جنسیت زدہ ٹرول سیاست/عامر حسینی

برصغیر کی جدید سیاسی تاریخ جس کا آغاز اگر ہم نوآبادیاتی ہندوستان میں جدید قوم پرست سیاست کے آغاز سے کریں تو اس میں سیاسی مخالفین کی سیاسی لائن اور موقف کا رد دلائل و استدلال سے رد کرنے کی بجائے اس کی منظم ذاتی کردار کشی کی باقاعدہ مہم کا سراغ لگائیں تو یہ سلسلہ ہمیں 1937ء کے انتخابات کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا نیشنل کانگریس کے درمیان شروع ہونے والی محاذ آرائی کے وقت سے شروع ہوتا نظر آتا ہے جب کانگریس نے یو پی اور سی پی میں آل انڈیا مسلم لیگ کو نہ صرف شریک اقتدار بنانے سے انکار کیا بلکہ اس نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اس دعوے کو بھی ماننے سے انکار کردیا کہ وہ برطانوی ہندوستان میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ سیاسی جماعت ہے ۔

اس زمانے میں ایک طرف تو کانگریس کی اتحادی دو بڑی مسلم مذہبی سیاسی جماعتوں جمعیت علمائے ہند ( اس کی سربراہی مولانا حسین احمد مدنی کر رہے تھے) اور مجلس احرار الاسلام ہند نے آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کی ذاتی کردار کشی کی ایک منظم مہم چلائی ۔ ان کی کردار کشی کی اس مہم کا سب سے زیادہ نشانہ مسٹر جناح ، نوابزادہ لیاقت علی خان بنے ۔

جمعیت علمائے ہند کے شعبہ نشر و اشاعت نے جناح کی ذاتی زندگی کو لیکر بہت سے کتابچے شائع کیے سب سے زیادہ تنقید جناح کی رتی جناح سے شادی اور ممبئی میں ان کی ذاتی زندگی  پر کی گئی ۔ مجلس احرار کے مولویوں جن میں سرفہرست مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری ، مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی ، مولانا عبدالشکور لکھنوی ، مولانا مظہر علی اظہر نے اسٹیج پر تقریروں کے درمیان جناح کی رتی بائی سے شادی اور لیاقت علی خان کی رعنا سے شادی کو لیکر رقیق اور جنسیت زدہ حملے کیے ۔

دوسری طرف خود آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے بھی آل انڈیا نیشنل کانگریس کے مہاتما موہن داس کرم چند گاندھی اور جواہر لال نہرو کی ذاتی کردار کشی کی مہم شروع کردی گئی ۔
ذاتی کردار کشی کی اس مہم میں سب سے بڑا ہتھیار جنسیت زدگی پر مبنی کہانیاں، افسانے اور قصے تھے جنھیں مرچ مصالحہ لگاکر سیاسی جلسوں میں اور روزمرہ کی گفتگو میں استعمال میں لایا جاتا تھا۔ فریقین نے کانگریس اور لیگ کی صف اوّل کی قیادت اور ان جماعتوں میں نمایاں خواتین کے خلاف جنسیت زدہ حملوں میں ساری حدیں عبور کر ڈالی تھیں ۔ گاندھی کے آشرم بارے وہ وہ قصے کہانیاں گھڑی گئیں کہ الامان الحفیظ ، جواہر لال نہرو کی بیوی تک کو معاف نہیں کیا گیا۔ جناح کی بہن بھی ان حملوں کی زد میں آئی ۔ لیاقت علی خان کے ساتھ بہت سی عورتوں کے نام جوڑے گئے ۔

کانگریس کے اتحادی جمعیت علمائے ہند اور مجلس احرار الاسلام کے ہر چھوٹے بڑے مولوی نے پورا زور لگایا کہ جناح اور رتی بائی کی ازواجی زندگی کو نری حرام کاری قرار دیں اور مولانا حسین احمد مدنی نے تو ایک باقاعدہ کتابچہ جناح اور رتی بائی کی سول میرج ایکٹ کے تحت شادی کو سرے سے غیر شرعی قرار دینے کے لیے لکھا اور اس کو جمعیت علمائے ہند کے شعبہ نشر و اشاعت سے بڑے پیمانے پر شایع اور تقسیم کیا گیا ۔ احرار لیڈر مولانا مظہر علی اظہر نے تو جناح اور رتی بائی کے رشتے کو لیکر ہجویہ اشعار منظوم کیے جس کا ایک مصرعہ ان دنوں لیگ مخالف مولوی طبقے سے لیگ مخالف عوام میں مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ گیا ” ایک کافرہ کے واسطے اسلام کو چھوڑا” ۔

جمعیت علما  ہند اور مجلس احرار کی قیادت کو جناح کے تھری پیس سوٹ ، پمپی شوز اور جناح کی کلین شیو شکل صورت پر حملے بہت مرغوب تھے ۔

جناح مخالف کانگریس کے اتحادی ملاں جناح سمیت آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل مرکزی رہنماؤں کے “مسٹر پن” اور “جدیدیت” پر مذہبی کٹر پن اور جدیدیت مخالف جن ہتھیاروں سے حملہ آور ہوتے وہ ہتھیار کبھی آل انڈیا کانگریس میں شامل جواہر لال نہرو سمیت مسٹرز کے مسٹر پن اور ان کی جدیدیت کے خلاف کبھی استعمال نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کانگریس میں شامل جدیدیت کے علمبردار مسلمان رہنماؤں پر ان کا استعمال ہوتا تھا۔

وہ جناح کی شراب نوشی ، ہیم برگر سے شغف پر کثرت سے حملہ آور ہوتے تھے اور جناح کو ایک جنسیت زدہ بوڑھا قرار دیتے تھے ۔ وہ جناح کے نکاح نامے میں مذہب کے خانے میں خود کو خوجہ اثنا عشری(شیعہ) لکھنے کو بھی جناح کے خلاف دلیل بناتے تھے ۔ جمعیت علمائے ہند کے مرکزی رہنما مولانا کفایت اللہ دہلوی جناح کو ایک ماڈرن شیعہ قرار دیتے جس کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔
جناح کی بہن کا تجرد اور جدیدیت بھی ان کا خاص نشانہ تھی ۔

برطانوی ہندوستان میں سیاست کے میدان میں مخالف کی ذاتی کردار کشی اور اس پر جنسیت زدہ حملوں کا یہ چلن پاکستان بننے کے بعد پاکستان کی سیاست کا مستقل وصف بن گیا اور رفتہ رفتہ یہ صرف کانگریسی یا مسلم لیگی ملاوں کی سیاست کا خاص چلن نہیں رہا بلکہ اس میں بظاہر خود کو سیکولر ، روشن خیال کہلوانے والے بھی شریک ہوگئے ۔

ہم سب یہ تو جانتے ہیں کہ صدر ایوب اور اس کے حواریوں نے کیسے جناح کی بہن کو جنسیت زدہ جملوں کی دھار پر رکھ لیا تھا جب 64ء میں صدارتی انتخابات کا میدان سجا تھا لیکن یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ لاہور موچی دروازے میں متحدہ اپوزیشن کے انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے محترمہ فاطمہ جناح نے اس وقت کنونشن لیگ کے مرکزی جنرل سیکرٹری اور ایوب خان کے سب سے چہیتے اور پیارے وزیر ذوالفقار علی بھٹو کو ” بیوڑا بدمعاش لونڈیا باز” قرار دیا تھا اور اس تقریر کے انہی الفاظ کو پاکستان ٹائمز نے ایک کالمی خبر کی سرخی میں سجا دیا تھا ۔

جس کے جواب میں ایوب خان نے چند روز بعد لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں اپنی پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری ذوالفقار علی بھٹو سمیت دیگر عہدے داروں کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کی جس میں مس فاطمہ جناح کو لیزبئین/ہم جنس پرست قرار دیا اور کہا وہ غیرفطری جنسیت کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں ۔ ایوب خان نے خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی دھمکی دی تھی کہ اگر ان کی اور ان کے ساتھیوں پر “غیر اخلاقی فحش حملے” اپوزیشن نے بند نہ کیے تو وہ ان خواتین کے نام افشا کر دیں گے جو فاطمہ جناح کی لیزبئین دوست ہیں ۔

اگلے دیں نیشنل پریس ٹرسٹ کے زیر اہتمام شایع ہونے والے اخبارات نے تھوڑی کتر بیونت کے ساتھ صدر ایوب کی اس پریس کانفرنس کو صفحہ اول پہ تین سے چار کالمی خبر اور شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کیا تھا ۔

قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو 1964ء کی صدارتی مہم کے دوران وہم و گمان بھی نہیں ہوگا کہ محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات میں ایوب خان اور ان کے حواری ذاتی کردار کشی کی مہم میں جس جوش و خروش کے ساتھ جنسیت زدہ حملے کر رہے ہیں محض دو سال بعد 1966ء سے ایوب خان کی رخصتی کے زمانے تک وہ خود ذوالفقار علی بھٹو ، ان کی والدہ اور ان کی بیوی بیگم نصرت بھٹو پر بھی ایسے ہی جنسیت زدہ حملے کریں گے ۔

ذوالفقار علی بھٹو نے 65ء کی جنگ کے بعد ایوب خان پر پاکستانی نیشنلزم کے ہتھیار کے ساتھ حملہ شروع کیا تو جواب میں ایوب خان کی پروپیگنڈا مشینری نے پہلے تو بھٹو کو پاکستان کا شہری ماننے سے انکار کردیا وہ بھارتی شہری قرار دیے گئے ۔ جب اس سے کام نہ چلا تو بھٹو کے والد کو نام نہاد سقوط جونا گڑھ کا ذمہ ٹھہرا گیا۔ بھٹو کی بیوی تہران کے ایک کلب کی ڈانسر قرار پائی ۔ ماں ہندو اور طوائف قرار دی گئی۔

پیپلزپارٹی کے حامی بھی پیچھے نہیں رہے وہ پلٹ کر ایوب خان کی بیٹی کے بھٹو پر مرمٹنے کی کہانی گھڑ کر لائے ۔ ایوب خان کی گھر کی عورتوں کو بدکردار ٹھہرایا گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں اپنے سیاسی مخالفین خاص طور پر خان قیوم خان ، ولی خان کو ذومعنی فحش القاب جلسہ عام میں دیے ۔

پی این اے کی تحریک لے دوران جہاں بیگم نصرت بھٹو پر جنسیت زدہ حملے پی این اے نے کیے وہیں پیپلزپارٹی نے بیگم نسیم ولی خان پر جنسیت زدہ وار کیے ۔ ان کی طرف سے لندن میں انڈر وئیر چوری کرنے کا گھڑت قصہ خوب مرچ مصالحے لگاکر پھیلایا اور یہ من گھڑت بیان شیرباز مزاری سے منسوب کیا کہ انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں اس بارے سوال کے جواب میں صفائی دی کہ بیگم نسیم ولی تو انڈر وئیر پہنتی ہی نہیں ۔ جبکہ کہا گیا کہ بیگم نسیم ولی اس وقت پریس کانفرنس میں موجود تھی ۔

میں نے پیپلزپارٹی کے کئی ایک سینئر کارکنوں سے اس من گھڑت قصے کو ناقابل تردید سچائی کے طور پر سناتے کئی بار سنا۔

جنرل ضیاع الحق بھی جنسیت زدگی کے ان حملوں کی زد میں آئے ۔ ان پر ایک امریکی رپورٹر پر ڈورے ڈالنے اور ان کی بیوی بیگم شفیقہ ضیاع الحق سے لڑائی کی افواہیں بھی گردش کرتی رہیں ۔

خود جنرل ضیاع الحق کی پروپیگنڈا مشینری بھٹو کے کئی عورتوں سے معاشقوں کی کہانیاں پھیلاتی رہی ۔ وہ جیل میں تھے جب حسنہ بیگم سے ان کی خفیہ شادی اور بیگم نصرت بھٹو سے ناراضگی اور نوبت طلاق تک پہنچ جانے کی کہانیاں پھیلائی گئیں اور یہ بھی کہا گیا کہ بیگم نصرت بھٹو ان کی بے وفائی کے سبب چاہتی تھیں کہ بھٹو کو جیل میں ہی موت آ جائے ۔

ان دنوں میں بھٹو کی کابینہ کے کئی وزراء کی من گھڑت عیاشیوں کی کہانیاں اخبارات میں شایع کی جاتی رہیں ۔

1988ء کی انتخابی مہم کے دوران بھٹو خواتین پر جنسیت زدہ حملے بے ہودگی کی نئی انتہا کو چھونے لگے ۔ ہیلی کاپٹر سے بیگم بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی جعلی ننگی تصویریں پنجاب کے شہروں میں گرائی گئیں اور ایک اخبار نے ان کو صفحہ اول پر شائع بھی کر دیا ۔

طاہر القادری نے جب شریف برادران سے بغاوت کرکے پاکستان عوامی تحریک کی بنیاد رکھی تو ایک گھوسٹ کرسچن نرس کردار گھڑا گیا جس کے ساتھ ان کے ناجائز سمبندھ کی کہانیاں بازار سیاست میں لائی گئیں ۔

جب عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو عمران خان کی گرل فرینڈ سیتا وائٹ کی کہانی پرنٹ میڈیا پر چھا گئی ۔ ان کی بیوی جمائما گولڈ اسمتھ نشانے پر آئیں اور ابھی کل روزنامہ جنگ نے اپنے ریڈرز کو یہ بتانا ضروری سمجھا کہ آج کل جمائما کس فٹبالر کو ڈیٹ کر رہی ہیں۔

نواز شریف کی بیوی بیگم کلثوم نواز اور ان کی بیٹی مریم نواز کے ساتھ ان کے ملٹری سیکرٹری کے ساتھ بیک وقت ناجائز سمبندھ کی کہانی بھی 90ء کی دہائی میں گھڑی گئی تھی ۔ بعد ازاں شریف خاندان کی عورتوں کے قطری اور سعودی شہزادوں سے ناجائز سمبندھ کی کہانیاں بھی بنائی گئیں۔

مسلم لیگ نواز تو آج کل بھی عمران خان کی بیوی بشری پر زور شور سے جنسیت زدہ ٹرولنگ میں مصروف ہے ۔ ان کے قانونی مشیر عمران اور بشری بی بی کے تعلقات کو عدالت سے حرام کاری قرار دلوانے کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔

پیپلزپارٹی کے عبدالقادر پٹیل پیپلزپارٹی میں شیخ رشید کا جنم نظر آتے ہیں ۔

الغرض سیاست میں سب فریق ایک دوسرے کو جنسیت زدگی کے ہتھیار سے زیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

آج سوشل میڈیا کے اس دور میں ہم سیاست کے جنسیت زدہ پہلوؤں سے سیاسی مخالف کی ٹرولنگ کا جو رجحان عروج پر دیکھتے ہیں اس کی جڑیں ہماری نو آبادیاتی سیاست کے ماضی میں پیوست ہیں ۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply