ثقافت کا غلغلہ تو بہت ہے لیکن بیشتر دانشور اس میں رقص وموسیقی اور لباس خوراک تک محدود رہتے ہیں۔ گھر کی تعمیر کو فیشن میں شمار کرتے ہیں اور نتائج بھگت کر روتے ہیں۔ ایسا ہندوستان پر ہونے والے بیرونی حملوں کے نتیجے میں ہوا۔ یونانی تہذیب کے اثرات لمبے لمبے ستونوں کی صورت ہر جگہ دیکھے جا سکتے ہیں۔محراب کو اسلامی طرز تعمیر بنالیا گیا۔یورپی اقوام کا کلچر ڈبے پر ڈبا عمارات ہیں
لیکن اس طرز تعمیر کی کھچڑی میں ہماری ثقافت کو جو نقصان ہوا اس کے اثرات موسمی شدت رکھنے والے شہروں میں آج بجلی کے بلوں کا عذاب بڑھانے کا ایک بڑا سبب بنے ہیں یہ بہت پرانی بات نہیں جب حیدر آباد میں ہر چھت پر گھومنے والے ہوادان عام تھے جو کراچی کی طرف سے آنے والی سمندری ہوا کو بالکل نیچے تک یوں پہنچاتے تھے کہ پنکھے کی ضرورت نہ تھی۔۔وہ اب کہاں ہیں؟ کیوں ختم کرنا ضروری تھے؟
سندھ دیہی علاقوں میں اب بھی مٹی سے لیپی ہوئی موٹی موٹی دیواریں رات کی ٹھنڈک کو سٹور رکھتی ہیں اور اندر پہنچاتی ہیں تو دن کے ساتھ 55 سے اوپر جاتی تپش کو بھی روکتی ہیں۔ وہ متروک ہورہی ہیں۔ ان کی جگہ پنکھے اے سی لیں گے لازمی۔۔
راولپنڈی اور سارا شمالی علاقہ صدیوں سے سردی کی شدت رکھتا ہے اور بارش کے اوسط میں نمبر ون ہے چنانچہ درخت خود بڑھتے ہیں ۔ لیکن یہاں پنڈی سے ایبٹ آباد ، ہزارہ ،گلیات، آزاد کشمیر گلگت سوات جہلم اور اٹک تک گھروں کو سردی گرمی سے بچانے کیلئے لکڑی کا استعمال ہی نہیں جیسا کہ دنیا بھر میں ہوتا ہے، لکڑی نہ فرش میں استعمال ہوتی ہے نہ چھت یا دیواروں پر حالانکہ ایسا ہو تو پنکھے اے سی کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ لکڑی کا استعمال آرائش میں ہے مگر انسولیشن میں نہیں۔
میں دس سال ایک گھر کی اوپر والی منزل پر رہا۔گرمی میں دن بھر سیمنٹ سریے والی چھت تپتی تھی اور آدھی رات تک ساری جذب کی ہوئی حرارت کمرے میں چھوڑتی تھی۔ سردی میں عمل الٹ جاتا تھا۔ رات کی برفانی سردی جو کبھی مائنس بھی ہوجاتی ہے رات دس بجے سے دیواروں میں اترتی ہے اور پھر کمروں کو برف خانہ بناتی ہے۔ ایک سال بعد میں نے بیڈ رومز کی دس فٹ اونچی چھت میں پنکھے کے نیچے پیکنگ مٹیریل ٹائلوں کی نقشین گلابی چھت لگوالی اور دیواروں پر سادہ کپڑے کے پردے پھیلا دیے ۔ اس سے ایک دم فرق پڑا۔ گرمی اندر نہ آسکی۔ اے سی بہت کم چلتا اور اس کی ٹھنڈک اندر ہی قید رہتی دیواروں میں جذب نہ ہوتی ۔ ایسا ہی دسمبر جنوری کی برفانی راتوں میں ہوا۔ انسولیش کی مزاحمت کم آئی اور ہم نے الیکٹرک ہیٹر جلایا تو حرارت کو دیواریں نہ کھا سکیں
ایک سال میں تو نہیں لیکن دوسال میں بجلی کے بل نصف ہوےؑ تو انسولیشن کی لاگت نکل گئی۔ بل نصف چلتے رہے اور چل رہے ہیں۔اگر یہاں چھت ساڑھے آٹھ فٹ ہو اور بیڈ رومز کی دیواروں پر پتلی سی پلائی وڈ لگا دی جائے تو انسولیشن اپنی جگہ۔ رنگ روغن کرانے کا خرچہ بھی ختم۔ یہاں گھر کی بیرونی دیواروں پر ٹائل لگانے کا رواج ہے ۔ بارش بہت ہوتی ہے تو رنگ دھلتا نہیں ٹائل کو قدرت دھو کر چمکا دیتی ہے۔
گرمی سردی روکنے کیلئے اندر سے کھوکھلی اینٹوں کا چلن بھی عام نہیں ہوا ورنہ بجلی کے بل ایک چوتھائی کم ضرور ہوں۔ چھت پر گرمی روکنے والےپینٹ کی بات سو فیصددھوکا ہے۔اب چھت پر سونے یا پتنگ اڑانے تو کوئی نہیں جاتا۔ آپ ساری چھت پر چھوٹے چھوٹے چھ آٹھ انچ کے گملے الٹے رکھ دیں۔ ان کے نیچے قید ہوا گرمی سردی روکے گی، ۔ اللہ توفیق دے تو گملوں میں پودے لگا کے مزید فائدہ لیں۔ پنکھے ہیٹر لازمی کم چلیں گے تو بجلی کا بل کم ہوگا۔یاد رکھیے سویٹر میں ہوا سے سردی رکتی ہے جو اون میں آجاتی ہے۔ سوتی بنیان بھی گرمی کی تپش روکتی ہے ۔لکڑی سب سے سستا انسولیشن کا مٹیریل ہے ورنہ بریانی کے ڈبوں والا فوم۔
آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا پانی گرم کرنے والے بجلی یا گیس کے ہیٹر کھلی جگہ پر لگائے جاتے ہیں۔سردی میں رات بھر پانی گرم ٹھنڈا ہوتا رہتا ہے۔ اس کو گھر یا بیڈ روم کے اندر رکھا جائے لیکن جلنے والی گیس کا پائپ کسی سوراخ سے باہر نکال دیا جائے تو گرم پانی تا دیر گرم رہے گا اور گیزر کی حرارت اندر پھیلے گی۔ رات کے سرد ویرانے میں نہیں، گیس کے لیک ہونے پر نظر آپ ہی رکھیں گے مگر بچت کیلئے کچھ تو کرنا ہوگا۔
اب بجلی گیس کبھی سستی نہیں ملے گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں