بی جے پی کی بات نہ کریں۔ بی جے پی اب کہیں نہیں ہے۔ بی جے پی کبھی نظریاتی تھی اب نہیں ہے ،اب وہ اقتدار پانے کیلئے ان لوگوں سے بھی ہاتھ ملا رہی ہے جو شری رام چندر کو منہ بھر کر گالیاں دیتے ہیں۔ سنجے نشاد جیسے لوگ اگر آج این ڈی اے میں ہیں تو بتائیں کہ بی جے پی کہاں ہے؟ سونے لال پٹیل جب تک زندہ رہے تب تک بی جے پی سے گالیاں کھاتے رہے لیکن آج کُرمیوں کا وؤٹ پانے کیلئے پٹیل کی لونڈیا این ڈی اے میں شامل ہے، تو ایسی بہت ساری مثالیں ہیں جو پیش کی جا سکتی ہیں ،رہی بی جے پی کی ‘محنت، اور ‘پلاننگ، تو اب اس کی بھی حقیقت سن لیں۔ مودی لاشوں کا سوداگر ہے۔ سپریم کورٹ تک نے اسے ‘نیرو، کہہ کر اس کی سفاکیت پر مہر تصدیق ثبت کر دیا ہے وہ اقتدار پانے کیلئے پہلے اپنوں کو بھاڑ میں جھونکتا ہے۔ گودھرا میں اس نے یہی کیا ،خود ہی مارا اور خود ہی ان لاشوں کا جلوس نکال کر اس پر مگرمچھ کے آنسو بہائے ،اس کے بعد پورے گجرات میں مسلمانوں کے خلاف فساد بھڑک اٹھا۔ فساد کے بعد یہ ہندو ہردے سمراٹ بن گیا پھر گجرات کا ہر الیکشن اس نے لاشوں پر بیٹھ کر لڑا۔ 2014 میں اس نے ذہنوں کو قتل کیا اور 2019 میں پلوامہ میں قتل عام مچا کر ووٹ مانگا ،یہ تو ہوئی اس کی خوفناک منصوبہ بندی، رہی اس کی محنت تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ چار سو پار کا نعرہ لگا رہا تھا لیکن پہلے تو اس نے الیکشن کمیشن کو قابو میں کیا۔ انکم ٹیکس، ای ڈی اور سی بی آئی جیسی ایجنسیوں کو وہ پہلے ہی قابو میں کر چکا تھا لیکن ابھی بھی اسے اپنی ‘محنت، پر یقین نہیں تھا تو اس نے نتیش کمار کو پہلے اپنے پالے میں کیا پھر ہیمنت سورین کو جیل میں اٹھا کر ڈال دیا۔ گجرات کا الیکشن متاثر نہ ہو، اس کیلئے کیجریوال کو اس نے بَلی کا بکرا بنا دیا، اس پر بھی دل نہیں بھرا تو کانگریس کے چار اکاؤنٹ میں سے تین کو فریز کر دیا ،یہ ہے مودی کی محنت، یہ نیتا گیری نہیں سراسر غنڈہ گردی ہے۔
بی جے پی کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ اس کے پاس ‘پَنََّا پَرمُکھ، ہیں۔ پنا پرمکھ کا مطلب یہ ہے کہ اے فور سائز کے ووٹر لسٹ کے ایک صفحے میں جتنے ووٹروں کے نام ہیں بی جے پی ان کی دیکھ ریکھ کیلئے بھی ایک بندے کو لگا دیتی ہے لیکن کرناٹک کے الیکشن میں ڈی کے شیو کمار نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر ان پنا پرمکھوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا تھا۔ صحیح بات یہ ہے کہ بی جے پی کو 2014 میں ترقی کے نام پر ووٹ ملا تھا اور 2019 میں قومی سلامتی کو انہوں نے بھنا لیا تھا ،وگرنا یہ محنت اس سے پہلے بھی کرتے تھے اور اس الیکشن میں سنگھ کے محنتی کارکن بھی کہیں نظر نہیں آئے۔
یوپی، بہار، مہاراشٹر، دلی اور ہریانہ میں سیٹیں صرف کم نہیں ہوں گی بلکہ انہیں ریاستوں کے ووٹر بی جے پی کی کمر توڑنے جا رہے ہیں۔ ہاتھ کنگن کو آرسی۔۔ کیا کل تک اور انتظار کر لیں۔
بی جے پی صرف اچھوت ہی نہیں ہے بلکہ وہ ملک دشمن بھی ہے۔ قومی یک جہتی کو اس نے نقصان پہنچایا، قومی سلامتی کو اس نے داؤ پر لگایا۔ غریبوں کو مزید غریب کر دیا۔ کسانوں کی کمر توڑ دی۔ مذہب کے نام پر ووٹ مانگا۔ کانگریس اور بی جے پی کو ایک ماننا پر لے درجے کی خود فریبی ہے۔ کانگریس ‘اہون البلتین، بھی نہیں ہے بلکہ کانگریس وہ ہے کہ جسے انگریزی دور میں ‘ہندو کانگریس، کہا گیا اور آزادی کے بعد ‘مسلم کانگریس، ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ،جب کانگریس کے مینی فیسٹو کو مودی نے مسلم لیگ کا مینی فیسٹو بتا دیا۔ کانگریس کسی طبقے کی، کسی مذہب کی، کسی علاقے کی اور کسی برادری کی پارٹی نہیں ہے اور نہ ہی کانگریس برہمن بنیا پارٹی ہے۔ کانگریس تمام ہندوستانیوں کی پارٹی ہے اور کانگریس اور بی جے پی کو ایک سمجھنا ایسے ہی ہے جیسے اندھیرے اور اجالے کو آپ ایک سمجھیں۔
مودی کی مقبولیت جب تھی تب تھی ،اب نہیں ہے! اب تو سب سے زیادہ مذاق مودی ہی کا بنتا ہے رہی مودی کی ایمانداری تو جو آدمی اپنی بیوی سے ایمانداری نہیں دکھا پایا وہ ملک سے کیا ایمانداری دکھائے گا۔ جو چین کے خلاف ایک لفظ نہیں بول سکا، بلکہ الٹا چینی دراندازی کا دفاع کیا وہ ملک کا وفادار کیسے ہے؟ چین کانگریس کو نہیں مودی کو لانا چاہ رہا ہے اس لئے کہ مودی نے ابھی تک چینی ایجنٹ کا کام کیا ہے ،رہا امریکہ تو وہ کیوں کانگریس کو لانا چاہے گا؟ ناوابستہ ممالک کی قیادت کرنے کے باوجود بھی کانگریس کے بارے میں یہی سمجھا جاتا رہا کہ کانگریس اور سویت یونین میں ذہنی ہم آہنگی ہے اس لئے امریکہ ہمیشہ کانگریس کو شک و شبہے کی نگاہ سے دیکھتا رہا۔ آزاد ہندوستان میں جو پہلی غیر کانگریسی حکومت بنی اس کی باگ ڈور سی آئی اے کے ایک ایجنٹ کے ہاتھ میں تھی۔ عالمگیریت کے نفاذ کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ ہندوستان دیوالیہ ہو جائے گا لیکن دفعتاً ہندوستان کو من موہن سنگھ جیسا وزیر خزانہ مل گیا ،بعد میں انہیں من موہن سنگھ کے دور میں امریکہ اور کانگریس کی قربت ضرور پیدا ہوئی لیکن 2008 میں جب پوری دنیا کساد بازاری کی شکار تھی، ملک اور بینک دھڑا دھڑ دیوالیہ ہو رہے تھے ایسے دور میں من موہن سنگھ نے ہندوستان کی معیشت کو اس حد تک سنبھالے رکھا کہ اُس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن بھی اپنی ناراضگی چھپا نہیں سکی تھیں اور عین اس وقت جب عرب ملکوں کیلئے عرب بہاریہ کا حمل پینٹاگون کے پیٹ میں ٹھہر چکا تھا اسی وقت ہندوستانی معیشت کو بھی تباہ کرنے کیلئے مودی جیسے مہرے کو آگے بڑھایا جا رہا تھا اور آپ اسی مودی کو وفادار مان رہے ہیں۔

انڈیا اتحاد کی حکومت بن رہی ہے اور یہ ہم ہوا میں نہیں کہہ رہے۔ ہر امیدوار کے بارے میں خفیہ ایجنسیوں اور سیاسی جماعتوں کی جو رپورٹ ہے اس سے معلوم کریں پھر بات کریں۔ ممکن ہے کہ اس رپورٹ تک سب کی رسائی نہ ہو لیکن الیکشن کے فورا ًبعد انڈیا اتحاد نے جو پریس کانفرنس کی ہے تو اس میں ان کی باڈی لینگویج دیکھیں۔ انداز نشست و برخاست دیکھیں، تعاون کا جذبہ دیکھیں بہت کچھ نظر آ جائے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں