“اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن لوگوں کے لئے اعلان ہے کہ اللہ مشرکین سے بیزار ہے اور اس کا رسول بھی، پس اگر تم توبہ کر لو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر مُنہ پھیر لو گے تو جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور کافروں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔” (سورۃ توبہ،آیت 03) دینِ اسلام دینِ فطرت ہے اور عبادات، فطرتِ انسانی اور ماحولیاتی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ عبادات جیسے نماز، روزہ، حج، زکواۃ، خمس، جہاد، امربالمعروف، نہی عن المنکر، تولّا اور تبرّا، ان کے علاوہ اجتماعی عبادات جیسے عید الفطر، عید الاضحیٰ، حج، نماز جمعہ اور روز و شب کی باجماعت نمازوں جیسے امور سب فطرت سے ہم آہنگ عبادی، معاشرتی، سیاسی اور اجتماعی پہلو رکھتے ہیں۔ اگرچہ ہمارا یہ موضوع نہیں ہے، لیکن عالمِ اسلام کا اس سازش سے بھی پردہ اُٹھانا ضروری ہے کہ ان عبادات کا رخ کس نے اور کب موڑا؟ ان عبادات کی اصل روح نکال کر ان کو فقط حجروں میں مقیّد کرنے کی جنائت کس نے کی؟ ان الہیٰ عبادات خصوصاً اجتماعی عبادات کے اندر سے سیاسی روح کس نے نکالی ہے۔؟
ہمارا موضوع “حج کا سیاسی پہلو ہے”
حج ایک عالمی اِلہیٰ کانفرنس ہے، دنیا میں مختلف عالمی کانفرنس منعقد کی جاتی ہیں۔ جیسا کہ اسلامی ممالک کے تعاون کی عالمی تنظیم OIC وغیرہ کی کانفرنسیں۔ لیکن خدا کی طرف سے منعقد کی جانے والی کانفرنس اور دنیا کی کانفرنسوں میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ دنیا کی کانفرنسوں میں صرف سربراہانِ مملکت یا ان کے نمائندے، اشرافیہ، قائدین، عمائدین اور سرکردہ شخصیات شامل ہوتی ہیں جبکہ خدا کی دعوت کے نتیجے میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں نیچے سے اوپر تک ہر طبقہ اور ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ بلا تفریق رنگ و نسل امیر و غریب شامل ہوتے ہیں۔ اگر فریضہِ حج کی سیاسی اہمیت پر نظر کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ آج کی ایجاد نہیں ہے، بلکہ مضمون کے آغاز میں لکھی گئی سورۃِ حج کی آیت نمبر 03 کے پیشِ نظر یہ حکمِ خدا ہے اور اس اہم فریضہِ کو انجام دیئے بغیر فریضہِ حج کی قبولیت مشکوک ہے۔
اس آیتِ کریمہ کی روشنی میں اگر تاریخ پر نظر کی جائے تو حج کے اس عظیم سیاسی پہلو کو سب سے پہلے خود رسول اللہ (ص) نے ایک فریضہ کی حیثیت سے انجام دیا۔ حکمِ خداوندی کے مطابق رسول اللہ (ص) نے سورہ برأت (توبہ) کو نو ہجری کے حج میں لوگوں کے سامنے بیان کرنے کے لئے حضرت ابوبکر کو سورہ برأت کے ساتھ امیر الحج بنا کر روانہ کیا لیکن بعد میں رسول اللہ پر وحی نازل ہوئی اور اللہ کا پیغام پہنچا کہ: “الایؤدی عنک الا انت او رجل منک” یعنی “اعلان برأت کی ذمہ داری کو یا تو بنفسِ نفیس انجام دیں یا ایسا شخص جو آپ سے ہو۔” چنانچہ رسول اللہ نے حضرت علی علیہ السلام کو بھیجا، جنہوں نے حضرت ابوبکر سے سورہِ برأت لے لی اور امیر حج کی حیثیت سے حاجیوں کو پیغامِ الٰہی پہنچایا۔
اس الہی پیغام میں ہے کہ “اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بیزار ہیں” اس اہم الہیٰ پیغام کو خدا کی طرف سے منعقدہ عالمی کانفرنس میں لوگوں کو سنایا جا رہا ہے، جس کے دو مخاطب ہیں، ایک مسلمان اور دوسرے مشرکین۔ اگرچہ مشرکین حج نہیں کرتے اور نہ ہی اس اسلامی کانفرنس میں شرکت کرتے ہیں، لیکن یہ پیغام اُن تک ضرور پہنچتا ہے۔ اس حکمِ قرآنی کے دوسرے مخاطب مسلمان ہیں، جن کی ذمہ داری یہ ہے کہ اس پیغام کو مشرکین تک پہنچائیں، یعنی اُنہیں دعوتِ اسلام دیں اور اس کے لئے تبلیغ اور جہاد کی صورت میں اپنا فریضہ انجام دیں۔ رسول اللہ نے اپنا آخری حج انجام دیا اور منٰی کے مقام پر خطبہِ حج ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ میں جہاں مسلمانوں کے لئے شرعی احکام اور اخلاقیات کی تلقین فرمائی، وہاں اہم سیاسی بیان بھی ارشاد فرمایا کہ،: “میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، قرآن اور میری عترت (اہلبیت)”
اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو یہ ایک سیاسی دستورِ زندگی ہے، جو رسول اللہ نے بیان فرمایا، جس کے اثرات انسان کی دنیوی اور اخروی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں اور انسان کو ایک دستورالعمل ملتا ہے اور حج کے بعد جب یہ کاروان مدینہ کی طرف سفر کر رہا تھا تو غدیر کے مقام پر وحیِ الہیٰ، رسول اللہ پر نازل ہوتی ہے، جو امت کی باگ ڈور رسول اللہ کے بعد امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو سونپنے کے اعلان کا حکمِ الہیٰ پہنچاتی ہے، تاکہ اس حکم کو لوگوں پر نافذ کیا جائے۔ اب خدا کی طرف سے عالمی اسلامی کانفرنس کا مقام بدلا، اب یہ میدان میدانِ منٰی نہیں بلکہ میدانِ غدیر ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں بدلا۔ پیغمبرِ خدا بھی وہی، حجاج بھی وہی، اہلبیت بھی وہی اور اصحاب بھی وہی ہیں۔ اس الہیٰ کانفرنس میں خدا کی طرف سے اہم ترین سیاسی فیصلہ نافذ ہوتا ہے کہ رسول اللہ کے بعد رسول کے جانشین، مسلمانوں کے خلیفہ، مولا و آقا امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ سلام ہونگے۔
اس غدیر کانفرنس سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ حج کے موقع پر مسلمانوں کے اہم ترین سیاسی مسائل پر بحث کرنا اور اس پر عمل پیرا ہونا واجب ہے۔ یہاں ایک سوال ذہنوں میں آتا ہے کہ یہ اتنا اہم ترین خدائی فیصلہ، اہم ترین اعلان منٰی میں خطبہِ حجۃُ الوداع میں ہی کیوں نہ کر دیا گیا؟! جی ہاں! اسی سوال میں جواب بھی پوشیدہ ہے، چونکہ اعلانِ ولایتِ علی ابن ابی طالب ایک غیر معمولی اعلان ہے، اس کی اہمیت کے پیشِ نظر منٰی کے بجائے غدیر کے مقام کو چنا گیا، تاکہ اس کی اہمیت ثابت ہو اور یہ مسئلہ علیحدہ رہے۔ 59 ہجری میں فرزندِ رسول امام حسین علیہ السلام نے عالمِ اسلام کی سرکردہ شخصیات، علماء، اہلبیت، اصحابِ رسول اور تابعین کو دعوت دی کہ اس سال حج پر لازمی شرکت کریں! تاریخ میں ہے کہ اس موقع پر تابعین کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ دو سو اصحابِ رسول نے بھی شرکت کی۔ اس طرح کم و بیش ساڑھے سات سو شرکاء امام کی دعوت کے نتیجے میں حاضر ہوئے۔
امام حسین علیہ سلام نے اس کانفرنس میں اپنے حقِ ولایت کی دلیلیں دیتے ہوئے رسول اللہ سے اپنی قرابتداری کو قرآنی آیات، رسول اللہ کے فرامین اور امیرالمومنین کے رسول اللہ کے ساتھ کچھ واقعات کی روشنی میں قربت کو بیان فرمانے کے بعد حکومتِ وقت اور امیر شام کے مظالم کو بیان کیا اور ظلم کے خلاف اٹھنے اور ان مظالم کو لوگوں کے سامنے آشکار کرنے کا حکم دیا۔ لہذا امام حسین علیہ السلام کا حج کے موقع پر حکومتِ وقت کے مظالم اور خیانتوں کو آشکار کرنا ایک اہم دلیل ہے کہ حج ایک سیاسی پہلو رکھتا ہے، جو بنو امیّہ اور بنو عباس کی سازشوں کی زد میں آکر متروک ہوچکا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کا اقدام سورہ برأت کا تسلسل اور واقعہ غدیر کا احیاء ہے۔امام حسین ابن علی کی اس کانفرنس کے اگلے ہی سال، جب امیر معاویہ وفات پا چکے تھے اور یزید ابن معاویہ تخت نشین ہوچکا تھا، نیز نواسہ رسول کو بیعتِ یزید پر مجبور کرنے کا منحوس عمل شروع کیا جا چکا تھا۔ اب امام حسین علیہ سلام مدینہ چھوڑ کر مکہ تشریف لے جاتے ہیں اور وہاں سے اپنی انقلابی سیاسی تحریک کا آغاز کرتے ہیں۔
امام حسین اور انسانی ضمیر
امام حسین ابن علی نے عالمِ اسلام کے ضمیروں کو جھنجھوڑا اور مختلف شہروں میں اپنے سفیر روانہ کئے۔ امام حسین علیہ السلام کا آخری انقلابی قدم اُس وقت سامنے آیا، جب امام آٹھ ذی الحجہ کو احرامِ حج کو عمرہِ مفردہ میں تبدیل کرکے کوفہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے، (البتہ آیت اللہ جوادی آملی حفظہُ اللّہ کے بقول خاندانِ امام حسین نے مدینہ سے مکہ کی جانب سفر کے آغاز میں ہی عمرہِ مفردہ کی نیت کرلی تھی، حجِ تمتع کا قصد نہیں کیا تھا)(حوالہ: اُسرارِ حج, تالیف حضرت آیت اللّہ العظمٰی عبداللہ جوادی آملی, صفحہ 206) بہرحال یہ وہ موقع تھا کہ جب متعدد علاقوں سے عازمینِ حج کے کاروان جوق در جوق واردِ مکہ ہوچکے تھے، جبکہ امام حسین ابن علی ایک مختصر جماعت کے ساتھ حج سے ایک دن پہلے مکہ سے روانہ ہو رہے تھے۔
لمحہِ فکریہ
لمحہِ فکریہ یہ ہے کہ امام حسین ابن علی ماہِ شعبان سے آٹھ ذیقعدہ تک چار ماہ اور کچھ دن مکہ میں رہے!؟ اگر چاہتے تو آٹھ ذوالحجۃ سے پہلے یا کم از کم یکم ذوالحج کو ہی مکہ چھوڑ دیتے، مگر آپ نے ایسا کیوں نہ کیا؟!! لیکن سوال یہ ہے کہ فرزندِ زہراء نے آٹھ ذوالحج کو حج سے صرف ایک دن پہلے ہی مکہ کیوں چھوڑا؟ فرزندِ رسول کا یہ پُرحکمت سیاسی عمل یہی پیغام دے رہا ہے کہ حج ہی ایسا بہترین موقع ہے کہ جب بھی کوئی بڑا سیاسی قدم اٹھانا ہے تو اسی الہیٰ تقریب، عالمی کانفرنس سے ہی فائدہ اٹھانا ہوگا۔ امام حسین ابن علی کا یہ اقدام سورۃِ برأت کے واقعہ کی مانند ہے۔ وہاں ارادہِ الہیٰ یہ تھا کہ دنیا کے مختلف گوشوں سے آئے ہوئے مہمانانِ خدا سورۃِ برأت کی شکل میں حکمِ خدا اپنے اپنے علاقوں میں لے کر جائیں، وہاں جو لوگ حج پر نہیں آئے تھے، اُن تک یہ حکمِ الہیٰ پہنچ جائے۔ یہاں بھی ارادہِ حجتِ خدا یہی ہے کہ امام کا یہ اہم سیاسی اقدام حج پر نہ آنے والے لوگوں تک ایک پیغام کی شکل میں پہنچ جائے۔ آئے ہوئے حجاج اِرادی یا غیر اِرادی طور پر سفیرِ حسین بن علی بن جائیں۔
عصرِ حاضر
اگر ہم آج کی بات کریں تو جیسے پہلے بیان کیا چکا ہے کہ حج کی روح، اموی اور عباسی ادوار میں نکال لی گئی تھی اور حج ایک خانقاہی عبادت کی شکل اختیار کرچکا تھا اور آج بھی یہی صورتحال ہے۔ کچھ علماء اور اسکالرز نے حج کے سیاسی پہلو کو حج کے عظیم اجتماع سے جوڑا ہے، ان کے نظریئے کے مطابق حج کا عظیم الشان اجتماع دنیائے کفر و طاغوت پر مسلمانوں کی سیاسی ہیبت بٹھانے کا ایک مظہر ہے۔ یہ نظریہ درست تو ہے، لیکن عملی طور پر اُس وقت پُر اثر ہوسکتا ہے، جب روحِ حج موجود ہو اور حاجی حضرات اس روحِ حج کے اثرات لے کر اپنے اپنے علاقوں میں جائیں اور اگر حج میں روح ہی نہ ہو تو یہ اجتماع ایک “ریوڑ” سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ جس طرح ایک موقع پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی کو حاجیوں کے اجتماع کی اصل شکل دکھا دی تھی۔
اس صدی کے عظیم فرزندِ اسلام آیت اللہ العُظمٰی امام روح اللہ موسوی الخمینی رضوان اللہ نے اس اہم اجتماعی، عبادی اور سیاسی عبادت کے اوپر سے اموی اور عباسی گرد و غبار اتار کر ایک بار پھر حج کو نابِ محمدی کے مطابق بنا دیا، یعنی حج کو اُس کی اصلی شکل دے دی۔ امام خمینی حج کے سیاسی پہلو کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ: “اسلام میں موجود عید الفطر، عید الاضحیٰ، حج، مقاماتِ حج، نماز جمعہ و جماعت اور روز و شب کی باجماعت نمازوں جیسے امور اور مواقع عبادی پہلو بھی رکھتے ہیں اور سیاسی و اجتماعی پہلو بھی۔” حجاج کرام سے خطاب کرتے ہوئے اپنے پیغام میں فرماتے ہیں کہ: “حجاج محترم کو جاننا چاہیئے کہ ابراہیمی و محمدی حج سالہا سال سے غریب الوطن اور متروک ہے۔ اس کے معنوی و عرفانی اور سیاسی و اجتماعی پہلو متروک ہیں۔
تمام اسلامی ممالک کے حجاج کرام کو چاہیئے کہ خانہ ٴخدا کے ان تمام پہلوؤں کا تعارف کرائیں۔ اس کے عرفانی و روحانی اَسرار کا تعارف کرانا حجاج کے ذمہ ہے۔ ہمارا موردِ بحث پہلو اس کا سیاسی اور اجتماعی پہلو ہے۔ یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ ہم اس کے سیاسی پہلو سے کوسوں دور ہیں۔ اس “نقصان” کی تلافی کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت پر منعقد کی جانے والی یہ سراپا سیاسی، کانفرنس کہ جس میں دنیا کے گوشہ و کنار سے لوگ جمع ہوتے ہیں، انسانوں کے فائدے اور عدل و قسط قائم کرنے کے لئے ہے۔” امام راحل مزید فرماتے ہیں کہ: “فرض شناس، بیدار اور دل سوز افراد، اسلام کی غربت کے پیش نظر اور احکام اسلام سے اس سیاسی پہلو کے متروک ہو جانے کے خطرے کے پیش نظر، خصوصاً حج کے دوران کہ جہاں یہ پہلو زیادہ نمایاں اور ظاہر ہے، اٹھ کھڑے ہوں اور قلم، بیان، گفتار اور تحریر کے ذریعے جدوجہد کریں۔
حج کے ایام میں اس کی زیادہ کوشش کریں، کیونکہ ان مراسم کے اختتام پر دنیا کے مسلمان جب اپنے شہروں اور علاقوں کی طرف لوٹتے ہیں تو وہ اس عظیم پہلو کو مدِنظر رکھتے ہوئے وہاں کے مسلمانوں اور دنیا کے مظلوموں کو بیدار کرسکتے ہیں۔ امن کے دعویدار ستمگروں کے روز افزوں ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لئے انہیں حرکت اور انقلاب کے لئے تیار کرسکتے ہیں۔” (حوالہ کتاب حج امام خمینی کی نظر میں) امام خمینی بت شکن نے یہ صرف زبانی باتیں نہیں کی ہیں بلکہ عملی مظاہرہ کیا ہے۔ امام خمینی نے حکمِ خدا کے عین مطابق حجاجِ کرام کو حج کے موقع پر مکہ میں وقت کے طاغوتوں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف عوامی مظاہروں کی شکل میں اعلانِ برأت کی ہدایت فرمائی۔ لیکن ظاہر ہے کہ طاغوت کو مسلم اُمہ کی یہ بیداری پسند نہیں آئی، وہ تو اُسی اموی اور عباسی ادوار کے بے روح طریقہِ حج کے عادی تھے۔
چنانچہ 31 جولائی 1987ء کو ایرانی حاجیوں کے ساتھ کچھ اور اقوام کے حاجیوں نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف عوامی مظاہرہ کیا، لیکن سعودی فورسز ان اللہ کے مہمانوں پر ٹوٹ پڑیں، جس کے نتیجے میں تقریباً چھ سو حاجی شہید ہوگئے۔ لیکن شہداء کی ڈالی ہوئی یہ رسم 1987ء سے آج تک زندہ ہے۔ امام خمینی رضوان اللہ نے اس موقع پر فرمایا تھا کہ: “زائرینِ بیت اللّہ کا قتل استکباری سیاستوں کی حفاظت اور خالص محمدی اسلام کا نفوذ روکنے کے لئے ہے۔” راقم نے اس تحریر میں حکمِ خدا، عملِ رسول اللہ اور امام حسین ابن علی کے حج کے موقع پر سیاسی اقدامات سے لے کر دورِ حاضر میں امام خمینی رضوان اللہ۔۔۔ تک کے اقدامات کو بیان کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حج عبادی اور اجتماعی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی پہلو بھی رکھتا ہے اور یہ پہلو سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ حج کے اس اہم ترین پہلو کو ترک کرنے کی وجہ یہی ہے کہ ایک عام مسلمان میں کسی طور پر بھی سیاسی بیداری نہ آنے پائے۔ ایک عام مسلمان سیاست کو دین سے الگ ہی سمجھتا رہے، کیونکہ اسی میں طاغوت کی عافیت ہے۔
امام خمینی فریضہِ حج کے عبادی اور سیاسی پہلو کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ: “صرف عالمِ دین کو نہیں, بلکہ سب گروہوں کو سیاست میں حصہ لینا چاہیئے۔” وہ فرماتے ہیں کہ “سیاست مال و دولت کی طرح کوئی موروثی چیز نہیں ہے، اسی طرح یہ کوئی پارلیمنٹ یا بعض خاص افراد سے بھی مختص نہیں، بلکہ سیاست کا معنی “کسی ملک کی چیزوں کی وضعیت کے پیشِ نظر اس ملک کا نظام چلانا ہے۔”
کیا امام خمینی کا نظریہِ حج خود ساختہ ہے
امام خمینی رضوان اللہ کا نظریہ اُن کا خود ساختہ نہیں بلکہ حکمِ قرآنی کے عین مطابق ہے اور حج کے اس اہم پہلو کو بھلا کر فریضہِ حج کی ادائیگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔
حج کا سیاسی پہلو اور امام زمانہ
امامیہ کا عقیدہ ہے کہ حج کے موقع پر خدا کی آخری حجت امام زمانہ ضرور تشریف لاتے ہیں، کون امامِ زمان؟ جو ولی العصر ہیں، جنہوں نے امام علی کی شہادت کے بعد ولایت (حکومت) کے ٹوٹے ہوئے سلسلے کو دوبارہ جوڑنا ہے، ایسا سلسلہ جو دوبارہ نہیں ٹوٹے گا۔ تا قیامت خلیفۃُ اللّہ کی حکومت قائم رہنی ہے۔ امامِ عصر کی ولایت جو علی ابن ابی طالب کی ولایت ہے، جو رسول اللہ کی ولایت ہے، جو اللہ کی ولایت ہے، اس کو قائم ہونا ہے اور باقی رہنا ہے اور امامِ عصر کا ظہورِ پُرنور بھی مطاف میں دیوارِ کعبہ کے ساتھ ہونا ہے۔ یعنی مقامِ حج سے ہی الہیٰ سیاسی حکومت کا آغاز ہونا ہے، جس کا مشاہدہ دنیا کرے گی۔ یعنی دنیا کی نئی سیاسی زندگی کا آغاز مرکزِ حج سے ہی ہوگا۔

Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں