ندیم ملک جانے پہچانے سیاسی تجزیہ کار، ٹی وی اینکر، اور ایک نجی ٹی وی چینل کے پولیٹیکل ٹاک شو کے میزبان ہیں۔ ان کا شمار ان چند اینکرز میں ہوتا ہے جو بہت شائستہ انداز میں پروگرام چلاتے ہیں۔ اس سال یوم تکبیر کے موقع پر مسلم لیگ نواز کی مرکزی جنرل کونسل کا اجلاس لاہور کے ایک معروف ہوٹل میں ہوا، جس میں میاں محمد نواز شریف کو ایک بار پھر جماعت کا مرکزی صدر منتخب کر لیا گیا۔ اسی رات ندیم ملک نے اپنے ٹاک شو میں میاں صاحب کے “بلا مقابلہ صدر منتخب ہونے” پر اعتراض کیا اور سوالات اٹھائے۔ اس دوران انھوں نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کو بھی مخاطب کیا، پی ٹی آئی کے انتخابی نشان والے مقدمے کی سماعت کا ایک مختصر کلپ بھی دکھایا اور پھر پوچھا کہ سپریم کورٹ میاں صاحب کے بلا مقابلہ انتخاب پر کیا ردعمل دے گی۔
ہم اس معاملے کو تھوڑی دیر کے لیے ایک طرف رکھتے ہوئے یہ دیکھتے ہیں کہ میاں صاحب کا پھر سے اپنی جماعت کا صدر منتخب ہونا کیوں اتنا اہم واقعہ سمجھا گیا۔ میجر (ر) عامر نے ایک بار کہا تھا اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کی پوری تاریخ میں جس شخص کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا اور جس کے ساتھ ہمیشہ مستقل دشمنی روا رکھی ہے وہ میاں محمد نواز شریف ہیں۔ یہ بات میجر صاحب کے تقریباً پندرہ سال پرانے ایک یادگار انٹرویو کا حصہ ہے جب وہ دنیا بھر میں خبروں کا موضوع ہوا کرتے تھے۔ 2017 میں میاں صاحب کو سپریم کورٹ نے وزارت عظمیٰ سے برطرف کیا اور تا حیات نااہل قرار دیا۔ میاں صاحب نے ماضی میں جلاوطنی کے دور میں اپنے بیٹے حسین کی کمپنی میں بطورِ ڈائریکٹر کام کیا تھا لیکن اس کی تنخواہ وصول نہیں کی تھی۔ جو تنخواہ کبھی وصول ہی نہیں کی، اس کو اپنا اثاثہ نہ سمجھنا ثاقب نثار اور ان کے ساتھی ججز کی نظر میں میاں صاحب کا جرم تھا اور جرم بھی اتنا خوف ناک کہ انھیں وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا گیا۔ اسی طرح جلا وطنی کے دور میں میاں صاحب نے وہاں عارضی رہائش کا قانونی کاغذ یعنی اقامہ حاصل کیا تھا تو یہ بھی ثاقب نثار اور ان کے ساتھی ججز کی نظر میں اتنا بڑا جرم تھا کہ انھیں تا حیات نااہل قرار دیا گیا۔ پھر ان کی جماعتی صدارت کو بھی غیر قانونی قرار دیا گیا۔ پارلیمنٹ کی منظور شدہ ایک آئینی ترمیم کی روشنی میں جب ایک بار پھر وہ اپنی جماعت کے صدر منتخب ہوئے تو سپریم کورٹ نے سرے سے وہ آئینی ترمیم ہی منسوخ کر دی۔ سینیٹ کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے تمام امیدواران کو، جن کا جیتنا یقینی تھا اور جو بعد ازاں جیت بھی گئے، سپریم کورٹ نے “آزاد امیدوار” بننے کا حکم دیا اور وضاحت کی کہ وہ جیت کر کسی بھی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں۔
یہ ایک الگ قانونی موضوع ہے کہ گزشتہ دنوں اعلیٰ عدالتوں میں عمران خان کی درخواستوں کی سماعت کے دوران ایک معزز جج صاحب نے سائفر کے حوالے سے یہ پوچھا کہ صرف “ایک کاغذ” کو پبلک کرنے یا گم کرنے پر کسی شخص کو سزا کیسے دی جا سکتی ہے۔ حال آں کہ اس سے قبل اقامہ کے “ایک کاغذ” پر ہی میاں صاحب کے ساتھ جو کچھ ہو چکا وہ عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے امیدواران کے “آزاد” قرار دیئے جانے پر ایک معزز جج صاحب نے یہ اعتراض کیا کہ کسی سیاسی جماعت کے امیدواران کو آزاد امیدوار کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان معزز جج کا کہنا ہے کہ کوئی امیدوار صرف اسی صورت میں آزاد قرار پاتا ہے جب وہ کسی بھی جماعت سے تعلق نہ ہونے کا بیان حلفی جمع کروائے۔ حال آں کہ 2017 میں خود سپریم کورٹ سینیث انتخابات میں مسلم لیگ نواز کے تمام امیدواران کو “آزاد” قرار دے چکی ہے جب کہ انھوں نے تو ایسا کوئی بیان حلفی جمع نہیں کروایا تھا۔
طویل جدوجہد ، صعوبتوں، جیلوں، ہتھ کڑیوں، بیماریوں، جلاوطنی، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ شدید تناؤ اور قانونی لڑائیوں کے بعد آخر کار وہ مرحلہ ایک بار پھر آیا کہ میاں صاحب اپنی جماعت کے صدر بن سکیں۔ یہ حالات مدنظر رکھیں تو اس انتخاب کی اہمیت اور سیاسی معنویت واضح ہو جاتی ہے۔ یہ انتخاب میاں صاحب کے چاہنے والوں کے لیے تو یقیناً باعثِ مسرت و راحت ہے۔ ساتھ ہی یہ ان کے سیاسی مخالفین اور سالہا سال ان کے خلاف ہمہ قسم سازشوں میں ملوث رہنے والے ملکی و غیر ملکی، بیوروکریسی کے اندر اور باہر، معلوم اور نامعلوم بے شمار کرداروں کے لیے بھی ایک بہت بڑا پیغام اور بہت بڑی خبر ہے۔
یہ انتخاب اس طرح نہیں ہوا کہ کوئی “بلا مقابلہ” کہہ کر مسترد کر سکے۔ یہ عہدہ وقت کے وزیر اعظم پاکستان کے پاس تھا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان مسلم لیگ نواز کی صدارت سے استعفیٰ دیا اور اس میں یہ لکھ دیا کہ میاں صاحب اس عہدے کے اصل حق دار ہیں۔ استعفیٰ باقاعدہ میڈیا میں شائع ہوا۔ جماعت کی پوری قیادت میں اس پر کئی دن غور ہوتا رہا۔ پھر استعفیٰ منظور ہوا۔ از راہِ مذاق کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے میاں صاحب کا بھائی ہونے کی وجہ سے استعفیٰ دیا۔ لیکن ایسا کہنے والا یاد رکھے کہ سیاست اور اقتدار کی جنگ میں بھائی ہونا ہی کافی نہیں ہوتا۔ ورنہ بھائی تو مرتضیٰ بھٹو بھی تھے بے نظیر کے، پرویز الہٰی بھی چودھری شجاعت حسین کے بھائیوں جیسے تھے اور سید مرید حسین شاہ قریشی بھی شاہ محمود قریشی کے بھائی ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے استعفیٰ کے بعد نئے صدر کے انتخاب کے لیے تاریخ کا اعلان ہوا، کاغذاتِ نامزدگی شائع ہوئے، جماعت نے اپنے قانون کے مطابق تفصیلی مشاورت کے بعد چیف الیکشن کمشنر کا تعین کیا، الیکشن کمیشن کے ممبرز کا تعین ہوا، الیکشن کمیشن کے دفتر کی تشہیر میڈیا میں کی گئی، کاغذات نامزدگی حاصل کرنے کے لیے کافی دن دیئے گئے اور جماعت کے تمام کارکنوں اور قائدین کو کاغذات نامزدگی حاصل کرنے کی عام اجازت دی گئی۔ کاغذات کی جانچ پڑتال کی گئی اور اعتراضات داخل کروانے کا بھی بھرپور موقع دیا گیا۔ میاں صاحب کے علاوہ کسی نے کاغذات جمع نہ کروائے تو انھیں بلا مقابلہ صدر قرار دیا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ باقاعدہ انتخاب کے لیے پہلے سے اعلان کردہ تاریخ کے لیے ملک بھر کے ارکان جنرل کونسل کو دعوت نامے بھجوائے گئے۔ تمام ارکان جمع ہوئے تو الیکشن کمشنر نے تمام حاضرین سے ووٹنگ بھی کروائی۔ تمام ، سو فی صد ارکان نے باقاعدہ اپنی نشستوں سے اٹھ کر اعلانیہ میاں صاحب کے حق میں ووٹ دے کر انھیں صدر منتخب کیا۔ یعنی بلا مقابلہ ہونے کے باوجود ووٹنگ بھی کروائی گئی۔ شہباز شریف کے استعفیٰ کے بعد بھی یہ تمام مراحل روزانہ بنیاد پر ملکی و غیر ملکی ہر قسم کے میڈیا میں رپورٹ ہوتے رہے۔ انتخابی اجلاس اور ووٹنگ کی یہ پوری تقریب پاکستان کے تمام نیوز چینلز نے براہ راست دکھائی۔
میں نہیں سمجھ پایا کہ ندیم ملک جیسے مستند اور معزز تجزیہ کار نے مسلم لیگ نواز کے صدارتی انتخاب کا موازنہ پی ٹی آئی والے کیس کے ساتھ کیسے کر لیا؟ ملک صاحب کے خبری ذرائع بہت زیادہ ہیں اور ان کے علم اور تجربے کا بھی سب کو اعتراف ہے۔ لیکن ملک صاحب کیسے بھول گئے کہ پی ٹی آئی کا کیس دراصل “بلا مقابلہ انتخاب” کی بجائے “عدم انتخاب” کا تھا۔ عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے تمام عہدے داروں کی مدت 2020 میں ختم ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہمیشہ پی ٹی آئی کو عمران خان سمیت چند غیر منتخب افراد ہی چلاتے رہے۔ ذرا سخت الفاظ استعمال کیے جائیں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ 2020 میں مدت ختم ہونے کے بعد چار سال تک عمران خان اور اس کے قریبی ساتھیوں نے پی ٹی آئی پر در اصل “غیر قانونی” قبضہ کر رکھا تھا۔ مسلسل چار سال تک الیکشن کمیشن انھیں انتخابات کے لیے یاددہانی کے نوٹسز بھیجتا رہا لیکن عمران خان “ایک پیج” کے نشے میں ان نوٹسز کو ردی کی ٹوکری میں پھینکتا رہا۔ حتیٰ کہ 2024 کے عام انتخابات کا وقت آ گیا۔ پاکستانی آئین کے مطابق انتخابی نشانات صرف ان جماعتوں کو ملتے ہیں جن کی منتخب قیادت موجود ہو۔ اس موقع پر عمران خان اور اس کے ساتھیوں نے ایک بار پھر سوشل میڈیا ٹرولنگ اور احتجاجی بلیک میلنگ کے ذریعے انتخابی نشان لینے کی کوشش کی۔ لیکن چیف الیکشن کمشنر، جن کا تقرر اپنی حکومت کے دوران خود عمران خان نے کیا تھا، آئین پاکستان کی پاس داری پر زور دیا۔ پھر کیا ہوا؟ عمران خان سمیت پوری پی ٹی آئی اور اس کا سوشل میڈیا چیف الیکشن کمشنر کی کردار کشی پر لگ گیا۔ ندیم ملک صاحب خوب جانتے ہیں کہ جیل میں قید سزا یافتہ عمران خان نے ایک سادہ کاغذ پر اپنے چند ساتھیوں کے نام لکھوائے اور یہ کاغذ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دفتر میں یہ کہہ کر بھجوا دیا کہ “یہ رہا پی ٹی آئی کا مکمل پارٹی الیکشن”۔
“بلا مقابلہ” ہی انتخاب کرنا ہوتا تو اس کے بھی کچھ آداب اور تقاضے ہوتے ہیں یا کیا صرف ایک کاغذ ہی ہوتا ہے؟ پی ٹی آئی کے اپنے بانی رکن جناب اکبر ایس بابر پارٹی چیئرمین کے انتخاب میں امیدوار تھے لیکن کاغذات نامزدگی مانگنے پر انھیں دھکے دے کر پارٹی دفتر سے نکال دیا گیا، کیوں کہ دراصل پی ٹی آئی کے پاس کوئی کاغذات نامزدگی تھے ہی نہیں۔ انھی اکبر ایس بابر نے مقدمہ دائر کر دیا اور الیکشن کمیشن، پشاور ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ تک کہیں بھی عمران خان کے پی ٹی آئی وکلاء یہ نہ بتا سکے کہ پارٹی الیکشن کب، کہاں، کیسے اور کس طریقے سے ہوا۔ کاغذات نامزدگی کا نمونہ طلب کیا گیا تو تسلیم کرنا پڑا کہ کاغذات نامزدگی نہیں تھے۔ سپریم کورٹ کی کارروائی ندیم ملک کے چینل سمیت تمام نیوز چینلز پر براہِ راست دکھائی گئی اور کروڑوں عوام نے دیکھا کہ پی ٹی آئی وکلاء اپنے جمع کروائے گئے کاغذ کو “بلا مقابلہ انتخابات” بھی ثابت نہ کر سکے۔
ندیم ملک صاحب کا ایک مقام و مرتبہ ہے جس کا ہم سب کو احترام ہے۔ لیکن ہم یہ نہیں سمجھ پائے کہ مسلم لیگ نواز کے صدارتی انتخاب اور پی ٹی آئی کے چند افراد کے ناموں والے ایک کاغذ کو انھوں نے برابر کیسے سمجھ لیا؟ وجود اور عدم کا موازنہ کیسے؟ اگر یہ خود کو “غیر جانب دار” ثابت کرنے کا کوئی انداز تھا تو معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ غیر جانب داری میں بھی ہم حقائق کو جھٹلا نہیں سکتے۔ ایک بار پھر یاد رہے کہ مسلم لیگ نواز کے صدارتی انتخاب کی پوری تقریب کی طرح پی ٹی آئی کیس کی پوری سماعت بھی ٹی وی چینلز پر براہِ راست دکھائی گئی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں