• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ذوالحجہ سے پہلے ناخن اور داڑھی بنوالیں۔۔ لیکن گردنیں کاٹتے رہیں/سلیم زمان خان

ذوالحجہ سے پہلے ناخن اور داڑھی بنوالیں۔۔ لیکن گردنیں کاٹتے رہیں/سلیم زمان خان

ہر بڑی عید پر مجھے جب فیس بکی مسلمانوں کی ترغیب بلکہ سر توڑ کوشش نظر آتی ہے کہ ” جنہوں نے قربانی کرنی ہے فلاں دن سے پہلے اپنے ناخن اور بال ترشوا لیں “اور یہ پیغام دین کا ایک اہم فرض پورا کرنے سے بھی زیادہ شد و مد سے پھیلایا جاتا ہے تو مجھے اپنی زندگی پر گزرے چند واقعات بہت شدت سے یاد اجاتے ہیں۔

میں نیا نیا ایام جاہلیت سے نکلا تھا اور ابھی تازہ تازہ اسلام قبول کیا تھا ( مسلمان میں پیدائشی ہوں الحمدللہ ،لیکن اسلام قبول میں نے شاید 30 سال کی عمر میں کیا) ۔تو چند کتابیں پڑھنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ نبی کریمﷺ بڑی عید پر قربانی کا گوشت کر خوراک کا آغاز فرماتے، اور اسی طرح بال اور ناخن نہ کاٹتے جب تک قربانی نہ فرما لیتے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ پہلے تو بال اور ناخن نہیں کاٹنے پھر ایک رات پہلے قصائی کو پیسے دے آیا کہ صبح جلدی آ کر ہماری قربانی کاٹ دے۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ قصائی صبح نہیں ایا۔۔ اور اس کی انتظار میں دوپہر ہو گئی میں نے کچھ نہیں کھایا۔۔ اور یہ سوچا کہ مومن پر ابلیس نے شیطانی وار کیا ہے اور آزمائش کی گھڑی ہے ۔ اب قربانی کے گوشت سے ہی کھانا کھاوں گا ورنہ نہیں ۔ میری بیگم صاحبہ ایک پریکٹیکل مسلمان ہے۔ روزہ نامزد اور عبادت کو اہم جانتی ہے اور جو اچھا وہ کر سکتی ہے کرتی ہے۔  اسے میرا یہ والا عمل کھٹکا۔۔ کیونکہ اس کی نظر میں شیطان عید پر روزہ رکھتا ہے، حالانکہ اسے میں نے سمجھایا بھی کہ یہ روزہ نہیں آزمائش ہے۔  اس نے میرے استاذ محترم کو دوپہر دو بجے فون کر دیا کہ ” آپ کا بالک، روحانیت میں باولا ہو گیا ہے  اور کچھ کھا پی نہیں رہا کہ قربانی سے کھاؤں گا  اور پھر ناخن اور داڑھی بناؤں گا۔ ” تو بابا جی نے بیگم کو تسلی دی اور   اسے کہا کہ فون ذرا اعلیٰ  حضرت کو دیں ۔ وہ فون مجھے تھما کر چلی گئی  تو سلام دعا کے بعد ایک عجیب نشہ و مستی کی کیفیت میں انہیں بتایا کہ آج ابلیس سے جنگ چل رہی ہے۔  میری استقامت کی دعا فرمائیں!  انہوں نے دعا دی  اور پھر پوچھا ۔۔ بچے ! یہ جو تم کھا نہیں رہے اور ناخن اور بال بنائے بغیر ماتمی انداز میں عید منا رہے ہو ، یہ فرائض اسلامی میں سے ہے؟۔ میں سمجھ گیا کہ آج حضرت صاحب کچھ خاص ارشاد فرمانے لگے ہیں۔  میں نے عرض کی،  نہیں حضور یہ فرائض میں سے نہیں ہے۔ پھر بولے واجب ہے کہ جس کی قضا گنہگار کر دے ، میں نے انکار کر دیا، پھر بولے سنت موقدہ میں سے ہے؟ میں نے کہا نہیں حضور۔۔ پھر بولے نوافل میں سے ہے؟  میرا پھر انکار تھا کہ حضور یہ مسنون عمل ہے۔  تو وہ بولے اچھا اچھا ، یعنی کریں تو بہتر نہ کریں تو کوئی گناہ نہیں؟ میں خاموش ہو گیا۔  دوسرے جانب سے ان کی دھاڑ آئی۔۔ اُلو کے پٹھے جواب دو!  میں نے گھبرا کر صرف سیٹی جتنا ” جی” نکالا،تو پھر سے بولے،  فجر کی نماز پر اُٹھے تھے اور جماعت سے پڑھی تھی ؟؟ میرا جواب ۔۔ نہیں رات دیر تک دوستوں کے ساتھ رہا اور کباب بنانے کا سامان خریدتے دیر سے سویا ۔ وہ بولے عشاء بھی نہیں پڑھی؟  میرا جواب” نہیں “میں تھا ۔ بولے صبح قبرستان گئے تھے ماں اور باپ کی قبر پر فاتحہ کے لئے   کہ وہ اس عمل سے افضل عمل تھا؟۔  میں نے منمنی سی  آواز میں کہا وہ قصائی کے انتظار میں نہ جا سکا۔ پھر بولے یہ دنبہ جو تم لیا ہے،یہ چُھٹی کے دن لیا تھا یہ دفتری اوقات میں شاپنگ پر گئے تھے؟ ۔ میرا جوا ب دفتری اوقات میں گیا تھا ۔ بولے ایک دن کی کمائی حرام ہو گئی نا؟  میں خاموش ہو گیا۔۔ بولے ، تم جس دفتر میں کام کرتے ہو،  وہاں عید کے دنوں میں عید ی لینے کا رواج ہے جو دراصل رشوت ہے مگر عیدی کا نام دے دیا ؟ جی۔۔ میں نے عرض کی۔۔ بولے کتنی عیدی بنائی تم نے اس مرتبہ؟ حضور زیادہ نہیں بہت سے لوگوں کا مفت میں کام کیا غریب تھے۔  صرف جو دے سکے ان سے ملی؟ وہ بھی 12 ہزار۔۔ صرف۔۔ وہ بولے۔۔ جی۔۔ یہ دنبہ کتنے کا آیا ہے؟  میں نے جواب دیا حضور 5 ہزار کا۔  وہ بولے باقی پیسوں کا کیا کیا؟؟ میں نے کہا بابا جی، میں نے وہ پیسے گھر اور عید کے خرچ کے لئے رکھ لئے قربانی تو خالص اپنی تنخواہ سے لایا ہوں۔ انہوں نے ایک قہقہہ لگایا، بولے تم ٹھیک چل رہے ہو۔  لوگوں کو اذیت دے کر ان کا کام نہ کر کے ان سے زبردستی پیسے لینے کے بعد تم حق حلال کی تنخواہ سے دنبہ لائے ہو؟ اچھا یہ بتاؤ یہ دنبہ ہی کیوں ؟ بکرا کیوں نہیں۔۔ تو وہیں میں نے سوچا شاید اب بچت ہو جائے، تو بتایا کہ حضرت اسماعیل کی جگہ اللہ نے دنبہ بھیجا تھا نا۔ تو بابا جی کی غراہٹ مجھے فون کی دوسری جانب سنائی دی ، بولے وہ ابراہیم علیہ السلام کا ایمان دیکھا جا رہا تھا  اور اللہ نے ان کے ایمان کے بعد فرمایا کہ ان کا دل مکمل اللہ کا ہی تھا، یعنی اس میں نہ کسی کا کینہ ،نہ بغض، نہ رشوت، نہ حق تلفی پھر اللہ کریم نے ان کی قربانی قبول کر لی  ،تمہارے محکمہ میں عید اور رمضان میں خاص طور پر چھوٹے ٹھیکیداروں کو بلوا کر جھوٹی سڑک ،جھوٹے پل ،جھوٹی دیواریں اور مرمت کے بل اس لیے بنوائے جاتے ہیں کہ رمضان میں ان پیسوں سے جو ٹھیکیدار دے گا عمرہ اور حج و قربانی کی جا سکے۔ یہ تم لوگ جن کا خون چوس کر جن کا حق مار کر یہ سعادت حاصل کرتے ہو نا،قیامت کے دن یہ مشقتیں تمہاری انہیں میں بانٹ دی جائیں گی ۔ دیکھو سب سے پہلے فرائض ہیں پھر سنتیں پھر نوافل پھر مستحب ، مسنون ہیں ۔ ہم ایسے بیوقوف لوگ ہیں کہ الٹا چلتے ہیں ہماری زندگی میں جس چیز کی سب سے آخری جگہ ہے وہ فرائض ہیں جس کا قرآن اور اللہ کے رسول کریمﷺ کے فرمان کے مطابق ان کی قضاء سزا کا باعث ہے۔  ہم سب سے بڑا فرض جسے سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ وہ صرف نماز ہے، حالانکہ جھوٹ نہ بولنا بھی فرض ہے ،ناپ تول میں کمی نہ کرنا بھی فرض ہے، ذخیرہ اندوزی نہ کرنا بھی فرض ہے۔ رشوت نہ لینا بھی فرض ہے۔  اپنے کام کو اپنے وقت میں انجام دینا بھی فرض ہے۔ اخلاق سے پیش آنا بھی فرض ہے۔ گالی نہ دینا بھی فرض ہے۔ اب اگر ان سب کاموں کو کرتے ہوئے تم سے مسنون یا مستحب یا نوافل رہ جائیں گے تو جن کی خدمت تم نے کی ہو گی ان کی دعائیں تمہارے کام آئیں گی ۔ ورنہ تمہارے یہ موٹے موٹے جانور جنہیں تم نے کالے سفید پیسے سے خرید کر اپنے محلے میں اپنے تکبر اور فخر کا باعث بنایا ہے۔ یہ ان شاء اللہ انہی کو دے دیا جائے گا جن کا حصہ مار کر تم نے یہ پیسے بنائے تھے اب چاہے تم تاجر ہو ملازم ہو سیاستدان ہو یا استاد، جواب فرائض کا دینا پڑے گا۔  یاد رکھنا جن کو فرائض کی فکر نہیں ان کے مسنون اور مستحب بھی اللہ کو منظور نہیں۔کسی ایک سال رمضان میں یا 10 دن ذوالحجہ کے ایمانداری کر کے لوگوں کی خدمت کر کے ،رشوت نہ لے کر حق نہ مار کر دیکھو اگر ایمان کی تازگی اور خوشبو دل میں نہ محسوس ہو اور تمہارے دن نہ پھر جائیں تو جو چور کی سزا وہ مجھے دینا۔ تمہارا حال بھی کوفیوں جیسا ہے جب انہوں نے امام زین العابدین سے فتویٰ  مانگا، نا کہ اگر کپڑوں پر مچھر کا خون لگ جائے تو نماز ہوتی ہے۔۔ تو کہا جاتا ہے امام کی آنکھوں میں آنسو آئے اور انہوں نے تاریخی الفاظ فرمائے کہ نبی کی اولاد کو کاٹ کر ان کے خون سے ہاتھ رنگنے کے بعد اگر نماز ہو جاتی ہے تو پھر مچھر کے خون کے باوجود بھی ہو جائے گی ۔۔میں خاموش ہو گیا ۔ فون کی دوسری جانب سے ان کی دل گرفتہ آواز ابھری۔۔۔۔۔ جاؤ جا کر کھانا کھاؤ!

میں چپ کرے دسترخوان پر بیٹھ گیا۔ اور کم از کم ایک جگ ٹھنڈا شربت پی گیا!

جو ترے در سے یار پھرتے ہیں
در بدر یونہی خوار پھرتے ہیں

julia rana solicitors

آہ کل عیش تو کیے ہم نے
آج وہ بے قرار پھرتے ہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply