رُوداد ایک تربیتی ورکشاپ کی / احمد شہزاد

جب مسقط کے اسکول میں ایک تربیتی ورکشاپ کے انعقاد کی خبر اُڑتے اُڑتے آئی تو ہر ایک حیران تھا کہ اسکول اور تربیتی ورکشاپ !!!! یااللہ خیر۔۔۔ اب بوڑھے طوطوں کو پڑھایا جائے گا، یعنی تعلیمِ بالغاں کا سیشن ہو گا۔گو کہ طویل مدت سےاس تعلیمی ادارے میں کوئی تربیتی ورکشاپ نہیں ہوئی تھی۔ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد اس لیے بھی ضروری ہوتا ہے کہ اساتذہ کئی سالوں سے لگے بندھے اصولوں کے تحت تدریسی فرائض انجام دے رہے ہوتے ہیں ۔نئے خیالات اور جدید طریقہ ہائے تدریس سے کم ہی آشنا ہوتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ طلبہ کی بھی جدید طریقہ تعلیم سے شناسائی کم ہوتی ہے ، دونوں کی حالت غالب کے اس شعر سی ہوتی ہے ۔؂
وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے ، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سُبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو
یوں سمجھیے ان حالات میں وقت کو دھکا دیا جا رہا تھا یعنی وقت گزارا جا رہا تھا سب کا حال کچھ یوں تھا؂
فکرِ دنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں
آخر وہ دن آن پہنچا، پاکستان اسکول مسقط کے تمام اور اس کی دیگر برانچوں کے منتخب اساتذہ تشریف لائے تو معلوم ہوا کہ صرف اساتذہ ہی نہیں پانچ برانچوں کے پرنسپل حضرات بھی تربیتی ورکشاپ میں شریک ہیں، تو ایسے میں حضرت اقبال کی یاد آگئی؂
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ، کیا چھوٹا کیا بڑا ، کیا ادنیٰ کیا اعلیٰ ، جِسے جہاں جگہ ملی مؤدب ہو کر تربیتی ورکشاپ میں مصروف ہوتا گیا۔ہم نےتربیتی ورکشاپ کے ماسٹر ٹرینر محترم عباس صاحب کی طرف دیکھا اور دل میں گویا ہوئے ؏
تری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
یادش بخیر۔۔۔ تربیتی ورکشاپ کے شروع ہونے پہلے ہمارے ایک نئے آنے والےساتھی اُستاد جن کا تعلق دیہات سے تھا کہنے لگے کہ “ورکشاپ کس قسم کی ہو گی اور اس میں کیا کیا کرنا پڑے گا ؟”
ہم کہنے ہی لگے تھے ” تُوں کیہہ جانےبھولیے مَجّے، انارکلی دِیا ں شاناں ” بس کہتے کہتے رُک گئے ، کہیں بھولی مَج انارکلی میں ہی گُم نہ ہو جائے ، ہم پھر گویا ہوئے ” کیوں جناب کیا اس سے پہلے آپ نے کوئی ورکشاپ اٹینڈ نہیں کی ۔” انہوں نے جھجکتے ہوئے انکار میں سر ہلا دیا۔پھر ازراہِ تفنن کہنے لگے “مجھے تو ایک ورکشاپ کا پتہ ہے ، جہاں میں اپنی موٹر سائیکل گاہے بگاہے لے جاتا تھا کبھی کوئی پیچ ڈھبریاں کسوانے، نٹ بولٹ تبدیل کرانے، کبھی پلگ کا کچرا صاف کرانے ، تیل بدلی اور فلٹر چینج کرانا یا پھر مکمل ٹیوننگ کرانا ہوتی تھی۔
اتنا سُننے کے بعد ہم نے عرض کیا کہ یہ تربیتی ورکشاپ بھی کچھ اسی قِسم کی ہے ۔۔۔۔یہ سُننا تھا تو پہلے ان کے چہرے کی ہوائیاں اُڑیں اور جب ان کے ہاتھوں کے طوطے چڑیوں سمیت اُڑنے لگے تو ہم نے کہا” بھائی! پریشان کیوں ہوتے ہیں ہم نے آپ سے کچھ غلط نہیں کہا۔
” یہ تربیتی ورکشاپ بھی کچھ اسی قسم کی ہے ۔ جس میں خام خیالی کے گھسے گھسائے پیچ ڈھبریاں تبدیل ہوں گی۔۔۔ دقیانوسی اور زنگ آلودہ خیالات کے نٹ بولٹ بدلے جائیں گے ۔۔۔۔ ذہنی پلگ جو کچرے سے بھرگئے ہیں انہیں صاف کیا جائے گا ، فکر ونظر کا سڑا بُسا آئل بدلا جائے گا اور قدیم طریقہء ہائے تدریس کا فلٹر تبدیل کرنے کی کاوش ہو گی بلکہ یوں کہیے کہ سالہاسال سے قدیم طریقہ ہائے تدریس کی مکمل ٹیوننگ ہو گی ۔ ” یہ سُن کر موصوف کا سانس کسی حد تک بحال ہوا۔
پانچ روزہ تربیتی ورکشاپ کے انعقاد کے لیے کراچی سے ماسٹرٹرینرمحترم عباس صاحب مع اپنے رفقاء کے صحرا میں اذان دینے آن پہنچے اور ریگزار کو گلزار بنانے کی آبیاری کرنے لگے ۔ اس ٹیم نے پہلے دن ایک نمبر کا ریگ مال یعنی (Sand paper ) مار مار کر سالوں پرانا زنگ اتارنا شروع کر دیا جیسے جیسے دن آگے بڑھتے گئے ریگ مال کا نمبر بھی بدلتا گیا۔ جدید طریقہ ہائے تدریس کی نِت نئی معلومات اور آگاہی کے دوران تربیتی ورکشاپ میں ایک سے ایک سرگرمی(ایکٹیویٹی) کرائی جاتی رہی جو واقعی بڑی پُر مغز ہونے کے ساتھ ساتھ پُر لطف رہی۔
گو تربیتی ورکشاپ کی ہر سرگرمی مفید اور کارآمد رہی مگر آخری روز ایک نہایت دلچسپ سرگرمی کرائی گئی ۔ اس ایکٹیویٹی میں ہر عمر کے مرد اور خواتین اساتذہ کے ساتھ ساتھ پرنسپل حضرات بھی شامل تھے، سبھی نے جوش و خروش سے حصہ لیا۔یہ ایکٹیویٹی Wall dictation یعنی بھاگم بھاگ دوڑ تھی۔جس میں مقررہ وقت میں ایک کمرے سے دو کمرے چھوڑ کرایک اور کمرے میں متعلقہ پرچی مقررہ جگہ چسپاں کرنی تھی۔ ایکٹیویٹی شروع ہوتے ہی سب کی آنیاں جانیاں دیکھنے کے قابل تھیں۔ ایسے میں کوئی ٹکرانے سے بچ رہا تھا تو کوئی جان بوجھ کر ٹکرانے کی کوشش کر رہا تھا جو ٹکرا نہیں سکا وہ ٹُکر ٹُکر دیکھ رہا تھا ۔ جو یہ بھی نہ کر سکا وہ ٹُک ٹُک دیدم ــــــ دم نہ کشیدم کی تصویر بنا ہوا تھا ۔ کسی کا بھاگ بھاگ کر سانس پھول رہا تھا تو کوئی ٹکرانے کی خوشی میں پھول کر کُپا ہو رہا تھا۔ اسی دوران کچھ شوخ البیلے بلکہ کچھ البیلیاں بھی اپنے پرنسپل حضرات کو کنکھیوں سے بھاگتے دیکھ کر خوش ہو رہے تھے جو نہیں دیکھ رہے وہ تصور ہی تصور میں مسکرا رہے تھے۔ یوں تربیتی ورکشاپ کا اختتام خوشگوار انداز میں ہوا۔ آخر میں اسناد تقسیم کی گئیں۔
(نوٹ: یہ رُوداد آج سے پندرہ سال پہلے کی ہے جب خال خال تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا جاتا تھا۔)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply