حج اور احساس ندامت/راؤ کامران علی

حج کا سیزن شروع ہونے کو ہے۔ حاجیوں سے دعاؤں کی التجائیں کی جا رہی ہیں اور مبارکبادیں دی جا رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مبارکباد کس چیز کی؟ زیارت کی؟ وہ تو اب آپ دنیا کے کسی بھی کونے سے کر سکتے ہیں۔ گناہوں کے معاف ہونے کی؟ کن گناہوں کے؟ حقوق العباد جن میں قتل، زنا بالجبر، کرپشن، ملاوٹ، قبضہ شامل ہے، اللہ تعالیٰ معاف نہیں کر سکتا ہے اور اس نے خود کہا ہے کہ شہید کو بھی یہ سب معاف نہیں اور شہادت کا درجہ حاجی سے ایک سو آسمانوں سے بھی زیادہ بلند ہے۔ اگر چھوڑی گئی نمازوں اور روزوں کی معافی تو اس کا تیسرے بندے پر کیا اثر؟ یہ تو اللہ اور حاجی کا آپس میں معاملہ ہے۔

اللہ نے توفیق دی اور بہت سے لوگوں کو حج کروایا لیکن ان میں سے کسی میں ذرے برابر بھی تبدیلی نہیں دیکھی۔ نہ کسی بیوی کو   حج کے بعد شوہر کی  عزت کرتے دیکھا، اپنے حقوق ادا کرتے دیکھا، نہ باہر تسبیح لے کر “حاجی صاحب” سلام کا شگفتگی سے جواب دیتے ہوئے کسی شوہر کو گھر میں عزت اور شفقت کا معاملہ کرتے دیکھا؛ نہ کسی حاجی کو حج کے بعد بہن کے حصے کی زمین واپس کرتے دیکھا اور نہ کسی “حاجی کریانہ سٹور” کو ملاوٹ چھوڑتے دیکھا۔

ہم میں سے بہت سے لوگ یورپ امریکہ میں سیروسیاحت کے لئے جاتے ہیں اور واپس آ کر تبدیل نہیں ہوتے، تو ایسے ہی اگر کوئی سعودی عرب کی سیاحت کے لئے جا رہا ہے تو سو بسم اللہ؛ کچھ بدلنے کی ضرورت نہیں لیکن اگر کوئی حج کے لئے جا رہا ہے تو اسے تو بہتر ہونا چاہیے۔ یا کہ حج پر کیا خرچہ سوائے “ماں کے پیٹ سے نکلے بچے جیسے پاک صاف ہونے کا” احساس اس کی گناہ یا احساس ندامت کو ختم کرنے کی فیس ہے۔

احساس ندامت بہت اہم چیز ہے اور اگر یہ واقعی حقیقی ایشوز پر ہے تو اسے ختم نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کو ساتھ لے کر آنے والی زندگی کو بہتر بنانا چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کسی “حاجی” میں آپ یہ احساس ندامت نہیں دیکھیں گے کہ یتیم بھتیجوں کا حصہ کھا لیا؛ بیٹے کی نشہ کی عادت چھپا کر شادی کر کے کسی لڑکی کی زندگی تباہ کر دی؛ ان کا احساس ندامت ہوگا بقر عید پر قربانی نہیں دی؛ روزوں میں پورن فلم دیکھ لی۔ اسی طرح “حاجن” کو کبھی احساس ندامت نہیں ہوگا کہ چغلی غیبت سے کسی کا گھر اجاڑ دیا۔ آج بھی نوے فیصد نمازی لڑکے لڑکیوں کے گناہ یا احساس ندامت ماضی کے رومانوی تعلقات یا خود لذتی یا دیگر جنسی معاملات سے متعلق ہیں۔ اور ان کے لئے عبادات، حج اور عمرے اپنے اندر ایسی تبدیلی لانے کے لئے نہیں ہوتے جس سے اصل اخلاقی، معاشرتی اور قانونی مسائل سے متعلق احساس ندامت اور مداوا ہو بلکہ فروعی مسائل، جس سے کسی کا کچھ نہ بگڑا ہو، اس احساس ندامت سے متعلق ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چلیں بہرحال پوری دنیا کے مسلمانوں کی عقل سعودی عرب کو تو امیر کر ہی رہی ہے جس نے پہلے پوری دنیا میں جہاد اور دہشتگردی کے لئے حج عمرے کی آمدنی استعمال کی اور اب ہمیں اس انتہا پسندی کی سوغات کا کینسر لگا کر حج کی انکم سے نائٹ کلب اور عیاشی کے اڈے کھول رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کا حج قبول فرمائے! آمین۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply