۱۱ مئی ۲۰۲۴ کو کینیڈا کے دارالحکومت “آٹوا” میں ارباب قلم کینیڈا کے روح ِ رواں فیصل عظیم اور ان کے ساتھیوں نے کینیڈا پاکستان ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر سید عبد العزیز کے تعاون سے ایک بہت خوبصورت مکالماتی ادبی نشست کا اہتمام کیا جس کے مہمان ِ خاص تھے جناب ولی عالم شاہین ۔اس نشست کے زیادہ تر شرکا ،ٹورنٹو اور اطراف کے دیگر شہروں سے کئی گھنٹوں کا سفر کرکے خصوصی طور پر یہاں پہنچے تھے ۔(ٹورنٹو دراصل اب اردو ادب و شعر کا اک اہم مرکز بن چکا ہے مگر آٹوا کے بیوروکریٹک اور سرکاری نظام کی شدید مصروف زندگی میں شعری اور ادبی اجتماعات کی گنجائش ذرا کم کم ہے )۔

ولی عالم شاہین میرے سینئر ،میرے کرم فرما اور شہر آٹوا میں میرے سب سے پہلے ادبی دوست ہیں ۔میں آٹوا آنے سے قبل بھی اُن کے نام اور کام سے بہت حد تک مانوس تھی ۔اُن کا شعری مجموعہ ‘بے نشان’ جو کراچی سے شائع ہوا ہے پہلے ہی پڑھ چکی تھی ۔ پاکستان و ہندوستان کے ادبی رسائل میں اُن کا کلام بھی نظر سے گزرچکا تھا مگر براہ ِ راست ملاقات نہ تھی ۔اگرچہ اب بھی بہت کم کم ملاقات ممکن ہوپاتی ہے ۔ٹورنٹو سے آٹوا منتقل ہوئی تو دل کو ایک طمانیت تھی کہ یہاں ولی عالم شاہین صاحب رہتے ہیں ۔مجھ سے پہلے میرے بیٹے سجاد جب ملازمت کے سلسلے میں اس اجنبی شہر میں پوسٹنگ پر آئے تھے تو شاہین بھائی اور روشن بھابھی نے ان کی رہنمائی اور میزبانی دونوں کی تھی ۔کسی بھی ایسے نئے شہر میں جہاں ہم جا بستے ہیں ہمارے جذبوں ،محسوسات اور فکر کے رابطوں کو استوار ہونے میں اچھا خاصا وقت لگ جاتا ہے کیونکہ آج کی بےحد جدید زندگی کی تیز ترین مشینی گردشوں میں ہماری باطنی تنہائیوں کی شکلیں بھی بے شمار ہیں ۔آج سے کم و بیش ساڑھے تین برس قبل میں کووڈ کی سخت پابندیوں کے دوران ٹورنٹو جیسے اردو کے اک بڑے ادبی مرکز اور بہت سے پیارے احباب کو چھوڑ کر آٹوا منتقل ہوگئی تھی تو مجھے ہر وقت فیض صاحب کا یہ شعر یاد آتا رہتا تھا
جوہری بند کئے جاتے ہیں بازار ِ سخن
ہم کسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے
وجہ یہ تھی کہ آٹوا میں زیادہ تر انگریزی،ہسپانوی،فرانسیسی اور چینی بولنے والوں سے پالا پڑا۔کسی کسی کو اردو بولتے سن لیتی تو دل خوش ہوجاتا ہے ایسے میں شاعری کی تو بات ہی نہیں ہوسکتی تھی۔( اب تو خیر اس شہر میں بیدار بخت بھی آچکے ہیں ،اشفاق حسین بھی منتقل ہوگئے ہیں ۔صادقہ نصیر اور کئی اور قریبی دوست اور اعزاء بھی موجود ہیں اگرچہ سب ہی عدیم الفرصت ہیں اور کافی فاصلوں پر رہتے ہیں۔

ولی عالم شاہین نے اسی شہر میں رہ کر ایک بھر پور عملی زندگی گزاری ہے ۔ وہ شماریات کے شعبے کے ماہر ہیں ۔ بہار یونیورسٹی انڈیا سے ایم ایس سی کرنے کے بعد انھوں نے کارلٹن یونیورسٹی آٹوا سے ایم ایس سی کی سند حاصل کی ۔اور پھر کینیڈا میں رہ کر مختلف اہم شعبوں میں خدمات انجام دیتے رہے ۔رزق و روزگار کے ساتھ ساتھ شعر و ادب کے مشاغل بھی جاری رکھے ۔۱۹۶۷ سے لے کر ۲۰۲۱ کے عرصے میں اُن کی غزلوں اور نظموں کے سات مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔انھوں نے اپنے کئی شعری مجموعے مجھے بھی عنایت کئے ہیں جنھیں میں نے جستہ جستہ پڑھا ہے ۔اندازہ ہوا کہ انھوں نے تواتر کے ساتھ نہ صرف مختلف موضوعات پر نظمیں اور غزلیں قلمبند کی ہیں بلکہ دیگر زبانوں کی نظموں سے اردو تراجم بھی کئے ہیں۔انھوں نے اپنا تازہ ترین شعری مجموعہ”زر ِ داغ” شمالی امریکہ میں موجود اپنی اُس تیسری نسل کے نام کیا ہے جو یہیں پیدا ہوئی اور یہیں تعلیم حاصل کرنے کے بعد مختلف شعبہ حیات میں اپنی اپنی تخلیقی ہنر مندیوں کا مظاہرہ کررہی ہے ۔
ان سے گفتگو کے دوران فیصل عظیم نے ان کی ذاتی خدمات کے ساتھ ساتھ شمالی امریکہ میں اردو ادب کے حوالے سے پائے جانے والے مسائل ،امکانات اور دیگر زبانوں سے اردو زبان کے تقابل کے حوالے سے کئی بنیادی سوالات اٹھائے جن کے جوابات کے ذریعے ہم سب کو ان کے کام کی تمام تفصیلات کے ساتھ ساتھ اُن تمام کٹھن مراحل کو جاننے کا موقع بھی ملا جن سے کسی صحرا میں اول اول پھول کھلانے کی آرزو رکھنے والے تمام لوگوں کو گزرنا پڑتا ہے۔
۔ اپنی تہذیب و اقدار کے فروغ اور اپنی زبان و پہچان کی بقا کی اس جدوجہد میں ،دیار غیر میں رہنے والوں پر جو کچھ بیتتی ہے اور جو کچھ بیت رہی ہے یہ ایک بہت حساس کہانی ہے جسے بہ غور سننا بہت ضروری ہے ۔محفل میں موجود کئی افراد نے بھی موضوع سے متعلق سوالات اٹھائے اور جوابات حاصل کئے۔ اردو شعرو ادب کے سفر کو جاری رکھنے والوں میں کئی اہم ناموں کا تذکرہ کرتے ہوئے،ولی عالم شاہین کی آواز کئی مقام پر نہ صرف بھًرا گئی بلکہ ان کی آنکھوں میں نمی بھی تیرتی رہی مگر وہ پوری دلجمعی اور خوش دلی کے ساتھ حاضرین کے جوابات دیتے رہے ۔ سب سے اچھی بات یہ تھی کہ وہ تمام تر دشواریوں اور مسائل کا ذکر کرنے کے باوجود اپنی گفتگو کے کسی مرحلے میں بھی اردو کے مستقبل سے مایوسی کا شکار نظر نہیں آئے ۔

میرے لئے یہ محفل چشم کُشا بھی تھی اور نارتھ امریکہ میں اردو ادب کے قلمکاروں کے اہم اور سنجیدہ مسائل کو سمجھنے کا اک ذریعہ بھی ۔(یہ ساری گفتگو فیس بُک پر موجود ہے ۔جو احباب سننا چاہیں ،سن سکتے ہیں ) وقت کی کمی کی وجہہ سے صرف مکالمہ ہی ممکن ہوسکا ،شاعری نہیں سنی جاسکی ۔
ان کی ایک غزل کے چند اشعار ان کے تازہ شعری مجموعے ‘زر ِداغ’ سے
وحشت ِ دل اور ایسی خوش انجام
خود کو ٹھہراؤں کس طرح ناکام؟
مظربا! بے چراغ ہیں درو بام
اک غزل شام ِ دوستاں کے نام
میری حیرت ہی زندگی ہے مری
ورنہ یکساں ہیں سارے صبح و شام
نامیوں کی ہے آبرو جن سے
وہی گلیاں ہیں آج بھی بے نام
میری یادوں میں وہ سلامت ہیں
جن سے اب ہے کبھی دعا نہ سلام
بڑھ چلا ہے تعلق ِ مہ و سال
بے کلی میں بھی کم نہیں آرام
آنکھ میں اک نشہ اتار گئی
میز پر کی وہ گفتگو ،سر ِ عام
عمر کا بڑھ چلا ہے خالی پن
اور بھرے ہیں تمام شیشہ و جام
کچھ نہ کہنے کےسینکڑوں دکھ ہیں
گرچہ ہے خامشی بھی اک کہرام
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں