور نہ ہی میں ان سے اظہار برآت کرتا ہوں۔ میں ابھی اس مرتبہ ولایت پر نہیں پہنچا جہاں پر میرے شیخ تھے اور جس مرتبہ پر رہ کر وہ باطنی امور پر بات کرتے تھے۔ جس دن میں اس مقام ولایت پر پہنچا تو میں رسالہ تسویہ میں کہی گئی باتوں کی شرح کرنے کے قابل ہوں گا، ابھی تو یہ میرے بس کی بات نہیں ہے ۔ اگر شہنشاہ ذی وقار نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ اس رسالے کو جلا کر راکھ کردیا جائے تو میرے جیسا شخص جو اپنے سارے معاملات سپرد الی اللہ کرچکا ہے اس کے گھر سے کہیں زیادہ آگ تو شاہی کچن میں موجود ہے جو اسے جلانے کو کافی ہوگی ۔ شہنشاہ خود ہی اس رسالے کے سارے نسخے اپنے شاہی مطبخ خانے کے چولہے میں جلا ڈالنے کا حکم صادر فرمادیں]

اورنگ زیب بادشاہ ہر اس صوفی کو اپنی حکومت کے لیے خطرہ سمجھتا تھا جو اس کے ہاتھوں قتل ہونے والے اس کے بھائی دارا شکوہ کی طرح وحدت الوجود کی تشریح کرتا ۔ شیخ محب اللہ مبرز الہ آبادی اور ان کے معتقدین بارے اسے شک تھا کہ وہ داراشکوہ کے حامی تھے ۔ کیونکہ شیخ محب اللہ مبرز الہ آبادی وحدت الوجود کے زبردست پرچارک تھے وہ مسلمانوں کے مسالک اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں اتحاد و یگانگت پر زور دیتے تھے اور مذہبی تنوع اور مذھبی ثقافتی رنگا رنگی کو یک نوعی کر دینے کے حامی نہ تھے اور دنیا میں کثرت کو وجود مطلق کے تعینات قرار دیتے اور اسے مشئیت الہی سمجھا کرتے تھے اور سنی آرتھوڈوکس علما کے برعکس ہندوؤں کے ساتھ نہایت عزت و تکریم سے پیش آتے تو اورنگ زیب کو وہ داراشکوہ قادری کا حامی صوفی خیال کرنے لگے تھے ۔ شیخ محب اللہ مبرز الہ آبادی کے خلاف وحدت الوجود کے کٹر مخالف قدامت پرست علماء کو اورنگ زیب کے دربار تک شکایت پہنچانے کا موقعہ اس وقت ملا جب وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے تھے ۔

اورنگ زیب بادشاہ کے دربار سے وابستہ وحدت الوجود کی وسیع المشرب اور صلح کلیت کے مخالف قدامت پرست علما کو صلح کلیت کے حامی وحدت الوجودی صوفیاء اور ان کے پیروکاروں کے خلاف وسیع پیمانے کی سرکاری کاروائی کرنے میں دشواری کا سامنا اس لیے بھی کرنا پڑ رہا تھا کہ دہلی میں خواجہ باقی باللہ(شیخ احمد سرہندی کے مرشد اور پیر) کے بیٹے خواجہ خورد اعلانیہ وحدت الوجود کے پرچارک کے طور پر سامنے آگئے تھے اور وہ ہندوستان میں نقشبندیہ کی غیرمجددی سلسلہ طریقت کی شاخ کے سربراہ تھے ۔انہوں نے شیخ محب اللہ مبرز الہ آبادی کے رسالے “تسویہ” کی شرح لکھی ۔ دوسری طرف چشتیہ سلسلے کے اس زمانے کے بہت بڑے صوفی شاہ کلام اللہ جہان آبادی نے بھی “شرح رسالہ تسویہ” لکھی اور انہوں نے اورنگ زیب کے دور ہی میں شیخ احمد سرہندی کے نظریہ وحدت الشہود کا رد ” سواطع الانوار” کے نام سے لکھا ۔

ہندوستان میں سلسلہ نقشنبدیہ کا آغاز کرنے والے خواجہ باقی باللہ کے بیٹے خواجہ میر خورد اور شاہ کلام اللہ چشتی جہان آبادی برسرعام اپنی مجالس میں شیخ احمد سرہندی کے نظریات کا رد کیا کرتے تھے اور انھوں نے مقام وحدت الوجود کو مقام وحدت الشہود سے کہیں زیادہ اعلی و ارفع وجدان، کشف اور مشاہدہ حق کی منزل قرار دے ڈالا ۔ اورنگ زیب کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ خواجہ باقی باللہ کے بیٹے اور چشتی صوفی شاہ کلام اللہ جہان آبادی کی تعذیب کرتا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply