عمران خان کی نیب کیس میں پیشی/نصیر اللہ خان ایڈووکیٹ

سپریم کورٹ پاکستان کی سب سے بڑا عدلیہ ہے جو شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتی ہے۔ انصاف میں پسند اور ناپسند کی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ ججز قانون کی مطابق فیصلہ کرتے ہے۔

حکومت کے منظور کردہ نیب قانون کے ترمیم کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چلینج کیا گیا ہے۔ چونکہ نیب کے کیس کا مفاد عامہ کے ساتھ تعلق ہے اور مقدمے میں حکمرانوں کو 150 ارب روپے کے کیسز نیب ایکٹ قانون میں ترامیم کر کے معاف کیے گئے ہیں۔ اسلئے پاکستانی قوم دیکھنا چاہتی ہے کہ عدلیہ کے سب سے بڑے ستون اور نظام انصاف کا توازن کہی ڈگمگا نہ جائیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ میں قانون و آئین اور اعلی انسانی ضمیر کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں اور اس میں کوئی میڈیائی دباؤ، لابی اور سیاست کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی،
ججز کے تبدیل شدہ رویوں کو راہ راست پر لانے کیلئے ایک درخواست جو کہ نیب کیس کو لائیو دکھانے کے لیے ایڈوکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے دی تھی، کو بعد از تکرار اور صلاح مشاورت ایک گھنٹے کے اندر اندر فیصلہ کر کے خارج کیا گیا۔ کیا یہی عدالتی ضمیر ہے!! دوسرے مقدمات کو دکھائیں اور اسکو نہ دکھائیں یہ کہاں کا قانون اور انصاف ہے۔ اور کتنا ازاد، صاف اور شفاف عدلیہ ہے۔
یاد رہے کہ پارلیمنٹ نے متذکرہ نیب ایکٹ کے ترمیم منظور کرکے کچھ اعلیٰ شخصیات کو طاقت کی راہداریوں میں سے نکال کر بری کر دیا ہے اور ان کو مبینہ طور پر بعد ازاں ایک فراڈ اور چوری شدہ الیکشن کے ذریعے جتوا کر حکومت بھی دی ہیں اور جس سے پتہ چلتا ہے کہ عدلیہ پر خفیہ طاقتوں کا کتنا اثر و رسوخ ہے۔

اس ملک کے عوام کا ریاست کیساتھ سب سے بڑا معاہدہ، آئین پاکستان ہے جس میں تمام صوبوں، اداروں کے دائرہ کار اور ذمہ داریوں وغیرہ کا تعین کیا گیا ہے، خصوصاً اختیارات کی تفویض اور آزاد عدلیہ آئین و ریاست کا منشاء ہے۔ جس عمرانی معاہدہ میں پارلیمنٹ سپریم ہے، کسی ممبر پارلیمنٹ کو ایکٹ پاس کرنے کی وجہ سے عدالتوں میں نہیں گھسیٹا جا سکتا بلکہ اگر کوئی ایکٹ آئین کے داخلی شقوں، بنیادی حقوق، قرآن و احادیث کی فرمودات کے برعکس پایا گیا، تو اس ایکٹ کو غیر قانونی و غیر ائینی قرار دیا جاتا ہے۔ جو کہ سپریم کورٹ کا امتیازی استحقاق ہے۔
نیب کیس میں کمرہ عدالت میں عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے موجودگی، سپریم کورٹ بلڈنگ کی سخت سیکورٹی، ایڈوکیٹ جنرل خیبر پختونخوا کی چیف جسٹس سے بحث اور ججز صاحبان کی ایک دوسرے سے مشاورت اور تلخی کچھ اور منظر پیش کر رہا تھا لیکن اب واضح ہونے لگا ہے کہ ماتحت عدلیہ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ پر مبینہ دباؤ ڈال کر کس طرح دباؤ اور دھاندلی کے ذریعے فیصلے لیے جاتے ہیں۔
بد قسمتی ہے کہ مملکت پاکستان میں ایک ایسا نظام چل رہا ہے کہ کچھ افراد کو چھوٹ دینے کے لیے لامحدود اختیارات دیئے جاتے ہیں اور کسی ایک خاص سیاسی تنظیم اور گروہ کو پابند کرنے کے لیے ایکٹ میں ترامیم منظور کئے جاتے ہیں اور اس کے برعکس شہریوں کے حقوق، سیاسی آزادیاں اور عوامی امنگوں کے مطابق قوانین اکثر و بیشتر نہیں بنائے جاتے۔ ایک فرد واحد صدر پاکستان کی طرف سے طے شدہ منصوبے کے تحت آرڈیننس جاری کروا کر عوام کے آزادیوں پر قد غن لگا دئیے جاتے ہیں اور خاص افراد کو ٹارگٹ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ جو کہ میرا خیال ہے کہ ہرگز مملکت پاکستان اور عوام کے حق میں نہیں۔ پاکستان میں قوانین عوام کے تحفظ اور امنگوں کے مطابق نہیں بنائے جاتے بلکہ ایک خاص گروہ کو فائدہ دینے، دوسرے کو گرفت میں لانے اور ان کو پابند کرنے کے لیے ایکٹ بنائے جاتے ہیں۔

ریاست کے آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق جن میں سر فہرست، فئر ٹرائل، دوہری سزاوں سے نجات، آزادانہ نقل و حرکت، آزادانہ تجارت اور تقریر و تحریر وغیرہ کی آزادی دی گئی ہیں، وہ کسی طرح بھی اس ملک میں بوجوہ غریب عوام کو حاصل نہیں ہو پاتی ہے۔ بلکہ جو بھی شخص ان آزادیوں کو اپنے حق کیلئے استعمال میں لاتا ہے، ان کو یا تو غدار قرار دیا جاتا ہے اور یا ان کو نامعلوم افراد کے ذریعے غائب کروا کر لاپتہ کر دیا جاتا ہے۔ غلیظ میڈیائی پروپیگنڈا اور دوسری صورت میں ان پر ایف آئی آر اور کئی قسم کے سنگین جرائم کے تحت پرچے کروائے جاتے ہیں جو کہ آئین و قانون کے ساتھ ایک کھلا مذاق ہے۔

دوسری طرف، اگر ملک کا وزیراعظم ججز کی بے حرمتی کر کے ان کو کالی بھیڑیوں سے تشبیہ دے تو کسی جج کی مجال ہے کہ ان پر توہین عدالت کی کارروائی کی جائیں۔ اس لیے آج عوام محفوظ ہے اور نہ ہی قانون کی حکمرانی ہے اور نہ ہی عدلیہ کی آزادی ہی محسوس ہوتی ہے۔

ایسا وقت آیا ہے کہ میڈیا پر عمران خان کا چہرہ تک دیکھنے پر پابندی ہے، سپریم کورٹ میں پولیس اور رینجرز کو چوکنا کیا جاتا ہے، تاکہ اس کی فوٹیج باہر نہ آنے دی جائے۔ خفیہ ادارے حرکت میں لائے جاتے ہیں۔ یہ وہی شخص ہے جو کہ ان گنت مقدمات میں اڈیالہ جیل میں قیدی نمبر 804 کی صورت میں بیٹھا ہوا ہے اور قیدی تنہائی کی قید کاٹ رہا ہے اور جس کے خلاف جو مبینہ مقدمات بنے ہیں، وہ سارے کے سارے سیاسی عناد پر بنائے گئے۔ اس کے دیکھنے اور چاہنے والوں کے تبصروں کو روکنے کی خاطر کبھی پیمرا کے ذریعے پابندی لگائی جاتی ہے اور کبھی آرڈیننس لا کر عوامی رائے اور تحریر و تقریر کو نشر ہونے سے روک دیا جاتا ہے۔ ایسی ہر قسم کی گفتگو کو ہائبرڈ اور غیر ملکی سازش کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں جو کہ آزاد نشر و اشاعت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔

یاد رہے عمران خان وہی شخص ہے جو سیاست میں آنے سے پہلے کینسر جیسے موزی مرض کے خلاف عالمی دنیا کی شایان شان کینسر ہسپتال اور نمل جیسی یونیورسٹی بنا کر کار خیر سرانجام دیتا رہا ہے، ملک کے لیے ورلڈ کپ کی صورت میں عزت افزائی کا مقام دلاتا ہے اور جس نے اپنے بچوں کیساتھ زندگی کو چھوڑ کر مملکت پاکستان کی ترقی، اصلاحات اور غریبوں کی زندگی کو سہارا دینے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی ہے، جو کہ آج حکومت پاکستان کے زیر عتاب ہے اور کچھ اعلی افراد کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ درحقیقت یہ انصاف نہیں، یہ پاکستان کے ساتھ کھلم کھلا دشمنی ہے۔ یہ پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے خلاف ایک گھناؤنا سازش ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ حکومت وقت اور ریاستی ادارے جان بوجھ کر عمران خان کو منظر عام سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ عوام کے دلوں میں اپنی جگہ نہ بنا سکے اور ان کی حمایت حاصل نہ کر سکے۔ یہ تمام حربے عوام کی رائے کو دبانے اور ان کے جمہوری حقوق کو سلب کرنے کے لئے کئے جا رہے ہیں۔

عمران خان کے خلاف جو مقدمات بنائے گئے ہیں، ان کا مقصد صرف اور صرف ان کی شخصیت کو بدنام کرنا اور ان کی سیاسی قوت کو کمزور کرنا ہے۔ عدالتوں میں ان کے ساتھ ہونے والا سلوک اور ججز کی طرف سے غیر منصفانہ فیصلے اس بات کا ثبوت ہیں کہ عدلیہ بھی دباؤ میں آ کر فیصلے کر رہی ہے۔

عوام کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اس قسم کی سازشیں ملک کے لئے نقصان دہ ہیں اور ان سے صرف اور صرف عوام کے حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ عوام کو بیدار ہونا ہو گا اور اپنے حقوق کی حفاظت کرنی ہو گی۔

ملک کے تمام اداروں کو آئین اور قانون کے مطابق کام کرنا چاہئے اور کسی بھی قسم کے غیر قانونی اقدامات سے گریز کرنا چاہئے۔ عدلیہ کو آزاد اور غیر جانبدار رہنا چاہئے تاکہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال ہو سکے۔

عوامی نمائندوں کو چاہئے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کریں اور ایسی قانون سازی کریں جو ملک کی ترقی اور خوشحالی میں معاون ثابت ہو۔ کسی بھی سیاسی شخصیت کو بلا جواز نشانہ بنانا اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بنانا جمہوریت کے اصولوں کے منافی ہے۔

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کا دارومدار عوام کی خوشحالی اور حقوق کی پاسداری میں ہے۔ جب تک عوام کو ان کے حقوق نہیں ملیں گے اور ادارے آزادانہ اور منصفانہ طریقے سے کام نہیں کریں گے، تب تک ملک ترقی نہیں کر سکے گا۔

عوام کی بیداری اور شعور ہی وہ طاقت ہے جو کسی بھی غیر جمہوری عمل کے خلاف دیوار بن سکتی ہے۔ عوام کو چاہئے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کریں اور کسی بھی ناانصافی کے خلاف کھڑے ہوں۔ ملک کے مستقبل کا دارومدار عوام کی شمولیت اور ان کی سیاسی بیداری پر ہے۔

اسی سلسلے میں میڈیا کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ میڈیا کو آزاد اور غیر جانبدار رہ کر عوام کو سچائی سے آگاہ کرنا چاہئے۔ میڈیا کو دباؤ میں آ کر یا کسی کے زیر اثر آ کر خبریں نشر نہیں کرنی چاہئیں۔ ایک آزاد میڈیا ہی عوام کو صحیح معلومات فراہم کر سکتا ہے اور ان کے حقوق کی حفاظت کر سکتا ہے۔

ملک کی سیاسی جماعتوں کو بھی چاہئے کہ وہ آپس میں اختلافات کو بھلا کر ملکی مفاد کو ترجیح دیں اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے مل کر کام کریں۔ سیاسی جماعتوں کا مقصد عوام کی خدمت ہونا چاہئے نہ کہ صرف اقتدار کی جنگ۔

آخر میں، تمام اداروں کو چاہئے کہ وہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کام کریں۔ عدلیہ کو آزادانہ اور غیر جانبدارانہ فیصلے کرنے چاہئیں تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی اپنے فرائض ایمانداری اور دیانتداری سے انجام دینے چاہئیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مملکت پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ تمام ادارے مل کر کام کریں اور عوام کی فلاح و بہبود کو ترجیح دیں۔ جب تک عوام کے حقوق کی حفاظت نہیں کی جائے گی اور عدلیہ آزادانہ فیصلے نہیں کرے گی، تب تک ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکے گا۔ عوام کو اپنے حقوق کے لئے کھڑا ہونا ہو گا اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کرنی ہو گی۔

Facebook Comments

نصیر اللہ خان
وکالت کے شعبے سے منسلک ہوکرقانون کی پریکٹس کرتا ہوں۔ قانونی،سماجی اور معاشرتی مضامین پر اخباروں اور ویب سائٹس پر لکھنا پڑھنامیرا مشغلہ ہے ۔ شعوراورآگاہی کا پرچار اپنا عین فریضہ سمجھتا ہوں۔ پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا ہےاس لئے پولیٹکل موضوعات اورمروجہ سیاست پر تعمیری ،تنقیدی جائزے لکھ کرسیاست دانوں ، حکام اعلی اور قارئین کرام کیساتھ اپنا نقطۂ نظر،فہم اور فکر شریک کرتا ہو۔ قانون،تاریخ، سائنس اور جنرل نالج کی کتابوں سے دلی طور پر لگاؤ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply