شام بخیر/شہناز احد

تقسیم ہند کے وقت آنے والے نو زائیدہ، ماؤں کی چھاتیوں سے لپٹے،گھٹنیوں چلتے، باپوں کے کاندھوں پر سوار،انگلی پکڑ کے اور بِنا انگلی پکڑے سہج   سہج قدم بڑھانے والوں کی فصل اب نا  صرف پک چکی ہے بلکہ  جھڑنا بھی شروع ہو چکی ہے۔

بیس لاکھ نفوس کے قافلے میں سے لاکھوں گر کے، ٹوٹ کے کبھی نہ اُ ٹھنے اور جڑنے کے لئے مٹی میں مل کے مٹی ہو چکے ہیں۔

77سال پہلے مردوں،عورتوں، بوڑھوں،جوانوں، بچوں کا جو ہجوم بنام “ قافلہ” نئی  سر زمین کی تلاش میں بے گھر ہوا تھا۔ اُن میں سے شاید لاکھ دو لاکھ ہی بچے ہوں گے۔ ان لاکھ دو لاکھ میں سے آج درجن، دو درجن ہی ہوں گے جو لکھنے، بولنے اور سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔

محمود شام ! اس ۲۰ لاکھ کے ہجوم بنام قافلہ کے وہ خوش نصیب ہیں “ جو کھڑے ہیں، بولتے ہیں،سوچتے ہیں،نا  صرف سوچتے ہیں لکھتے بھی ہیں،جب لکھتے ہیں تو درد پروتے ہیں اور احساس زیاں جگاتے ہیں”۔

میں! تقسیم ہند کے بعد ہونے والی خانہ آبادیوں کے نتیجے میں جنم لینے والی نسل سے تعلق رکھتی ہوں۔ یہ بھی کہہ سکتی ہوں کہ تقسیم ہند کی کہانی بازبانی دادا دادی،نانی، خالہ ماموں،چچا تایا، امی  ابّا  سے اتنی بار سنی کہ کبھی کبھی لگتا “ میں بھی اس فوجی ٹرین کی کسی بنچ کے نیچے چھپی بیٹھی ہوں جس میں میری نانی بیمار شوہر، تین جوان لڑکیوں اور دس سال کے بچے کے ساتھ چھپی بیٹھی تھیں”۔

میں نے برسوں  14 اگست کے دن اپنے والدین کو یادوں میں گم اُن آنگنوں کی کہانی کہتے سنا ،جنہیں وہ بھرا پرا چھوڑ آۓ تھے۔ درجنوں رشتہ داروں اور سفر کی صعبتوں کا تذکرہ وہ ایسے کرتے جیسے یہ کل کی بات ہو۔

میں نے یہ تمہید اس لئے باندھی ہے کہ شام جی کی سوانح حیات بنام “ شام بخیر” صرف ان کی کہانی نہیں ہے۔ یہ ۲۰ لاکھ لوگوں کے اُس ہجوم یا قافلے کی کہانی ہے جس نے زمین کے ایک خطے کو دوسرے خطے میں آنے کے لئے چھوڑا تھا۔

ایک ایسی کہانی جس میں چھ سات سال کا بچہ اپنے آنگن سے بچھڑنے کا دکھ لئے نئی  زمین، نئے  آسمان اور نئی  ہواؤں کا احساس بیان کر رہا ہے۔ کتاب کی ان لائنوں سے ہم سب اس دکھ کو محسوس کر سکتے ہیں”مال گاڑی کے اُس ڈبے نے میرے پورے بچپن کو بنا چھت کے ڈبے میں بٹھاۓ رکھا،میری ماں میرے باپ اس وقت کیا سوچ رہے ہوں گے، میں اب ۸۳ سال کے بعد اچھی طرح اندازہ کر سکتا ہوں کہ ان کے اس وقت کیا تاثرات اور خدشات ہوں گے”۔

وہ لکھتے ہیں “ یہ میری زندگی کا پہلا سفر تھا،آج بھی سوچوں تو لگتا ہے بنا چھت کی گاڑی میں بیٹھا ہوں”۔

بنا چھت کی گاڑی میں زندگی کا پہلا سفر طے کرنے کے بعد شام جی کے خاندان نے کئی  شہروں کی خاک چھانی اور بالآ خر جھنگ شہر کو اپنا مسکن بنایا۔

شام جی! کی ابتدائی  تعلیم،نئے  شہر،نئے  گھر،نئی زمین، زمین کی سیاست، دیانت،بھوک افلاس سب اسی شہر سے جڑا ہے۔ جن باتوں کو میں ایک   ایک لفظ میں لکھ رہی ہوں۔ اس کی تفصیل، تفصیل سے جڑے دکھ، سکھ سب اس کتاب کی سطروں میں پیوست ہیں۔

شام جی نے بہت دکھ سے لکھا ہے اور اس دکھ کو صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جو اس بات کی گہرائی  کو سمجھ سکتے ہیں کہ “ جب جوان ہو رہے تھے تو ہر ماہ دو ماہ بعد حکومت ٹوٹ جاتی تھی، نوعمری کی سرحد پر آۓ ہی تھے کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کو قتل کر دیاگیا۔ جس کے قاتل آج تک پتہ نہ چل سکے(یہاں پر جملے کا اضافہ کرتے ہوۓ میں یہ بھی کہوں گی کہ اس سر زمین پر قاتل ہمیشہ گم نام ہی رہتے ہیں اور وجہ قتل منافقتوں اور مصلحتوں کا شکار رہتی ہے)ابھی صحیح سے جوان بھی نہ ہوۓ تھے کہ مارشل لاء نے آگھیرا۔

کتاب میں موضوعات کی تفصیل سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شام جی اپنے بچپن ہی میں بہت بڑے ہوگئے تھے۔

محمد طارق محمود سے محمود شام بننے کی کہانی میں ۱۹۵۳ کی ختم نبوت،جھنگ سے لاہور کی ہجرت، گورنمنٹ کالج کا داخلہ، جیون کا منہ بھرا رکھنے کے لئے چھوٹی چھوٹی ملازمتوں کا دراز سلسلہ ماہنامہ قندیل،نواۓ وقت،اخبار جہاں، الفتح،معیار،جنگ،صحافیوں کی ہڑتال،مشرقی پاکستان، فوجی کارروائی سے پہلے اور بعد،غیر بنگالیوں کا قتل عام ،بھٹو یحییٰ کشیدگی، مشرقی پاکستان میں فوج کی شکست،بھٹو دور کا آغاز،اسلامی سربراہی کانفرنس ،جنرل ضیاء کا مارشل لاء،بے نظیر کی حکومتیں، شریفوں کادور،جنرل مشرف کا آنا اور جانا،آصف زرداری صدر کیسے بنا،بیگم بھٹو کی آرزوئیں،جہادی تنظیمیں اور بہت کچھ کا احوال ہے۔

شام جی کی زندگی کی اس ریل گاڑی کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنی پسند نا پسند کو حتی المکان حد تک واقعات سے جدا رکھنے کی کوشش کی ہے۔
مجھے یہ  لکھنے میں کوئی  عار نہیں ہے کہ یہ کتاب اس سر زمین کے لمحے لمحے کی کی کہانی ہے۔ جسے شام جی کی آنکھ دیکھتی، دل محسوس کرتا اور دماغ سوچتا ہے۔اسے ہم اس زمین کے واقعات حادثات،سچ جھوٹ کی دستاویز بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایک ایسی دستاویز جس کا راوی نہ فوج کا،نہ ہی سرکار کا سابق افسر ہے۔ وہ ایک عام انسان ہے،وہ عوام ہے،اس کا دماغ سوچتا اور دل روتا ہے، بظاہر اس کی آنکھیں صحرا ہیں لیکن زیر خشکی سمندر کا تلاطم ہے۔

اس سر زمین پر شام صاحب جیسے لوگ اب گنتی ہی کے رہ گئے  ہیں۔ جن کے ہوش وحواس کام کر رہے ہیں اور وہ اپنے احساسات کو لفظوں کا جامہ پہنانے یا زبان دینے کے قابل ہیں۔ اصل میں ہم ایک ایسے بدقسمت ہجوم کا حصہ ہیں جہاں تاریخ کے منہ پر ہر صبح کالک ملی جاتی اور ہر شام چہرہ دھویا جاتا ہے۔ ہم نے من حیث القوم اپنی تاریخ کو اتنی بار پامال کیا ہے کہ اس کا جغرافیہ ہی نہیں رہا۔

شام جی کی یہ کتاب ان کی تحریری یادداشتوں پر مبنی ہے اپنی کتاب کے صفحے ۲۸۶ پر واقعات کے تسلسل میں ایک جگہ ۱۹۷۷ کے انتخابات کا تذ کرہ کرتے ہوۓ پیپلزپارٹی کے اہم رہنما حنیف رامے کے حوالے سے لکھا ہے “ ان کا خیال تھا کہ بھٹو اوّل تو آنے والا الیکشن جیت نہیں سکیں گے۔ اگر جیت گئے تو الیکشن تو ایوب خان اور جنرل ڈیگال نے بھی جیتے تھے مگر ان کے ساتھ کیا ہوا۔ سندھ کے شہری علاقے ان سے بہت ناراض ہیں”۔

شام جی نے لکھا ہے کہ” رامے بہت درد سے کہہ رہے تھے۔ ہم نے معراج کو اندھا کردیا۔ مختار رانا کو پیتھیڈین کا عادی بنا دیا۔ کھانے پینے میں زہر ملا کے دیں گے۔ کراۓ پر مکان نہیں لینے دیتے۔ سسر کے مکان میں رہ رہے ہیں۔ پرمٹوں پلاٹوں کے چکر چل رہے ہیں۔ کبھی کسی کو پکڑ رہے ہیں کبھی کسی کو۔ شہنشاہ ایران ناراض تھے تو انھیں انڈیا کے لئے راستہ دے دیا۔ اب ٹرک گزرتے ہیں ان میں دیکھا تک نہیں جاتا کہ کیا سامان جارہا ہے۔ روس بھی خوش ہے اسے افغانستان میں راستہ مل گیا”۔
یہ ایک لمبی تحریر کی کچھ سطور ہیں۔

شام بخیر میں مشرقی پاکستان کے فوجی آپریشن سے لے کر بعد کے حالات کا آنکھوں دیکھا حال بھی ہے۔ میجروں ، کپتانوں کے زیر سایہ سلہٹ، چٹاگانگ کے دورے کے تاثرات اور واقعات بھی ہیں۔

میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ یہ کتاب صرف شام جی کی سوانح نہیں ہے اس میں پاکستان کے حکومتی ایوانوں سے وابستہ کردار،طبقات،سب بول رہے ہیں، چل رہے ہیں۔

کتاب کے بارے میں بات کرتے ہوۓ یہ ممکن نہیں کہ سب حوالے یا واقعات یہاں درج کئے جائیں۔

اس کتاب میں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے سے متعلق کئی  ابواب ہیں۔ ان میں اس وقت کے اخبارات کی تحریریں، تصاویر اور اشتہارات کا سہارا لے کے شام جی نے بہت کچھ سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ڈیوٹی پر موجود فوجی عہد داروں کی سماجی غیر سماجی سر گرمیوں کا تذکرہ بھی ہے۔

کتاب میں لکھا یہ جملہ بہت اعلی ہے اور آج بھی زندہ لگتا ہے”اپنے ہی وطن میں فوج اپنے ہی لوگوں کو دشمن سمجھ کے مار رہی ہو اس سے زیادہ بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے۔ پاکستانی، پاکستانیوں کے ہاتھوں ہلاک ہورہے تھے”۔

Advertisements
julia rana solicitors

کتاب کے آخر میں شام جی لکھتے ہیں”سیاست دانوں، جنرلوں کی راتیں کیسے گزرتی ہیں۔ ان کے قصے لکھتا تو کتاب بہت بکتی لیکن اس حق گوئی  سے قوم کی کوئی  خدمت نہ ہوتی۔ نہ ہی ملک کو آگے بڑھنے میں مدد ملتی۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس ملک کے رہبروں اور محافظوں کی راتیں بہت رنگین ہوتی ہیں۔ بہت سے پردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہیں۔ “ انھوں نے یہ کہانیاں یہ کہہ کے ادھوری چھوڑ دی ہیں کہ یہ معاملہ پروردگار اور گنہ گاروں کے درمیان رہے کہ وہ سب کچھ جانتا ہے وہ ہی فیصلہ کرے گا۔
آٹھ سو ساٹھ صفحات کی یہ کتاب جس ،جس کو توفیق ہو ضرور پڑھیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply