ہم سات ، ایک ساتھ , سفر نامہ(9)-زید محسن حفید سلطان

ہم رات واپس مانسہرہ آئے اور سیدھا سبزی منڈی روڈ پر قائم شاندار سے P.C Green ہوٹل ہی آ کر رکے ، اس صاف ستھرے اور شاندار ہوٹل میں ہم نے دو کمرے لئے اور فریش ہو کر کچھ کھانے پینے کو نکل پڑے ، کھانا وغیرہ کھا کر چائے پی اور آ کر سو گئے۔

اگلی صبح محمد بھائی کی داڑھ کا درد حد سے زیادہ بڑھ چکا تھا ، محمد اور ابراہیم مانسہرہ کے سب سے بڑے ہسپتال KING ABDULLAH HOSPITAL کو نکل گئے ، وہاں جا کر پتا چلا کہ اتوار کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب نہیں آئیں گے ، جو ڈاکٹر صاحب میسر تھے وہ محمد کی دوائیاں دیکھ کر کہنے لگے کہ “میں بھی یہی کھا رہا ہوں ، لیکن درد جا ہی نہیں رہا” یہ سنا تو بس محمد بھائی یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ:
مجھ سے مریض کو طبیب ، ہاتھ تو اپنا مت لگا
اس کو خدا پہ چھوڑ دے ، بہرِ خدا جو ہو سو ہو

ادھر ہم ایک الگ الجھن کا شکار تھے کہ ہماری اگلی منزل کیا ہو؟

کوئی کالام جانے کا کہتا،کوئی مالم جبہ کا نام لیتا نظر آتا اور اسی دوران عبدالباسط نے مظفر آباد کا نام لیا۔ ۔لیکن مظفر آباد تو کشمیر میں تھا اور بھلا ہم کشمیر کیسے جا سکتے تھے؟

ابھی ہم یہی سوچ رہے تھے کہ کافی لمبا وقت گزار کر محمد اور ابراہیم ناشتہ لے آئے ، تأخیر کی وجہ پوچھی تو معلوم ہوا “اڈے” پر گئے ہوئے تھا اور کافی معلومات کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ “اب ہم مظفر آباد جائیں گے”
لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟
بھئی اڈے سے گاڑی جائے گی 270 روپے فی بندہ اور ہم اگلے دو گھنٹے میں کشمیر میں ہوں گے!
ارے واہ ، ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا کہ ہم وادی کشمیر سے فقط 16 میل یعنی 25 ، 26 کلو میٹر کی مسافت پر بیٹھے ہوئے تھے ، یہ واقعی ہمارے لئے لیٹسٹ نیوز تھی۔کشمیر کا نام سن کر تو سمجھیں ایک پھرتی سی بھر گئی تھی ، ہم نے جلدی جلدی کمروں کی حالت سدھاری اور پھر فیصلہ کیا کہ مظفر آباد اتنا سارا سامان ڈھو کر لے جانے سے بہتر ہے سامان یہیں رکھوا دیا جائے۔۔

لیکن سامان رکھیں کہاں؟

جواب تھا ہوٹل میں لیکن کوئی بھی کمرے کا کرایہ بھرنے کیلئے راضی نہ تھا ، ادھر ہم نے کشمیر کیلئے نکلنا تھا اور دوسری طرف ہوٹل والا ہم سے کمرہ خالی کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا ، اور یہاں ہمیں یہ بات سمجھ آئی کہ آپ چاہے دن ایک بجے کمرہ بک کریں یا رات بارہ بجے ، اگلے دن کے بارہ بجے چیک آؤٹ ٹائم ہو جائے گا ، ہم جو چوبیس گھنٹے قبضے کا پروگرام بنائے بیٹھے تھے یہ ہمارے لئے انوکھی بات تھی ، پھر کیا تھا ہم نے ہوٹل والے سے ہی بات کی اور کچھ پیسوں میں اپنا سامان اسٹور روم میں رکھوا دیا۔

اور یوں ظہر کی نماز پڑھ کر ہم مظفر آباد کی گاڑی کیلئے اڈے کا رخ کر رہے تھے اور اس طرف رخ کا مطلب تھا کہ ہم اپنے اس سفر کے سب سے مانوس ترین شہر کو چھوڑے جا رہے تھے۔
یقین جانیں مانسہرہ ہمارے سفر کا سب سے مانوس ترین شہر تھا ، اور اس انسیت کی کئی ایک وجوہات تھیں ، جس میں سے ایک اہم وجہ “زبان” تھی ، یہاں پر عام طور پر “ہندکو” بولی جاتی ہے جس کا لہجہ پنجابی کے قریب ہے اور انداز بھی ، اور ہمارے ہاں کی دیسی پنجابی اردو کے قریب ہے ، بس یہی وجہ تھی کہ ہم اردو والوں کو بھی اپنائیت سی محسوس ہوتی تھی ، اور یہ پشتو کے مقابلے میں ہمارے لئے سمجھنا بہت زیادہ آسان ہوتی تھی ۔

اسی طرح یہاں کے لوگوں کا رویہ بھی کافی اچھا تھا ، چاچا ارشاد ہمیں سارا دن گھما پھرا کر پھر ہوٹل بھی دلا کر گئے تھے ، تو ہوٹل والا بھی کافی اچھے اخلاق کا تھا۔
ویسے میں نے کسی کو سنا تھا کہ:
“پہاڑی لوگ پہاڑوں میں رہ رہ کر پہاڑوں کی طرح سخت دل ہو جاتے ہیں ، اور ایک حصار میں بند ہو جانے کی وجہ سے تنگ نظر بھی ہوتے ہیں”

julia rana solicitors london

اس پر میں اس پورے سفر کی بنیاد پر یہی کہوں گا کہ ویسے تو ہر جگہ ہی اچھے برے لوگ ہوتے ہیں ، لیکن اگر کسی کو تشبیہ ہی دینی ہے تو ایسے بھی تو دی جا سکتی ہے نا کہ:
“پہاڑی لوگ پہاڑوں میں رہ رہ کر پہاڑوں کی طرح مضبوط اعصاب کے مالک ہو جاتے ہیں ، اور ایک حصار میں بند ہونے کی وجہ سے خود بھی کسی محفوظ قلعے کی مانند بن جاتا ہیں جو دوسروں کی حفاظت کرنا خود کا فریضہ سمجھتے ہیں ، اور پھر جس طرح یہ جبالِ شامخات خود کو روند کر چلنے والوں کو بھی ایسی بلندی عطا کرتے ہیں کہ کوئی چوٹی پر پہنچ جائے تو ایک عالم اس کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے اسی طرح یہاں کے باسی بھی خود قربانی دے کر قوم و ملت کو ایسے مقام پر پہچانا چاہتے ہیں جہاں سے ایک عالم کی نظریں اس طرف اٹھ جائیں”
کہنے کا مقصد یہ کہ تشبیہ اچھی بھی تو دی جا سکتی ہے نا ، آخر ظرف بھی تو کسی چیز کا نام ہے ، اور بھلا پھر بیان کی گئی وہ کون سی صفات ہیں جو کوہساروں کے ان مکینوں میں نہ ہوں؟
بس اسی لئے ہم ان کوہساروں میں اور ان کے مکینوں میں خود کو بہت ہر سکون محسوس کرتے اور ہمارے ہر سفر کا مزہ ان کے ساتھ مزید دوبالا ہو جاتا۔

Facebook Comments

زید محسن حفید سلطان
ایک ادنی سا لکھاری جو ہمیشہ اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply