• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • میری بیوی کچھ نہیں کرتی(شادی اور عورت کے مالیاتی حقوق)-مہ ناز رحمٰن

میری بیوی کچھ نہیں کرتی(شادی اور عورت کے مالیاتی حقوق)-مہ ناز رحمٰن

ایک مشہور مصنف نے کہا تھا کہ انسان جو کچھ بی سوچتا ہے ،وہ کبھی نہ کبھی عملی شکل میں ضرور ظہور پذیر ہوتا ہے۔ یہ بات مجھے ملیحہ ضیا لاری اور حیا ناصر اسلم کی خواتین ایکٹوسٹس کے ساتھ مل کے شادی کے بعد عورتوں کےمالیاتی حقوق کے بارےمیں قانون بنوانے کی کوششوں کو دیکھ کر یاد آئی۔ ۔ایک خاتون ایکٹوسٹ ہونے کے ناطے میں سالوں سے یہ سوچتی چلی آئی تھی کہ ایک شادی شدہ عورت اقتصادی حوالے سے کس قدر عدم تحفظ کا شکار رہتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں بہت کم عورتیں اقتصادی طور پر خود مختار ہیں اور جو ہیں وہ بھی سماجی طور پر مردوں کے زیر نگیں ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں لڑکیوں کو شروع سے یہ بتایا جاتا ہو کہ شوہر مجازی خدا ہے اور ماں باپ کے گھر سے لڑکی کی ڈولی نکلتی ہے اور سسرال سے جنازہ کی شکل میں ہی نکلا جاتا ہے تو پھر شادی کے رشتے میں کیسی برابری اور کیسی خود مختاری۔خیر یہ تو میں اپنی نانیوں دادیوں کے زمانے کی بات کر رہی ہوں جب سے عورت مارچ تک عورتوں نے اپنے حقوق کے حصول کے لئے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔عورتوں کے حقوق کے حوالے سے ترقی پسند قوانین بنوانا اس سفر کا اہم سنگ میل ہے۔
یہ اور بات ہے کہ قوانین تو بن جاتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہو پاتا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، پدرسری سماج میں مرد اپنی بالا دستی قائم رکھنے کے لئے قوانین سے بچ نکلنے کے ہزاروں حیلے بہانے ڈھونڈ لیتے ہیں، اور مذہب اور سماجی روایات اور ضابطوں کو اپنے فائدے اور عورتوں کو دبانے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ اس وقت ہمارا موضوع شادی کے بعد عورتوں کے مالیاتی حقوق ہے تو سب سے پہلے تو شادی کے ادارے کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں۔عوامی مورخ ڈاکٹر مبارک احمد نے شادی کے بارے میں بتایا ہے کہ ” عورتوں کے حوالے سے تاریخ میں بہت سے نظریات پائے جاتے ہے جن کا مقصد اور منبع ہمیشہ سے عورت کو مرد کے تابع کردینا ہے اس حوالے سے ہندو مت ، اسلام ، اور عیسایت میں پائے جانے ولے نظریات عورتوں کودانستہ پیچھے رکھنے میں پیش پیش رہے ہیں اس حوالے سے انکا اتحاد ہے کہ جیسے عورت کو فساد کی جڑ کہا جاتا ہےاور یہ کہ گناہوں کی طرف لے جاتی ہے مرد کو وغیرہ وغیرہ، ان باتوں پر تقریبا تمام مذہیب کے علما متفق ہیں، اسکی ایک مثال ملا حظہ کیجیے .

Advertisements
julia rana solicitors london

غزالی لکھتے ہیں کہ :
” نکاح کا مطلب لونڈی ہوجانا ہے لہذا بیوی شوہر کی لونڈی ہے اور اس لیے اس پر مطلق فرمانبرداری واجب ہے – : صفحہ : ٦٣ تاریخ اور عورت .، مصنف: ڈاکٹر مبارک علی۔ خیر یہ تو تاریخ کا معاملہ ہے اور ہمارا ماننا ہے کہ تاریخ کا پہیہ ہمیشہ آگے کی طرف چلتا ہے، یہ اور بات کہ پاکستان میں بقول فریدہ شہید اور خاور ممتاز ” عورتوں کے حوالے سے ایک قدم آگے بڑھنے اور دو قدم پیچھے” ہٹنے والا معاملہ رہا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں شادی شدہ مردوں سے جب پوچھا جاتا ہے کہ آپ کی بیوی کیاکرتی ہے تو اکثریت کا جواب ہوتا ہے کہ میری بیوی کچھ نہیں کرتی۔ وہ ہاوس وائف ہے۔شاید اسی لئے عورتیں اس اصطلاح سے چڑنے لگی تھیں اور اب ان کے لئے ‘ ہوم میکر’ کی اصطلاح استعمال کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔لیکن بلا معاوضہ کام کا مسئلہ تو اپنی جگہ برقرار ہے ۔ معاوضہ نہ ملنے کی وجہ سے اس کے سارے کاموں کو صفر کر دیا جاتا ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ عورت گھر میں جتنے بھی کام کرتی ہے ،اس کی مردوں کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی،اسے بچے پیدا کرنے کی طرح عورتوں کی حیاتیاتی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔اور علم اقتصادیات کی رو سے کام اس سرگرمی کو کہتے ہیں جس کا معاوضہ ملے، بغیر معاوضہ والے کام کو کام نہیں مانا جاتا اور شادی کے معاملے میں اور سماج میں مجموعی طور پر بھی مرد کو اس لئے اہم اور برتر سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ کما کے لاتا ہے اور گھر والوں کی کفالت کرتا ہے جب کہ عورت گھر کے جتنے بھی کام کرتی ہے ان کو اہمیت نہیں دی جاتی، اسی لئے کچھ عرصہ سے کچھ فیمینسٹ حلقوں کی طرف سے” کئیراکانومی ” کی بات ہو رہی ہے اور بعض حلقے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عورت کو گھر میں کئے جانے والے بلا معاوضہ کاموں کا معاوضہ دیا جا ئے۔ ظاہر ہے ہماری سماجی روایات کے مطابق اس طرح کا مطالبہ کرنے والی خواتین کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے گا۔ لیکن ذرا عورتوں کے عدم تحفظ کے احساس کے بارے میں بھی تو سوچئیے۔ ایک عورت ساری عمر شوہر کی خدمت کرے اور بڑھاپے میں اس کا شوہر اسے طلاق دے دے تو وہ کہاں جائے گی۔ یا اگر وہ بیوہ ہو جائے اور اس کے سسرال والے اسے گھر سے نکال دیں تو وہ کیا کرے گی؟ اسی لئے خواتین تحریک کی ارکان کا مطالبہ ہے کہ شادی کے بعد بننے والے سارے اثاثے ، جائیداد بینک بیلنس میں شوہر اور بیوی کا برابر کاحصہ ہونا چاہئیے۔طلاق کی صورت میں آدھی رقم اور جائیداد بیوی کو ملنی چاہئیے۔لیگل ایڈ سوسائٹی کی ارکان یہی قانون بنوانے کی کوشش کر رہی ہیں اور انہیں خواتین ایکٹوسٹس کی بھر پور حمایت حاصل ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply