• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تحریک آزادئ کشمیر کی کیمسٹری- آزاد کشمیر کا نظام/سیّد سلیم گردیزی

تحریک آزادئ کشمیر کی کیمسٹری- آزاد کشمیر کا نظام/سیّد سلیم گردیزی

ہر تحریک کی ایک کیمسٹری ہوتی ہے جس سے اس کا فکری، نظریاتی، جذباتی اور نفسیاتی تانا بانا وجود میں آتا ہے، اس کی جڑیں اس کی طویل تاریخ میں پیوست ہوتی ہیں۔ تحریک کو اس کی کیمسٹری سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ تحریک آزادی کشمیر کی کیمسٹری بھی لگ بھگ دو سو سالہ تاریخ میں پیوست ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں جموں و کشمیر کی سیاست اور نظام برصغیر پاک و ہند کی سیاست اور نظام کا ریپلیکا، منی ایچر یا سب سیٹ (sub۔set) رہا ہے اور یہ حیثیت کسی حد تک اب بھی برقرار ہے۔

1846 میں بدنام زمانہ بیعنامہ امرتسر کے ذریعے جو نسل پرست ڈوگرہ ریاست قائم ہوئی اسے سیاسیات کی زبان میں دوہری استعماری (double colonialism)کا نام دیا جاتا ہے۔ برصغیر کے باشندے تو براہ راست تاج برطانیہ کی غلامی میں تھے لیکن جموں و کشمیر کے بدقسمت باسی ڈوگرہ نسل پرست خاندانی آمریت کے شکنجوں میں بھی جکڑے ہوئے تھے اور اس پر مستزاد برطانوی ہند کے بھی غلام تھے، یعنی غلاموں کے غلام۔

برصغیر میں برطانوی استعمار کے خلاف آزادی کی جو تحریک چلی وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دو سیاسی دھاروں میں متشکل ہوئی۔ ہندوستانی قوم پرستی(نیشنلزم) اور سیکولرازم کے لبادے میں ہندو مفادات کو پروان چڑھانے کے لیے مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو کی قیادت میں انڈین نیشنل گانگریس میدان عمل میں آئی تو اسلامی تصور قومیت دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلم مفادات کے لیے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ بروئے کار آئی۔ ریاست جموں و کشمیر میں بھی یہی دونوں دھارے انہی نظریات کے ساتھ چوہدری غلام عباس کی قیادت میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس اورشیخ عبداللہ کی سرکردگی میں نیشنل کانفرنس کی صورت میں متشکل ہوئے۔ ایک طرف دوقومی نظریے کی علمبردار مسلم کانفرنس اور دوسری طرف قوم پرستی (نیشنلزم) کی علمبردار نیشنل کانفرنس۔

1945ء میں برصغیر کی آزادی کی تحریک ان دونوں مرکزی دھاروں کے نظریات کے مطابق پاکستان اور بھارت کی صورت میں دو آزاد ریاستوں پر منتج ہوئی تو بدقسمتی سے جموں و کشمیر کا مسئلہ اس اصول کے مطابق حل نہ ہو سکا جس کے تحت برصغیر تقسیم ہوا تھا یعنی دو قومی نظریہ۔ بھارت نے تقسیم بر صغیر کے مسلمہ اصولوں کے برعکس مسلم اکثریت کی حامل ریاست پر بزور قبضہ کی کاروائی شروع کی تو پیر پنجال اور گلگت بلتستان کے عوام نے اپنی آزادی کی جنگ لڑی اور بھارت کی متحدہ افواج کو شکست دے کر آزادکشمیر اور جی بی کے خطے آزاد کروا لیے۔ جبکہ ریاست کے بڑے حصے پر قوم پرستوں کے دو دھاروں کے پیشواوں (مہاراجہ ہری سنگھ+شیخ محمد عبداللہ) کی ملی بھگت سے بھارت کا قبضہ ہو گیا۔

بر صغیر پاکستان اور بھارت کی صورت میں متشکل ہوا تو جموں و کشمیر بھی آزاد اور مقبوضہ کشمیر میں منقسم ہوا۔ مسئلہ کشمیر گزشتہ سات دائیوں سے اقوام متحدہ کی بوسیدہ فائلوں میں سلگ رہا ہے جو کہ ایگ کہانی ہے۔

سال 1947 کے بعد دونوں ممالک نے اپنے اپنے زیرانتظام کشمیر میں ابتدائی طور پر یکساں داخلی طور پر خودمختار سیٹ اپ تشکیل دیا جس کے تحت دونوں طرد صدر ریاست اور دیگر ادارے تشکیل دیے گئے لیکن بعد میں 1953 میں بھارت بے اپنےسائیڈ کے کشمیر کو بھارت میں integrate کرتے ہوئے دفعہ 370 کے تحت کچھ آئینی ضمانتیں دے کر جموں و کشمیر کو بھارتی آئین میں صوبائی حیثیت دے دی گئی۔ بعد میں 5 اگست 2019 کو بھارت نے آئینی تحفظ کا یہ نظام بھی دریا برد کر کے جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت بھی ختم کر دیا اور اسے dissolve کر کے دو یونین ٹریٹریز بنا دیا۔
جہاں تک آزادکشمیر کے نظام کا تعلق ہے، آزادکشمیر کا نظام پاکستانی نظام کا اسی طرح ریپلہکا، منی ایچر یا سب سیٹ (sub۔set) ہے جس طرح جموں و کشمیر کی سیاست برصغیر کی سیاست کا سب سیٹ رہی ہے۔ یپ الگ بات کہ بھارت نے جموں و کشمیر کو مکمل طور پر dissolve کر کے انڈین یونین میں شامل کر لیا ہے جبکہ پاکستان نے آزادکشمیر کا تشخص گزشتہ  78 سالوں سے مسلسل برقرار رکھا ہوا ہے۔
اس انتظام کے تحت
آزادکشمیر کا سیاسی نظام پاکستان کے سیاسی نظام کا ریپلیکا ہے
آزادکشمیر کا عدالتی نظام پاکستان کے عدالتی نظام کا ریپلیکا ہے
آزادکشمیر کا آئین پاکستان کے آئین کا ریپلیکا ہے
آزادکشمیر کا ترانہ پاکستان کے ترانے کا ریپلیکا ہے، بلکہ انہی حفیظ جالندھری کا لکھا ہوا ہے جنہوں نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھا تھا
آزادکشمیر کا پرچم پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کا ریپلیکا ہے اور انہی ماہرین کا ڈیزائن کردہ ہے جنہوں نے پاکستان کا پرچم ڈیزائن کیا تھا۔
آزادکشمیر کا سارا نظام پاکستان کے نظام کا سب سیٹ ہے اور ریاست کی حدود میں پاکستان کی نمائندگی کرتا ہے
بعض کم ظرف آزادکشمیر کے پرچم اور ترانے کو پاکستانی پرچم اور قومی ترانے کے متبادل کے طور پر ظاہر کر رہے ہیں، ایسے عناصر تحریک آزادی کشمیر کی کیمسٹری اور آزادکشمیر کی ریاستی علامتوں کے پس منظر، روح اور نظریاتی جہت سے واقف نہیں ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ آزادکشمیر کا پرچم لہرانے کا مطلب پاکستان کا پرچم لہرانا ہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے آزادی پسند تو ریاستی پرچم کا تکلف بھی نہیں کرتے، وہ تو براہ راست پاکستان کا پرچم لہراتے اور اسی میں لپیٹ کر اپنے شہداء کو آسودہ خاک کرتے ہیں۔
بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply