جیدی شہید- خالد قیوم تنولی

آج جیدی شہید کی برسی ہے۔
22 برس بیت گئے  لیکن یاد کا فلیش چمکے تو جیدی کا چہرہ اپنے فُل ریزولو شن کے ساتھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ اس کی ساری عمر صفحہ اوّل سے اختتام تک کسی من پسند ناول کی طرح بارِ دگر خود کو دہرا دیتی ہے۔ ہمارا شوخ ، کھلنڈرا ، ضدی ، سیمابی اور منہ پھٹ ماں جایا۔ ہر خاندان میں ایک بچہ ایسا ضرور ہوتا ہے جس کے لیے والدین اپنے مساواتی اصول کو بار بار توڑتے ہیں۔ کیسے ، کب اور کیونکر وہ بچہ انھیں باقی اولاد سے بڑھ کر عزیز و اہم ہو جاتا ہے ، اس رمز کو وہ کبھی سمجھ نہیں پاتے۔ جیدی بھی ہمارے گھرانے کا وہی بچہ تھا جو کھیلنے کو اگر چاند بھی مانگے تو ابا اماں دونوں کو ہاتھ پیر پڑ جاتے۔ شاید ہی ہم میں سے کسی اور کو ابّا کے کاندھوں پر سوار ہونے کا شرف ملا ہو۔ وجہ یہ تھی کہ ابا ایک زمانے سے رعب و سنجیدگی کو لازمہ بناۓ ہوۓ تھے تو ہمیں کبھی اتنی ہمت ہی نہ ہو سکی کہ التفات کی حد پار کر سکیں۔ جیدی مگر کسی رعب داب میں آنے والی چیز نہیں تھی۔ وہ انکار یا بے توجہی کو خاطر میں نہ لاتا تھا۔ اپنی ننھی منی مُکیوں اور بے ضرر تھپڑوں سے ابا کے زانو اور سر پیٹ ڈالتا۔ اماں بھی اسی کے وارے صدقے جاتیں۔ ہر فرمائش اوکھی سوکھی ہو کر پوری کرنے لگتیں۔ اس اہمیت کو دیکھ کر جیدی سے چھوٹی ”مخلوق“ نے اسی کو اپنا وسیلہ و سفارشی ٹھہرا لیا تھا۔ وہ بھی کسی کو مایوس نہیں کرتا تھا۔ ہم سے چونکہ بہت ہی چھوٹا تھا ، اتنا چھوٹا کہ کئی  بار اماں کی مصروفیت کے باعث اسے خود نہلایا بھی اور واش رومی پروٹوکول بھی دیا۔ اسی نیکی کے صلے میں وہ ہمارا لحاظ کرتا اور ہر حکم بھی مانتا۔

سیمابی اس لیے کہا کہ وہ زیادہ دیر کہیں جم کر نہ بیٹھ سکتا تھا۔ کسی نہ کسی پنگے میں خود کو الجھاۓ رکھتا۔ کوئی  چیز منگوانی ہو تو وہ آندھی کی طرح جاتا اور طوفان کی طرح واپس آتا۔ اب ایسے جِن کو بھلا کون کون سے کام بتاۓ جا سکتے تھے۔

پڑھائی کے معاملے میں بس واجبی سا تھا۔ اکثر صبح سکول جاتے وقت اس کی آہ و بکا دیدنی ہوتی۔ ابّا تعلیم کے معاملے میں کسی رو رعایت کے قائل نہ تھے۔ سکول چھوڑ کے ہی آتے تھے چاہے جیدی کی جیب سکوں اور روپوں سے کیوں نہ بھرنی پڑے۔ ایک بار ہم لے کے گئے  تو اس نے گھر اور سکول کے درمیان تگنی کا ناچ نچا دیا۔ زچ ہو کر ہم نے اس کی پیٹھ پر زور کا ایک طمانچہ جڑ دیا۔ اس تھپڑ کا نشان بہت دیر تک اس کی کمر پر موجود رہا۔ ابا نے دیکھا تو ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ بہت دن ہم سے خفا رہے اور ہم بے حد شرمسار و دلگرفتہ۔ اس تھپڑ کا ملال ہمیں آج بھی مضطرب کر دیتا ہے۔

عموماً ضدی اور لاڈلی اولاد بگڑ جاتی ہے مگر جیدی بتدریج ذمہ دار اور حساس ہونے لگا۔  1995 کے دسمبر میں ہم رخصت پہ گھر (کراچی) گئے  تو جیدی نویں کے سالانہ امتحان کے بعد کی فراغت کو بامقصد بنانے کی خاطر ابا کےہنڈا ففٹی پر فارمی انڈے دکانوں پہ سپلائی کر رہا تھا۔ شام کو نفع کی ساری رقم بغیر گِنے ابا کی طرف بڑھاتا تو وہ اشارے سے کہتے : ”اپنی بے بے کو دیدو۔“

ہم نے اسے کہا بھی کہ ”یار چھوٹے یہ تمہارے کھانے اور کھیلنے کے دن ہیں ، کن تجارتی بکھیڑوں میں پڑ گئے  ہو۔ خرچہ ہم دے دیں گے ، بولو  “
وہ ہنس پڑا : ”اڑے بھائی جان ! ابھی تک صرف کھایا اور کھیلا ہی تو ہے ، اب ابا کو سپورٹ کرنا مانگتا ہے رے۔ وہ بتاتے تو نہیں مگر تھک جاتے ہیں۔“

ایک صبح صحن میں ہم ناشتے سے پہلے اخبار پڑھ رہے تھے ، جیدی ماں جی کے ساتھ کچن میں ناشتے کی تیاری میں مدد کر رہا تھا۔ اس کی دلچسپ نوک جھونک اور ماں جی کی ہومیوپیتھک ڈانٹ ڈپٹ کی آوازیں ہمیں سنائی دے رہی تھیں۔

کسی بات پر ماں جی نے کہا : ”پُتر ! برف والے سے برف اور پھول فروش سے پھول خوامخواہ بھی خرید لیا کرو کیونکہ دونوں کی روزی لمحاتی ہوتی ہے۔ دیر ہو جاۓ تو برف ، پانی اور خوشبو ، باسی ہو جاتی ہے۔“

وہ نصیحت ہم نے بھی سنی مگر آئی گئی  ہو گئی ۔ پانچ سال بعد جب وہ پاک فوج کا جوان رعنا تھا تو ہم سے ملنے ہیڈ قادر آباد سے واہ کینٹ آیا۔ اسی دن کی شام ہم دونوں گھر سے قریب شیر شاہ پارک میں بیٹھے تھے تو وہ دفعتاً اٹھا اور ایک پھول فروش لڑکے سے موتیے کی لڑیاں اور گلاب کے گجرے خرید لایا۔ ہم نے ٹوکا : ”یہ کیا فضول خرچی کی۔ کیا ضرورت تھی بھلا؟“
ہنس پڑا ، بولا : ”کبھی کبھی خوامخواہ بھی کرنا چاہیے ایسا ، بیچارے کی روزی لمحاتی ہے ، باسی خوشبو کو کون خریدے گا۔“

ہمیں اس بینچ پر بیٹھے بیٹھے ماں جی بہت یاد آئیں مگر ندامت کے ساتھ۔ ان کے اس حکم کی پیروی ہم نہ کر سکے تھے البتہ ہم نے ازالے کے طور پر دل ہی دل میں جیدی کو بہت سارے سیلیوٹ مار دیے۔

جیدی کو ہم سے ایک گلہ رہا کہ ہم نے تین یا چار مواقع پر اس سے برادرانِ یوسف والا سلوک کیا۔ یہ شکایت وہ اگرچہ ہنس ہنس کر کرتا لیکن ہمیں دل پہ کچوکا لگا کے ہی چھوڑتی۔ وہ واقعی اماں ابا کا ”یوسف“ تھا۔ ایک تو وہی تھپڑ والا واقعہ جب ابا بہت دن ہم سے روٹھے رہے تھے۔ دوسری بار جب اسے ہم نے اس کے دوستوں کی موجودگی میں ایویں ہی بہت سی گرم سرد سنا دیں  اور تیسری بار جب وہ ہمارے مخصوص برانڈ کی سگریٹ کی بجاۓ کوئی اور الم غلم اٹھا لایا تو غصے سے ڈبی ہم نے اس کے منہ پہ دے ماری تھی۔

جیدی جب اسی تناظر میں شکوہ سنج ہوتا تو ہم کہتے : ”چھوٹے ! اس سب کے لیے ہمارے پاس ایک ناقابلِ تردید جواز ہے ، وہ یہ کہ ہم تم سے بڑے ہیں۔ تم بھی خود سے چھوٹوں عمران اور تنویر سے یہی سب کرنے کا استحقاق رکھتے ہو ، کس نے روکا ہے۔“

اس کے بعد ہم مزید ”کم ظرفی“ پر اتر آتے اور احسان جتلانے لگتے کہ ”تمہاری تو ہم نے پوٹیاں بھی دھوئی ہیں اور پیمپر بھی کئی  بار بدلے ہیں ، اوۓ اب اعتراض کرتے ہو۔“
وہ جواب میں قہقہے اچھالتا ہوا ادھر ادھر ہو جاتا۔

عمران اور تنویر ویسے بھی اس سے کافی دَب کے رہتے تھے حالانکہ اس نے اپنی خداداد رعایت کا کبھی اس طرح فائدہ نہیں اٹھایا جس طرح ہم اٹھاتے آئے  ہیں۔

میٹرک کی تکمیل کے بعد ہم نے سنا کہ اس نے کباڑ خانے کا گودام کھول لیا ہے جہاں سارا دن ، کانچ ، لوہا ، پیتل ، پلاسٹک وغیرہ کی چھان پھٹک کرتا رہتا ہے۔ ہم نے فون پر اس  نئے  ”بزنس“ کی وجہ پوچھی اور ساتھ ہی کھنچائی  کی غرض سے کہا : ”کالج میں داخلہ کیوں نہیں لیا ۔۔۔ انسان نہیں بننا کیا؟“
زور سے ہنسا اور دوری کا فائدہ اٹھا کر بولا : ”انسان تو میں ہوں ، اور آپ سے تھوڑا سا زیادہ ہی۔“

اس کباڑ پنے میں برکت تھی یا اس کا اخلاصِ محنت کہ منجھلی بہن کی شادی کے اخراجات کی مد میں اس نے ماں جی کو ڈیڑھ لاکھ کی رقم دی اور خود اگلے دن گودام کو تالا لگا کر کالج میں داخلہ لے لیا۔
چار سال بعد اس کی رجمنٹل پاسنگ آؤٹ تھی۔ کارگل کے معرکے میں اس نے والنٹیئر کے لیے اپلائی  کیا جو کسی آفیشل وجہ کے منظوری نہ ہو سکی۔

لڑاکا تو بچپن سے ہی تھا۔ لپک جھپٹ کا عادی بھی۔ وردی اسے بوجھ محسوس ہوتی تھی۔ ا یئر   ڈیفنس کا شعبہ اس کے نصب العین کے مطابق نہ تھا۔ وہ خود کو انفنٹری میں دیکھنے کا متمنی تھا۔
2002 کے جنوری میں اچانک اس کی منگنی ہو گئی، یہ خبر ہم نے تب سنی جب ہم شمالی علاقوں کی سیاحت پہ نکلے ہوۓ تھے۔ ہم نے فون پر اسے مبارک باد دی اور منگیتر کے بارے کہا : ”اچھا تو یہ ہے وہ امریکہ جس کے کولمبس تم ہو ، ماشاءاللہ ، مگر اتنی جلدی اور اچانک یہ انقلاب کیونکر ہوا ، چھوٹے ؟“
وہ ہر امر و عمل کا پسِ منظر دیکھنے کا خوگر تھا تو بولا : ”بھائی  ! جب ہماری نانی اور نانا فوت ہوۓ تو امی بہت چھوٹی تھیں اور بڑی خالہ نے ہی اپنی دونوں چھوٹی بہنوں کی پرورش کی۔ میں چاہتا ہوں کہ خالہ اور امی کبھی دور نہ ہوں  ۔۔ بس اسی لیے۔“

چار ماہ بعد وہ واہ کینٹ آیا۔ دو دن ہمارے ساتھ اور پاس رہا۔ خلافِ معمول سنجیدہ اور کم گو سا لگا۔ یہ تبدیلی اس کی فطرت کے منافی تھی سو ہمیں تجسس اور فکر نے گھیر لیا۔ ہم نے اپنی طرف سے اس کی معروف شوخی اور زندہ دلی کو جگانے کی کوشش کی لیکن وہ جیدی ہی کیا جو اپنے متوقع پراجیکٹ کے کلائمیکس سے پہلے غرض و غایت بتاۓ۔ آخری دن ہم اسے اٹک ریلوے سٹیشن پر الوداع کرنے گئے  تو راہ میں بار بار خیال آتا کاش اس کی رخصت بڑھ جاۓ۔ دل ہمہ وقت بے چین سا رہا۔ اس کی یونٹ سرحد پر پہنچ چکی تھی۔ دونوں اطراف کشیدگی کے سائے  گہرے اور گھمبیر ہو رہے تھے۔ مشرفی دور تھا۔

سٹیشن پر ہم دونوں چوبی بینچ پر بیٹھے تھے۔ ہم سگریٹ پہ سگریٹ پھونک رہے تھے کہ اس نے ڈبی میں سے سگریٹ نکالی اور لائٹر سے سلگا لی۔ اس سے پہلے ہم نے کبھی اسے سگریٹ پیتے نہیں دیکھا تھا۔ ہم نے حیرت سے دیکھا تو مسکرایا اور بولا : ”چھ سال سے چِھک رہا ہوں۔ داد دیں مجھے۔“

لمحہ  ء وداع قریب آیا تو چٹکی سے قریب الختم سگریٹ کو پٹڑی کی طرف اچھال کر بولا :
”Big ! I have a dream  ”
ہم نے یہ سوچ کر کہ دو ماہ بعد اس کی شادی ہے ، تو ہنس کر غلط قیاس کیا :
”Yes, I know one certain fine day you will get your dream but now you must go ahead (War Front).”
گاڑی چل پڑی اور جدائی  کے موڑ پہ نظروں سے اوجھل ہونے تک ایک ہاتھ مسلسل ہلتا رہا۔
ہم افسردگی لیے واپس واہ کینٹ آ گئے ۔

اگلے دن کی شام کو وہ جانکاہ اطلاع آ گئی جس کے بارے جیدی نے تو پیشگی سوچ رکھا تھا مگر ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ پیغام کا مفہوم تھا کہ : ”وہ جو آپ کو جان سے پیارا تھا ، آج دن دو بجے (بعد از نماز جمعہ) وطن کی حرمت پر قربان ہو گیا ہے۔“

کچھ ثانیے کے لیے تو ہم سُن ہو کر رہ گئے  کہ شاید کسی بدخواہ کی شرارت ہو۔ سنگین مذاق ہو۔ تاہم دوسری طرف سے کرنل راجہ اورنگزیب تھے جو مزید اپڈیٹ دینے کے بعد ہم سے یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ شہید کے جسدِ خاکی کو ہمارے آبائی  گاؤں پہنچایا جاۓ یا کراچی۔ ہم نے بمشکل خود کو سنبھالا ، حواس مجتمع کیے اور پوچھا : ”کیا شہید کے والدین سے بھی رابطہ ہوا؟“

کرنل راجہ نے جواب دیا کہ ابھی تک تو انھیں نہیں بتایا گیا کیونکہ ایسی خبر والدین کو سب سے پہلے بہت غور و فکر اور شہید کے کسی اور قریبی عزیز سے مشاورت کیے بغیر نہیں دی جاتی۔ اکثر ڈیمائز آفٹر ڈیمائز ہو جاتا ہے۔

شہید بے شک زندہ ہوتا ہے اور اسے مردہ نہیں کہنا چاہیے ۔۔۔ لیکن اللہ کی مصلحت اور منشاء  کو تسلیم کرنے میں عزیز رشتوں کو کافی دیر ہو جاتی ہے۔ پہلے کہرام مچتا ہے پھر ماں باپ ، بہن بھائیوں میں سے کوئی  غش کھا کر بے ہوش ہو جاتا ہے۔ جنھیں صدمہ بہت شدت کا لگے تو وہ تاب نہ لاتے ہوئے  مر بھی جاتے ہیں۔ کرنل صاحب نے ہم سے صورتحال کی نزاکت جاننے کی غرض سے اگلا سوال پوچھا : ”صبر و برداشت کے لحاظ سے آپ کے والد کا مقام کیا ہے؟“

ہم نے کہا : ”وہ اپنے والدین کو دفنا چکے ہیں ، دو بھائیوں کو بھی ۔۔۔ بیٹے کی شہادت کا صدمہ بھی یقیناً سہہ لیں گے کہ خود پینسٹھ اور اکہتر کے غازی ہیں۔ جنگ اور امن کا فلسفہ ہم نے ان ہی سے سیکھا ہے۔ وہ شہادت کی الہیاتی اور عسکری دونوں نوعیت کی باریکیوں سے خوب واقف ہیں۔ آپ بلاجھجھک انھیں مطلع کر دیں۔ شہید کی باڈی کراچی ہی جاۓ گی۔“

اتفاق سے ہمیں رات آٹھ بجے کی فلائٹ مل گئی
جب گھر پہنچے تو دیکھا گویا غم بانٹنے کو سارا شہر امڈ آیا ہو

ابّا نے ہمیں سینے سے لگایا ، سر پہ دستِ شفقت سہلایا اور قدرے الگ لے جا  لکر رازدارانہ سرگوشی کی : ”یار اگر تم نہ آتے تو میں اس خبر کو جھوٹ ہی سمجھتا ، اب یقین آ گیا کہ جیدی بہت آگے نکل گیا ہے، رونا مت، کوئی  بھی نہ روئے ، ماتم کے حق دار مرنے والے ہوتے ہیں ، زندہ نہیں۔“
ماں جی کا سامنا ہم نہ کر سکے۔

رات دو بجے جیدی کا تابوت لاہور سے کراچی ، گھر کے باہر پہنچ آیا۔ سرخ گلاب کی پتیوں اور موتیے کی کلیوں کے انبار میں اوجھل جس کا اہتمام اس کی رجمنٹ نے کیا تھا۔ درجنوں گلدستے اور بیسیوں رنگین تہنیتی کارڈز بھی ۔۔
Love you Jed !
Dear J ! So much proud.
Salute, rest in peace.
O ‘ Dear! be in our hearts.

بِھیڑ بہت زیادہ تھی لہذا تابوت کو ایک بڑی میز پر گھر سے باہر گلی میں ہی رکھا گیا۔ تابوت کے ویژن گلاس میں سے ہم نے دیکھا ، آنسو کا ایک قطرہ ہنوز اس کی داہنی آنکھ کے داہنے گوشے پہ اٹکا ہوا ہے جیسے ابھی رخسار پہ لڑھک جاۓ گا۔ مطمئن ، آسودہ خاطر ، ہونٹوں پر اس کی مخصوص خفیف سی مسکان جو کسی نئے منصوبے کے اختتام سے قبل سج جاتی تھی ، تازہ شیو ، مانگ جمی ہوئی اور غیر منتشر۔ کیپٹن عثمان ہمیں بازو سے تھام کر ایک طرف لے گئے  اور جیدی کی چند ذاتی اشیاء  ہمارے سپرد کیں کہ شہید کا باقی اسباب تو بعد میں پہنچے گا ، یہ امانت ابھی وصول کیجیے۔ اس امانت میں ایک چَرمی بٹوہ ، پارکر کا پین ، ایک نفیس سی وُوڈن کنگھی ، یولو کی کلائی والی گھڑی، چاندی کی زمردیں نگینہ جڑی انگشتری ، پاکٹ سائز سورة یاسین اور درود شریف کا مجموعہ، ایک دستی رومال اس کی پسندیدہ ہیوک سے مہکتا ہوا۔ ہم نے بٹوہ کھولا تو اماں ابا کی پاسپورٹ سائز فوٹو ، ایک ہزار ایک سو ایک کے تین نوٹ جو سفید کاغذ میں رول کیے ہوۓ اور کاغذ پہ لکھا تھا ”صدقہ کے لیے“ اور ایک چھوٹی سی چِٹ پر احمد فراز کا یہ شعر :
ہم کج ادا چراغ کہ جب بھی ہوا چلی
طاقوں کو چھوڑ کر سرِ دیوار آ گئے

تابوت پر موتیے کی کلیوں اور گلاب کی پتیوں کا انبار اس فرمان برداری کا اجر تھا جو وہ ماں جی کے حکم کے تحت ہر گل فروش سے یہ سوچ کر خریدتا رہا کہ خوشبو کی عمر لمحاتی ہوتی ہے اور باسی پھولوں کا کوئی خریدار نہیں ہوتا۔
آنکھ کے گوشے میں ٹھہرے ہوۓ قطرہ ء اشک کی رمز کافی تجریدی ثابت ہوئی ۔ یہ معما ہم سے کبھی حل نہ ہو سکا۔ ممکن ہے شہید اور مشہود کا باہمی معاملہ ہو۔ جہاں تک کج ادائی  کا تعلق ہے تو وہ ایسا ہی تھا۔ جہاں ایثار کی ضرورت پیش آتی ، وہ سب سے آگے ہو جاتا کہ میں ہوں نا۔ سچ تو یہ ہے کہ طاق کو چھوڑ کر سرِ دیوار آنے کے لیے بہت بڑا دل اور حوصلہ درکار ہوتا ہے۔ شہادت کا معیار اور شرط بھی یہی ہے۔ سارے رشتوں کا بھرا میلہ ، ارمانوں ، خوابوں اور ماحاصلِ زیست کو ایک طرف دھر کر اپنی جان کی قیمت پر حق کو لبیک کہنا ہی تو شہادت ہے۔

میجر توصیف غوری نے ہمیں کہا : ”شہید کے والد سے تو ملاقات ہو چکی ، اگر ممکن ہو تو شہید کی والدہ سے ملاقات کرا دیجیے۔ انھیں جاوید کی شہادت کی مبارک باد دینی ہے۔“

ماں جی نے ان کی پیشانی چُومی ، پُرسہ قبول کیا اور دعائیں دیں مگر میجر غوری نے جب ان سے درخواست کی کہ ”اماں جی ! آئیں جاوید کا آخری دیدار کر لیجیے۔“ تو اپنی جگہ سے انھوں نے جنبش تک نہیں کی ، بولیں : ”بیٹا ! میں نے جس طرح اسے ہنستا مسکراتا رخصت کیا تھا ، اسی صورت کو میں تا دمِ مرگ یاد رکھنا چاہوں گی۔“

میجر غوری نے ہاتھ کی پشت سے اپنی نم آنکھیں پونچھیں اور سلام کر کے پلٹ گئے۔

اذان فجر سے قبل جب چراغ کو زیر زمیں رکھا جانے لگا تو ہم نے دیکھا ، داہنی آنکھ کے گوشے میں اٹکا ہوا آنسو اس کے رخسار پہ ڈھلک گیا ۔۔۔ ہو سکتا ہے اس آنسو کو ماں جی کا ہی انتظار رہا ہو۔

ہم گھر آۓ تو دور و قریب کے عزیزوں سے گھر بھرا ہوا تھا لیکن ابا جان کہیں دکھائی  نہ دیے۔ بہت تلاشا اور پھر دفعتاً خیال آیا کہ شاید قبرستان میں ہی ہوں۔جیدی کی قبر پر ہی تھے۔ یکطرفہ گفتگو جاری تھی۔ ہم کافی فاصلہ پہ رک گئے  اور انتظار کرنے لگے۔ باپ بیٹے کے معاملے میں دخل اندازی مناسب نہ تھی۔

جب سپیدہء  سحر نے ہر طرف پھیلاؤ  کر لیا تو ناچار ہم آگے بڑھے اور ان کے شانے پر نرمی سے ہاتھ رکھ کر عرض کیا : ”ابا جی ! صبر کیجیے ۔۔ “

ابا جی نے نظر پھیر کر ہمیں دیکھا اور بڑی مختلف سی مسکراہٹ مسکراۓ۔ اس سے قبل تین بار ایسا ہوا کہ جب بھی وہ مسکراۓ تو ہمیں ہماری کسی حماقت کے ردعمل میں ایک تھپڑ ضرور رسید کیا۔ اس بار بھی انھیں مسکراتا دیکھ کر ہم تھپڑ کھانے کے لیے تیار ہوۓ مگر نہیں ۔۔۔ ابا جان نے ہمیں یک دم سینے سے لگایا اور رونے لگے۔

جیدی کی شہادت کے بعد ماں جی بہت غمگین رہنے لگی تھیں۔ ہر وقت روتی رہتی تھیں۔ ہمارے پاس کوئی ایسا لفظ نہ تھا جو تسلی و تشفی کا باعث ثابت ہو سکے۔ ہم ان سے آنکھ نہ ملا سکتے تھے۔ غالباً نواں یا دسواں دن تھا۔ رات کو ہم صحن میں لیٹے تھے اور تیزی سے گزرتی بادلوں کی ٹکڑیوں کو دیکھنے میں مگن ‛ خبر ہی نہ ہوئی کیسے آنکھ لگ گئی۔ خون میں لت پت شہید سامنے آ کھڑا ہوا۔
“بھائی ! ماں جی کو سمجھاؤ نا، وہ روتی ہیں تو   مجھے تکلیف ہوتی ہے۔”
‘یار چھوٹے ! تم خود ہی سمجھاؤ۔ ہماری تو ایک نہیں مانتیں۔” ہم نے ہتھیار ڈال دیے۔

“میں اس حالت میں ان کے سامنے کیسے جاؤں۔ مزید پریشان ہوں گی وہ۔ دیکھتے نہیں آپ  سینہ کھوکھلا ہے میرا۔”

ہم نے بغور دیکھا ، تازہ گرم لہو ہنوز سینے کے خلا سے بہہ رہا ہے جیسے ہنگامِ جنگ بہتا رہا ہو گا۔

“چھوٹے ! تجھے تکلیف نہیں ہوتی کیا؟” ہم نے تعجب سے پوچھا۔
“نہیں۔۔ بالکل بھی نہیں۔ جس طرح کانٹا چبھنے سے جو معمولی سے درد کا احساس ہوتا ہے ، وہی ہوئی  تھی بس۔۔ شہید کو اپنوں کے آنسوؤں کے علاوہ کوئی  زخم درد نہیں دیتا۔”
آنکھ کُھل گئی۔ آس پاس کوئی بھی نہ تھا۔
صبح ماں جی سے نظریں ملائے بغیر کہا : “آپ چاہتی ہیں کہ وہ خوش رہے ؟”
“ہاں ۔۔”
“تو پھر آپ رویا نہ کریں‛ اسے تکلیف ہوتی ہے۔”
“تمھیں کیسے پتہ چلا؟”
“رات کو  سپنے میں آیا تھا۔ آپ کی شکایت لگانے، آپ روتی جو رہتی ہیں ہر وقت۔”
ماں جی ذرا نادم سی ہو گئیں۔

پھر ایک عجیب سی مسکان ان کی آنکھوں میں تیر گئی : “اس پگلے کو کہتے نا کہ  اب ماں روئے بھی نہ ؟”

Advertisements
julia rana solicitors

یہ سن کر ہم بمشکل خود پر ضبط کیے ان کے سامنے سے ہٹ گئے۔
آج بائیس برس بیت گئے  ، ماں جی روتی تو ہیں مگر اپنے جیدی شہید کو یاد کر کے نہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply