ہم سات ، ایک ساتھ , سفر نامہ(10)-زید محسن حفید سلطان

ہم نے بس اڈے پہنچ کر مظفرآباد کے ٹکٹ خریدے اور ایک بار پھر خوبصورت راستے پر گامزن ہو گئے ، ویسے ہی یہ پہاڑوں کا سفر بڑا سحر انگیز ہوتا ہے لیکن جب بارش ہو رہی ہو تو سڑکیں چمک اٹھتی ہیں ، ہریالی مزید نکھر جاتی ہے اور ایک عجیب نکہت و مہکار ہر طرف پھیل جاتی ہے جس سے راستوں کی سحر انگیزی مزید بڑھ جاتی ہے ، باتیں کرتے اور سوتے جاگتے ہمارا یہ سفر جاری تھا کہ ایک جگہ چیک پوسٹ پر ہمیں روکا گیا ، شناختی کارڈ مانگے گئے۔۔پوچھنے پر پتا چلا کہ اب ہم شہباز شریف کی حکومت سے نکل کر انوار الحق صاحب کی حکومت میں قدم رکھ رہے ہیں ، جی ہاں اب ہم اس لکیر پر کھڑے تھے جہاں پچھلے قدم کے حاکم شہباز شریف تھے اور اگلے قدم کے حاکم چوہدری انوار الحق صاحب تھے ، اور یوں کہہ لیں کہ ایک پاکستان سے دوسرے پاکستان میں جانے کیلئے ہم اپنا پاکستانی ہونا ڈکلیئر کروا رہے تھے ، ہم میں سے تقریباً سب ہی نے شناختی کارڈ دئے جس نے نہ دیا شاید اس کو اپنی شناختی کارڈ کی تصویر سے پکڑے جانا کا ڈر ہوگا کہ تصویر ہی ایسی کھینچتے ہیں کہ اچھا خاصہ آدمی بھی انتہائی مطلوب دہشت گرد لگتا ہے۔خیر ہماری شناخت مکمل ہوئی اور پھر کچھ دیر میں ہم ایک الگ دنیا میں پہنچ گئے ، کبھی تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ہم نے کوئی خوبصورت جگہ دیکھی ہی نہ ہو!
الٰہی اتنی خوبصورت جگہ اتنا شاندار مقام ، اتنی حسین دنیا!
یہ کشمیر تھا جس کے بارے میں ، میں تو کم از کم یہ کہوں گا کہ اگر “خوبصورتی” کا نام کشمیر رکھ دیا جائے تو شاید جب بھی یہاں کی خوبصورتی کی تعریف کا حق ادا نہ ہو سکے۔ ۔
یہاں کے مناظر عجیب وغریب اور حسین و جمیل ہوتے ہیں۔۔
رات کے اندھیروں کی دبیز چادروں کو چیرتی ہوئی صبح روشن کی پَو پھوٹتی ہے ، پھر کسی حسین انگڑائی سا رنگ بدلتا سہانا موسم شروع ہوتا ہے ، رنگ و بو کے بدلتے اسی ماحول میں روشنی بکھیرتا سورج دو کوہساروں کے درمیان سے سر اٹھاتا ہے ، وہیں رات کی پڑی ہوئی شبنم کے قطرے چمک اٹھتے ہیں ، سورج مکھی آنکھ کھول کر اپنا رخ شعاعوں کے تعاقب میں کر لیتے ہیں ، گلاب مہک اٹھے ہیں ، فصلیں لہلہاتی ہیں ، اِدھر چہچہاتے چرند و پرند تلاشِ رزق میں محو فضا ہوتے ہیں ، اُدھر انسانوں کا ہجوم سرِ بازار متلاشی غذا نظر آتا ہے ، پر سکون وادیوں میں چہل پہل شروع ہوتی ہے تو ٹھاٹھیں مارتا دریا جھاگ بناتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے ، اسی اثنا میں سائبان سایہ فگن ہوتے ہیں ، آہستہ آہستہ سورج کی روشنی ماند پڑتی ہے ، اور ادھر مینا برسنا شروع ہو جاتا ہے جو بہت جلد ہی ژالہ باری میں بدل جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے سر سبز و شاداب پہاڑوں پر شفاف برف کی ایک تہہ جمنا شروع ہو جاتی ہے ، یہاں کے پہاڑ بھی عجیب ہیں ، کوئی سر سبز و شاداب تو کوئی ویران و سنگلاخ ، کچھ پر درختوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ، تو کچھ پر جگہ جگہ بنے ہوئے غار ، موسم آہستہ آہستہ اتنا خوبصورت ہوتا جاتا ہے کہ سایہ فگن بادل بھی جھومتے جھومتے نیچے چلے آتے ہیں ، اور اگلی چند گھڑیوں میں انسان خود کو بادلوں کے جھرمٹ میں پاتے ہیں ، ادھر بادل چھٹنا شروع ہوں تو بلندیوں سے اترتے جھرنے ، دودھیا آبشاریں ، رنگ برنگے گھر اور ہری بھری کھائیاں اور آسمان پر ابھرے طرح طرح کے نقوش دعوتِ نظارہ دیتے ہیں ، اور اسی چلتے آفتاب کی جگہ مہتاب کے آنے کا وقت ہوتا ہے ، کہساروں کے درمیان سے سر اٹھانے والا صبح کا ستارہ ایک بار پھر دو پہاڑوں کے درمیان سے ہوتا ہوا مغربی کنارے کو ڈھل جاتا ہے اور دوسری طرف آفتاب اپنی محفل سجا لیتا ہے ، پھر بس ستارے ہوتے ہیں اور ہر طرف سکون و اطمینان کی فضا قائم ہو جاتی ہے ، اور صاحبِ قدرت کی قدرت کے ان حسین نظاروں کے بیچ چند انسان صرف اس لئے ایک دوسرے کی جانوں کے دشمن بنے ہوئے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے درمیان کی ایک لکیر ابھی تک کھنچ نہیں پائی تھی!

julia rana solicitors london

جاری ہے….

Facebook Comments

زید محسن حفید سلطان
ایک ادنی سا لکھاری جو ہمیشہ اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply