سائنس حقائق مانتی ہے،عقائد و نظریات نہیں/عزیر سرویا

سائنس کو صرف حقائق سے مطلب ہوتا ہے ۔یہ عقائد و نظریات کو نہیں مانتی۔

یہ اوپر جو درج ہے، بلاشبہ اس صدی کا سب سے عظیم مغالطہ ہے جسے بڑی محنت سے پھیلا کر سائنس کے نیوٹرل ہونے کا تاثر پیدا کیا گیا ہے۔ جب کسی چیز کو سب سیاسی و سماجی طور پر نیوٹرل مان کر صرف حقائق تک پہنچنے کا وسیلہ سمجھیں تو وہ چیز مستند بلکہ کسی حد تک مقدس مان لینے میں کسی کو عار محسوس نہیں ہوتا۔ یہی بازیگروں کی بازیگری ہے۔

سائنس نہ کبھی نیوٹرل رہی، نہ غیر سیاسی اور نہ محض حقائق سے مطلب رکھ کر عقائد و نظریات سے ماورا۔ سائنس کو آگے بڑھانے والے سائنسدان انسان ہوتے ہیں۔ ان کے اپنے عقائد و نظریات دنیا بارے ہوتے ہیں جن سے مکمل طور پر آزاد ہو کر کچھ بھی کرنا ایک ناممکن بات ہے۔ یہ کامن سینس ہے۔

اس سے آگے بڑھیں تو موجودہ دور کی سائنس بنیادی طور پر ایک مہنگا شوق ہے۔ یہ سرمایہ مانگتی ہے۔ جس سمت سے سرمائے کا بہاؤ آتا ہے یہ اسی کا ماؤتھ پیس بنتی ہے۔ ناٹزی جرمنی دور میں وہاں کی سائنس اور سائنسدانوں کی ایجادات ان کی سیاسی آئیڈیالوجی کو جواز دینے میں استعمال ہوتے رہے۔ بالشیوک انقلاب کے بعد سرخ قوموں کی سائنس کمیونزم کے جواز و عظمت کے قصے سناتی رہی۔ موجودہ سائنس کیپیٹلزم کی موجودہ سپورٹ یافتہ ویلیوز (یعنی لبرل ازم، سیکولر ازم، ہیومن ازم وغیرہ) کے جواز اور ان کی حقانیت کا بول بالا کر رہی ہے۔

سائنس حقائق کا نہیں بلکہ مال/سرمایے کا تعاقب کرتی ہے۔ اسی لیے لائف اسٹائل میڈیسن (احتیاط پرہیز سے بیماری پر قابو پانا) پر ہونے والی تحقیقات بمشکل ملتی ہیں اور نئی ادویہ پر تھوک کے حساب سے۔ کیونکہ معاملہ منافع  کا ہے۔ کئی سال تک تمباکو کمپنیوں نے سگریٹ کے نقصان منظر عام پر آنے سے روکے رکھے کیونکہ سرمایہ بولتا ہے تو سب خاموش ہوتے ہیں۔ یہ سب ریکارڈ کی باتیں ہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ تنقید کرنے سے پہلے اپنی ریسرچ یا تحقیق کسی مستند جریدے میں چھپواؤ  وہ نہایت سادہ ہیں یا شاید بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہیڈرون کولائیڈر، سیٹلائٹ لانچنگ، مالیکیولر انجینئرنگ ان سب پے ملیئنز بلیئنز کا خرچہ ہے۔ ان چیزوں تک پہنچنے کے لیے مطلوبہ ڈگریوں اور اداروں تک رسائی بھی اتنی ہی مہنگی ہے۔ مہنگی ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ایک مخصوص قسم کی نظریاتی برین واشنگ بھی مانگتے ہیں۔ یعنی جب تک آپ قائل نہیں ہیں سرمائے کی دنیا کے رائج نظریات سے، آپ کی انٹری مشکل ہے۔ اس کا ثبوت وہ سائنسدان ہیں جنہوں نے سب کچھ کر کے لائن تبدیل کی اور ان کا بائکاٹ ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors

سائنس کو جوتے کی نوک پر رکھنا یا کسی سائنسدان کو اس کے نظریات کی وجہ سے ہیرو نہ ماننے کے رجحانات کے پیچھے سائنس کے یہ “سیاسی/نظریاتی/سماجی” وابستگی کے پہلو ہیں۔ دوست جو خواہ مخواہ جُزبُز ہو رہے ہیں انہیں ضرورت ہے کہ ایک دفعہ اپنے محبوب ادارے (رائج سائنس) کی بنیادوں اور پریکٹیکل ایپلی کیشن پر بھی غور فرمائیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply