توہین مذہب یا ذاتی دشمنی/مہناز رحمٰن

توہین مذہب یا بلاسفیمی کے قانون کے غلط استعمال کے حوالے سے ایک عرصہ سے بحث چلی آ رہی ہے لیکن پاکستان میں سماجی، اقتصادی اور سیاسی مسائل کی اتنی بھر مار ہے کہ ہم خود کو ایک مسئلے کو چھوڑ کر دوسرے مسئلے کے پیچھے بھاگنے پر مجبور پاتے ہیں،مگر جب توہین مذہب کے الزام میں ہجوم کی وحشت اور قتل و غارت گری کا کوئی نیا واقعہ پیش آتا ہے تو ایک مرتبہ پھر با شعور لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ مذہب کے نام پر لاوڈ اسپیکر پر نفرتیں پھیلانے ،جھوٹے الزامات لگانے اور جذباتی عوام کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر اُکسانے کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔

وکی پیڈیا کے مطابق1947سے 2021 تک توہین مذہب یا بلاسفیمی کے الزام میں 89 پاکستانیوں کا ماورائے عدالت قتل ہو چکا ہے۔جن میں سلمان تاثیر ، شہباز بھٹی، ہائی کورٹ جسٹس عارف وقار بھٹی جیسی ہائی پروفائل شخصیات بھی شامل ہیں۔

16 اگست 2023 کو فیصل آباد کی کرسچن کمیونٹی کے دو ارکان پر توہین مذہب یا بلاسفیمی کا الزام لگایا گیا ، سینکڑوں افراد نے ان کی بستی پر حملہ کر دیا۔اور مکینوں کے جان و مال کو نقصان پہنچایا۔ اسی طرح اگست 2023 میں کراچی میں کلام پاک کی بے حرمتی کے الزام میں کرسچن آبادی پر حملہ کیا گیا اور چرچوں   کو جلا دیا گیا ۔ 2018 میں لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس میں ملازمت کرنے والے نوجوان آرٹسٹ قطب رند کو ان کے مالک مکان نے بلاسفیمی کے جھوٹے الزامات لگا کر قتل کر دیا ۔پولیس کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ جھگڑا کرایہ کا تھا اور مالک مکان بلاسفیمی کے قانون کے پیچھے چھپ کر سزا سے بچنے کی کوشش کر رہا تھا۔

ہمیں یہ سارے واقعات ستر سالہ نذیر مسیح کی اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں وفات پانے کی خبر سن کر یاد آ رہے ہیں۔انہیں مئی 2024 میں سرگودھا میں ایک ہجوم نے بلاسفیمی کے الزام میں تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔انہیں اسلام آباد کے ہسپتال میں داخل کیا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے،ایچ آر سی پی کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کا کہنا ہے کہ نذیر مسیح اور ان کے اہل خانہ کو ذاتی دشمنی کی بنا پر ٹارگٹ کیا گیا مگر پھر اسے توہین مذہب کا رنگ دے دیا گیا۔۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اب تو پاکستان میں واٹس ایپ پر کوئی پیغام بھیجنے کے بھی خوف ناک نتائج رونما ہو سکتے ہیں۔ چند ہفتے قبل پنجاب کے ضلع گجرات میں ایک 22 سالہ طالب علم کو مذہبی حوالے سے توہین آمیز تصویریں اور ویڈیوز شیئر کرنے کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی۔ اسی الزام میں ایک سترہ سالہ طالب علم کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

ملتان میں یونیورسٹی کے پروفیسر جنید حفیظ بلاسفیمی کے الزام میں قید ہیں، کوئی وکیل ان کا مقدمہ لڑنے کو تیار نہیں کیونکہ ان کے پہلے وکیل راشد رحمٰن کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اگر تاریخی طور پر اس قانون کا جائزہ لیں تو سب سے پہلے 1927 میں انگریزوں نے ہندو مسلم کشیدگی کو کم کرنے کے لئے توہین مذہب یا بلاسفیمی کا قانون بنایا تھا۔ ویسے تو انگریزوں نے 1860 سے ہی مذہب کے حوالے سے جرائم کو قانونی نظام کا حصہ بنا دیا تھا۔ پاکستان کو یہ قانون ورثے میں ملا اور ضیا الحق کے دور میں 1986 میں پاکستان پینل کوڈ میں دفعہ 295 بی اور سی کا اضافہ کیا گیا۔اور قرآن مجید کی بے حرمتی اور ناموس رسالت کی توہین پر سزائے موت اور عمر قید کی سزا مقرر کی گئی۔

1985 تک بلاسفیمی کے مشکل سے ایک درجن مقدمات رپورٹ ہوئے تھے،مگر 1986 کے بعد سے اب تک ہزاروں مقدمات درج کرائے جا چکےہیں۔ سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے لئے سب سے تشویش ناک بات یہ رہی ہے کہ بلاسفیمی کے الزام پر مشتعل ہجوم قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور عدالتی کارروائی سے پہلے ہی ملزم کو ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ اگر مقدمہ سیشن کورٹ میں جاتا بھی ہے تو جج حضرات عوامی دباؤکے پیش نظر موت کی سزا سنا دیتے ہیں مگر ہائی کورٹ میں اپیل کرنے پر اس سزا پر نظر ثانی کی جاتی ہے۔

julia rana solicitors london

بہر حال اس وقت سب سے بڑا مسئلہ اس قانون کے غلط استعمال کو روکنا ہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ جھوٹا الزام لگانے والوں کو کڑی سزا دی جائے اور سادہ لوح عوام کو اشتعال دلانے اور انہیں تشدد پر اُکسانے والوں کی نشان دہی کی جائے اور انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply