ایک تھی ریاست۔ ایک خطے میں عقل اور جذبات کے درمیان مذہب کی لال لکیر کھینچ کر قائم کی گئی تھی۔ اب جب یہ لکیر ہی مذہب کی تھی تو ملاں صاحب کی اجارہ داری تو قائم ہونا ہی تھی۔ سو بن بیٹھے لٹھ مار کر اس ریاست میں مذہب کے ٹھیکیدار۔
خدا کائنات کا خدا ہے۔ اپنی کائنات کے تصرف میں خود کو ماننے کی شرط رکھنا اپنی ربوبیت العالمین کی توہین سمجھتا ہے۔ اعلیٰ ظرفی کوئی خدا سے سیکھے۔ مگر اتنے عالی ظرف و عظیم خدا کے نام لیوا کائنات کے اس بحرِ بے کراں کو اپنی مسلکی عصبیت کے کوزے میں دیکھتے تھے۔ پتھر میں کیڑے کو رزق دینے کی مثالیں دے دے کر فرقوں کے دستر خوانوں سے رازق و رزاق کی آوازیں لگا کر چندے کے ذرے چننےوالے کم ظرفوں کو ” رب العالمین ” کا فلسفہ کیسے سمجھ میں آئے۔ خدا کا نام بیچنے والے بیوپاری۔
سو اس ریاست میں چندے کی اس جنگ میں بطورِ مالِ غنیمت ملاں صاحب کے حصے میں ایک باندی آ گئی۔ بڑی نخوت سے پوچھا ، کیا نام ہے تمہارا کنیز ۔۔۔کھڑک کے بولی ” سائینس ” انسانوں کی خدمت کرتی ہوں، انکی مدد کرتی ہوں، انکے کام آتی ہوں، انتہائی کرخت آواز میں کہنے لگے ، لا حولا ولا قوۃ۔ یہ سب کام خدا کے ہیں۔ خبردار جو آئندہ یہ کفریہ کلمات منہ سے نکالے۔
سائنس دل ہی دل میں خوش ہوئی کہ شاید ناراض ہو کرہجرے سے نکال باہر کریں گے اور کسی قدردان کے پاس جاؤں گی مگر وہ بھی کتنی بھولی تھی مسلمانوں کی طرح ملاں صاحب کے بارے میں خوش گمانی پال بیٹھی قول و فعل کی ہم آہنگی کی۔
ملاں صاحب رات سونے کے لیے لیٹنے لگے۔ سائنس سے کہا میٹریس اور تکیہ ڈال دو۔ من میں تو اسکے آیا کہ کہے برگد کے پیڑ تلے کھجور کے پتوں کا گدا اور تکیہ لے آؤں بہرحال خاموشی سے حاضر کر دیے۔ اچانک بستر پر ادھر ادھر ٹٹولنے لگے تو سائنس نے پوچھا حضور ہاتھ والی پنکھی ڈھونڈ رہے ہیں ؟ کہنے لگے نہیں کم بخت وہ چھوٹا سا موبائل فون جیسا جس سے اے سی چلاتے ہیں۔ مسکراتے ہوئے کھنکتی آواز میں کہنے لگی ” ریمورٹ کنٹرول ” یہ لیجیے حضور۔۔مجال ہے جو تھوڑا شرمندہ ہوتے۔ سولہ پر اے سی چلا کر کہنے لگے یہ وول کا کمبل مجھ پر اوڑھا دو۔ اس سے پہلے کہ سائنس پوچھتی بھیڑوں کی کھال کیوں نہیں ؟ خراٹے بھرنے لگے۔ سائنس حجرے میں رات بھر جاگتی رہی۔
صبح اٹھے۔ سائنس جاگ رہی تھی۔ کہنے لگے تم سوئی نہیں۔ کہنے لگی میں جاگتی ہوں انسانوں کو سلانے کے لیے۔ کہنے لگے پھر وہی کفریہ کلمات۔ صرف خدا ہے جسے نہ نیند آتی ہے نہ اونگھ۔ کہنے لگی۔ ایک بات پوچھوں حضور۔ ؟ کہنے لگے۔۔ہاں ہاں شرکیہ نہ ہو بس۔ کہنے لگی۔ میں نے تو خدائی کا کبھی دعویٰ نہیں کیا یہ آپ کی کوئی رجعت پسندانہ احساسِ کمتری تو نہیں جسکی تسکین کے لیے میرے دعوے کے بغیر ہی ہر معاملے میں مجھے خدا کے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں۔ ؟ ہماری ذات پر کیچڑ اچھالتی ہو کلموہی، سازش کرتی ہو اسلام کے خلاف۔ تم ہو ہی بھٹکی ہوئی اور نامراد۔خبردار آئندہ کوئی بکواس کی۔
غسل کے لیے پانی گرم کر کے لاؤ۔ سائنس نے اٹھلاتے ہوئے کہا۔ کنویں سے مشکیزہ بھر لاؤں ؟ باچھیں کھلا کر کہنے لگے یہ انسٹنٹ گیزر ہے نہیں۔ ہمیں اتنا بھولا سمجھتی ہو۔ غسل کر کے باہر آئے تو کہیں سے انتہائی مرغن ناشتہ آ چکا تھا۔ سیر شکم ہو لیے تو کہنے لگے۔ وہ بلڈ پریشر والی گولی دینا۔ سائنس نے دیکھا دوا کی شیشی کے ساتھ ایک پمفلٹ پڑا تھا اس پر لکھا تھا کلونجی کے دانے میں موت کے علاوہ ہر بیماری کا علاج ہے۔ وہ کلونجی کے دانے لے گئی۔ کہنے لگے یہ کیا تم سے بلڈ پریشر کی گولی کہی تھی۔ کہنے لگی وہ پمفلٹ پر۔۔اوہوتیرے ہی اس لگتے ڈاکٹر نے کہا یہ گولی ہر روز صبح لازمی ہے۔ مجھے کیا پتا اب کلونجی میں بلڈ پریشر کا علاج ہے کہ نہیں۔ سائنس ڈرتے جھجھکتے کہنے لگی وہ اس پر موت کے علاوہ ہر بیماری۔۔۔یہیں تک پہنچی تھی کہ کہنے لگے ہاں تو اس میں کیا شک ہے۔ یہ طبِ نبوی میں لکھا ہے۔ سائنس نے کہا تو پھر کیا آپ طبِ نبوی ص کو نہیں مانتے، کہنے لگے لا حولا ولا قوۃ ، دیکھ سائنس بی بی ، آخری وارننگ دے رہا ہوں۔۔ اگر آئند ایسے بے معنی سوالات کیے تو۔۔تو کیا ؟ مجھ پر فتویٰ لگا دیں گے۔ مجھے حرم وحجرے اور مسجد و مدرسے سے نکال دیں گے۔ ؟ ہے ہمت ؟ نکال کے دکھائیے۔ سوالوں پر لاجواب ہو کر فتوے دینا پرانا ہوا ملاں صاحب۔ وہ وقت چلے گئے۔ کہنے لگے حدادب گستاخ۔
تھوڑی دیر بعد پھر آواز دی۔ میری گھڑی ، ٹوپی ، واسکٹ اور جوتے لاؤ۔ گھڑی پکڑاتے کہنے لگی سورج کو دیکھ کر وقت کا اندازہ کیجیے ناں ؟ ٹوپی اور واسکٹ پکڑاتے کہنے لگی برا نہ منائیے صرف سوچیے کہ میری مشینوں نے کپاس کے ڈوڈوں سے لے کر کون کی بنی کلیوں سے پولی ایسٹر فائیبر کی تیاری تک اور پھر اسے آپکے جبے ،واسکٹ ، ٹوپی اور موزوں میں ڈھالنے تک انسانیت کی کتنی خدمت کی؟ خشمگیں نگاہوں سے دروازے کی طرف بڑھ گئے۔
سیکورٹی آلات سے آراستہ خود کار دروازوں میں سے گزر کر بڑی سی گاڑی کے قریب پہنچے تو ڈرائیور اور گن مین بھاگے بھاگے آئے۔ سائینس ڈرائیور سے کہنے لگی بھائی گاڑی نہیں صاحب خچر یا اونٹ پر جائیں گے۔ اور گن مین بھیا آپ تلوار پکڑیں یہ سائینسی بندوق نہیں۔ وہ دونوں ہنسنے لگے تو ملاں صاحب نے دونوں کو ایک موٹی سی گالی دی۔ اتنے میں سائینس کو کہنے لگے خاموشی سے گاڑی میں بیٹھو۔ اس نے کہا مجھ کلموہی کافر کو خدا کے گھر میں لے کر جائیں گے؟۔
جمعے کے خطبہ میں آج جوشِ خطابت کا کا عالم ہی اور تھا۔ سائینس سے کہنے لگے۔ لوگوں کے سامنے خاموش رہنا۔ بہت گرمی ہے منرل واٹر کی بوتل سامنے رکھو۔ واسکٹ پر مائیک لگاؤ۔ سارے سپیکرز آن ہونے چاہئیں۔۔کیمرہ آن کرو۔ اس پوسٹ کو سوشل میڈیا پر لگانا ہے۔
بھائیو بات یہ ہے کہ فلاں یونیورسٹی والے ایک ایوارڈ دے رہے ہیں کسی سائینس دان کو جسکے عقیدے کو ہم نہیں مانتے۔ اسلام کے بنیادی عقائد کو نہ ماننے والی سائینس کو ہم جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔
اچانک سائینس کھڑی ہوئی اور کہنے لگی حضور وہ جو جوتا ہے ناں وہ بھی سائینس نے ہی دیا ہے۔ سارے مقتدی ہنسنے لگے۔
آپ سے صرف ایک سوال کرنا تھا کہ بجلی ، بلب ، موٹر ، فوم ، دوا ، منرل واٹر ، کار ، گھڑی ، کیمرہ ، سوشل میڈیا ، آئی فون کیا انکے موجدین سائینسدانوں کے عقائد سے آپ اتفاق کرتے ہیں جو انہیں استعمال کر رہے ہیں۔ایڈیسن ، آئین سٹائین ، فیراڈے ، بوہر ، نیوٹن ، ٹیسلا ، روزمیری ، فرینکلن، ڈارون اور گلیلیو کے نظریات آپکے فرقے والے ہیں ؟ اگر نہیں تو اور یقیناً نہیں تو نکال باہر کیجیے ان سب کی ایجادات کو خدا کے گھر سے۔ وگرنہ بند کیجیے یہ منافقت۔
ختمِ نبوت ص کی تکمیل ہوئی تھی خطبہِ حجۃ الوداع پر جسے انسانی حقوق کا چارٹر کہتے ہیں۔ اس میں عدل و انصاف کو بنیادی حیثیت دی تھی خدا کے آخری نبی ص نے۔انسانی حقوق میں سب سے بڑا حق عدل و انصاف کا ہے۔ سائینس نے تو اس تاندلیانوالہ مدرسہ بچہ زیادتی کیس میں ڈی این اے اور دوسرے سائینسی شواہد کے ذریعے عدل و انصاف کو یقینی بنانے کا انتظام کیا تھا۔ جس پر آپ نے جا کر مٹی ڈالی تھی۔ سو کسی یونیورسٹی میں سائینسی خدمات پر سائینس کو جوتے کی نوک پر رکھنے سے کچھ دن پہلے آپ نے اس بچے کے حقِ انصاف کو جوتے کی نوک پر رکھا تھا۔ غور کیجیے آپ جیسے سائینس کو عملی طور پر مانتے ہیں مگر علمی طور پر نہیں اسی طرح آپ اسلام کو علمی طور پر مانتے ہیں مگر عملی طور پر نہیں۔ بند کیجیے یہ دوہری منافقت۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں