فکری اشتغال رکھنے والے افراد کے ہاں ان کے فکر کی مجازی دنیا ایک حقیقت بن جاتی ہے، جس کے خلاف کھلے حقائق تسلیم کرنے پر ذہن آمادہ نہیں ہو پاتا۔ اس فریب نظر کی متعدد دلچسپ اور عبرت انگیز مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً، یہ کہ
مذہب سائنسی ترقی میں ایک رکاوٹ ہے۔ مذہب ہوگا تو سائنسی ترقی نہیں ہو سکتی۔ اس بیان کا حقائق کی دنیا سے تجزیہ کیجیے۔ دنیا کے کسی بھی ملک کی طرح ہر مذہبی سماج میں، بشمول ہمارے ہاں، یونیورسٹیوں میں سائنس کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ شعبہ جات سائنسی تعلیم کے طلب گاروں سے معمور ہیں۔ سائنس مخالف مذہبی بیانیے اہل ایمان کو سائنس کی تعلیم سے روک نہیں پاتے۔ البتہ، جو افراد سائنس مخالف بیانیوں سے متاثر ہوتے ہیں صرف وہی سائنس کی تعلیم حاصل نہیں کرتے۔ مگر کیا سائنسی ترقی انھیں چند لوگوں نے روک رکھی ہے؟ سائنس کی تعلیم کے باوجود سائنس کی ترقی نہ ہونے کی وجہ وہی نالائقی ہے جس کی وجہ سے مذہب و فلسفے، الحاد اور سائنس میں بھی دوسرے اور تیسرے درجے کی ذہانتیں مختلف شگوفے کھلاتی رہتی ہیں، جج اور جرنیل الٹے سیدھے فیصلے کرتے ہیں، ڈاکٹر مریضوں کی جان لے لیتے ہیں۔ اس نالائقی کی وجہ کیا ہے یہ یہ الگ تجزیے کا متقاضی ہے۔
اس فریب نظر کی ایک اور مثال یہ ہے کہ مذہب کی پیش کردہ آخرت کی تعلیم سے دنیا میں دل چسپی کم ہو جاتی ہے، اس لیے مادی ترقی نہیں ہو رہی۔
اب اہل مذہب کے حالات دیکھیے۔ ماضی میں ان کی قائم کردہ عظیم سلطنتوں کے احوال پڑھیے، موجودہ دور میں اہل جبہ و دستار کا رہن سہن دیکھیے، عام مسلمانوں کی دنیا پرستی پر نظر ڈالیے، اپنے مفادات کی خاطر ان کی بدیانتی ملاحظہ کیجیے اور پھر سوچیے کہ فکر آخرت ان میں سے کسی کام سے نہ روک سکی تو صرف ترقی کرنے سے کیسے روک رہی ہے؟ ایسے چند افراد البتہ ہوتے ہیں جو فکر آخرت کے غلبے میں دنیا سے بے رغبت ہو جاتے ہیں، مگر پھر وہی سوال ترقی سے چند بے عمل لوگوں نے روک رکھا ہے؟
ہمارے ہاں ترقی نہ ہونے کی وجہ فکر آخرت کا کوئی غلبہ نہیں، مثبت رویوں کا فقدان ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کا تجزیہ سنجیدگی کا متقاضی ہے۔
ہر مسئلے کا حل اور ہر مسئلے کی جڑ مذہب میں تلاشنا سادہ اور پرجوش کوتاہ فکری ہے۔
فریب نظری کی انتہا کو پہنچے ہوئے آپ کو بتائیں گے کہ
ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد
عالم تمام حلقہء دام خیال ہے
ان کے مطابق، ان کا وجود ہی ثابت نہیں تو دیگر وجودی حقائق کیسے ثابت کیے جا سکتے ہیں۔ پھر وہ یہ بھی بتائیں گے کہ زبان بھی قطعی نہیں ہوتی کہ ابلاغ معنی کا کوئی یقین پیدا کر سکے۔ اور دوسرے لمحے ہی وہ دنیا کے ہر مسئلے پر بات کریں گے، مگر یہ ثابت کیے بغیر کہ وہ کوئی وجود رکھتے ہیں۔ ناچیز، اچانک چیز کیسے بن گئے؟ اور وہ کوئی ایسی وجودی حقیقت اپنے اندر محسوس کرتے ہیں تو دوسرے پر اپنا وجود ثابت کیے بغیر کوئی بات کیسے کر سکتے ہیں ؟ پھر اسے ثابت کرنے کے لیے زبان کا واسطہ کیوں کر اختیار کر سکتے ہیں، کیوں کہ زبان ان کے کہے کا ابلاغ کر پا رہی ہے یا نہیں، وہ بھی قطعی نہیں۔ ان کے پاس سوائے صم بکم عمی رہنے کے کوئی راستہ نہیں بچتا۔
فکری غلبے کا یہی حملہ تھا جس نے تقسیم ہند کروا ڈالی تھی۔چند تعلیم زدگان کو مغرب سے درآمدہ وطنی قومیت اور پھر مذہبی قومیت کا نظریہ لڑ گیا تھا۔ ان کے نزدیک ہندستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہندو اور مسلم کی علیحدگی تھی۔ ان دس فیصد سے بھی کم تعلیم زدہ لوگوں نے جماعت سازی اور فرقہ بازی کر کے اس خطے کے دو ٹکڑے کر وا دیے۔ عام آدمی کی کیا ترجیحات تھیں؟ یہ کسی نے اس سے پوچھا ہی نہیں اور ایک دن اچانک اسے معلوم ہوا کہ اسے اپنا آبائی گھر اور وطن چھوڑ کر دیار غیر جانا ہے۔ وہ لٹ پٹ کر جب اجنبیوں کے درمیان آیا تو اسے شاباشی دی گئی کہ آپ نے ملک کی خاطر بہت قربانی دی۔
قومیت کی نئی شناخت گھڑنے والوں کو لگتا تھا کہ مسلمانوں پر جب مسلمان حکومت کریں گے تو اچھا لگے گا۔ ان کی کوئی مذہبی شناخت ایسی ہے جو ان کی حکومت کے بغیر محفوظ نہیں رہ سکتی۔
دو قومی نظریے کو اس طرح پڑھایا گیا کہ وہ چپقلش جو درحقیقت، کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ اور اس کے سیاسی کارکنوں کے درمیان تھی، اسے تمام ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک قومی مسئلہ بتایا گیا۔ دہائیوں کی محنت لگا کر نصاب سازی اور سیاست بازی کے ذریعے سے نئی نسلوں کو بالآخر باور کروا لیا گیا کہ دو ملک دو قوموں کے درمیان جھگڑے کے نتیجے میں بنے، اس لیے انھیں اب جھگڑتے رہنا چاہیے۔
پی ٹی آئی کے لوگ بھی فریب نظری کا شکار ہیں۔ ان کے مطابق، کہ اس وقت ملک میں بدترین آمریت کا دور ہے۔ ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ۔حالانکہ یہ سب جو بھی ہو رہا ہے پی ٹی آئی کے ان کارکنان کے ساتھ ہو رہا ہے جنھوں نے ہنگاموں میں حصہ لیا تھا۔ ان کے پر امن افراد اور پورے پاکستان کے لوگوں کو ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔ وہ معمول کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مگر سیاسی نظریے حقیقت پر غلبہ پا لیتے ہیں۔ ماضی میں ایسا ہی معاملہ علویوں اور فاطمیوں کے سیاسی طور پر متحرک افراد اور ان کے پیروکار شیعوں کا تھا۔ صرف یہی لوگ حکومت کی پکڑ دھکڑ کا شکار رہتے تھے۔ مگر تاریخ میں اس بات کو ایسے بیان کیا جاتا ہے کہ بنو امیہ نے ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ عام لوگ اپنی جان اور عزت بچاتے پھرتے تھے۔ حالانکہ صرف سیاسی لوگوں کا یہ حال تھا۔ عوام معمول کی زندگی گزارتے تھے۔ مگر تحریکی، انقلابی اور مثالیت پسند اذہان ایسے بیانیوں سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔

اسی طرح کے بیانیے ہیں جو بتاتے ہیں کہ دنیا میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے اور ادھر الحاد کی وش فل گمان سمجھتا ہے کہ سائنس نے مذہب کی بساط لپیٹ دی ہے۔ حالانکہ یہ سب چند مخصوص حلقوں میں ہو رہا ہوتا ہے، یا زیاد تر اپنے فکر کی دنیا میں، جہاں سے ملنے والے تاثرات کو حقیقی اور عمومی سمجھ لیا جاتا ہے، ایسے ہی جیسے سوشلزم نے سرمایہ داری کے ایوان منہدم کر دیے تھے اور مغربی تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کر لے گی، مگر یہ انہدام اور خود کشیاں فقط رومان پسند طبائع کی ذہنی دنیا ہی میں واقع ہوتی ہیں۔ من کی ایسی ہی تمنائیں کچھ خواب بینوں اور خواب فروشوں کے ہاں کشف و الہام بن کر نازل ہوتی ہیں۔
آخر میں بس اتنا ہی کہ
اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں