کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جس پر کوئی بھی تجزیہ حتمی نہیں ہو سکتا امکانات پر بات ہو سکتی ہے جو مختلف عوامل پر مشتمل ہوتے ہیں اور ہر کسی کے نزدیک ان امکانات کی شرح مختلف ہوتی ہے جو انکی اپنی سمجھ پر منحصر ہوتی ہے۔
میں یہ تو گزشتہ ایک دو سال میں سمجھ چکا ہوں کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم مختلف وجوہات کی بنا پر اے کلاس ٹیموں جیسے آسٹریلیا انگلینڈ انڈیا ساؤتھ افریقہ نیوزی لینڈ جیسی ٹیموں سے کافی پیچھے رہ چکی ہے اور انکے خلاف کھیلتے ہوئے ہمارے چانسسز دس بیس فیصد سے زیادہ نہیں ہوتے۔
انکے بعد آتی ہیں ٹاپ فائیو کے بعد کی ٹیمیں جیسے سری لنکا،افغانستان، ویسٹ انڈیز تو ان سے کھیلتے پاکستان ٹیم کے امکانات ففٹی ففٹی ہوتے تھے مگر مجھے یہ ماننے میں ہمیشہ مسئلہ تھا کہ پاکستان اب سی کیٹگری ٹیموں کے مقابلے میں بھی نہ صرف ہار سکتا ہے بلکہ لوگ پاکستان کو فیورٹ قرار دینے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
پاکستان کرکٹ کی یہ حالت اچانک نہیں ہوئی اور نہ اس میں کسی ایک شخص کی ذمہ داری ہے یہ مسلسل اپنائی جانے والی غلط اور میڈیا سے متاثر ہو کے بنائی جانے والی پالیسیز کا نتیجہ ہے۔
جس طرح ہم نے پاکستان کی باقی اچھی چیزوں کا بیڑہ غرق کیا ہے اسی طرح ہم اب کرکٹ کا بھی بیڑہ غرق کر چکے ہیں یہ جو آپ کو ابھی بھی کرکٹ ٹیم بڑے ٹورنامنٹس میں کھیلتی نظر آتی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہر طرف صرف کھیلی ہی کرکٹ جاتی ہے جسکی وجہ سے اچانک کچھ نہ کچھ ایسے کھلاڑی مل جاتے ہیں جو پاکستان کرکٹ کو کچھ سنبھالا دے دیتے ہیں ورنہ ہاکی آپ کے سامنے ہے جو اب بہت کم کھیلی جاتی ہے تو وہاں ورلڈ کلاس کھلاڑی بھی نہیں ملتے۔
ہاکی کا بیڑہ غرق بھی سابق اولمپئنز نے کیا تھا اور پاکستان کرکٹ کا بیڑہ غرق کرنے میں بھی ان سابق کھلاڑیوں کے مشوروں کا عمل دخل ہے جو بورڈ میں کسی نہ کسی نوکری کے متلاشی ہوتے ہیں اور اب تو ایک نیا ٹرینڈ سامنے آیا ہے کہ جس کھلاڑی کو ٹیم سے بری پرفارمنس کی وجہ سے نکالا جاتا ہے وہ میڈیا پر بیٹھ کر بورڈ اور ٹیم کی بینڈ بجانا شروع کر دیتا ہے جس سے گھبرا کے اسے ٹیم میں شامل بھی کر لیا جاتا ہے۔
پاکستانیوں کا یہ مسئلہ رہا ہے کہ انہیں اچھے وقت میں رہ کر اچھے وقت کی قدر نہیں کرنی اور اونچی اونچی اور لمبی لمبی چھوڑنی ہیں۔
یہ پاکستان فائنل میں پہنچ جائے تو بھی تنقید کرتے ہیں اور پہلے راؤنڈ میں باہر ہو جائے تو بھی یعنی کسی حال میں خوش نہیں۔
اوپر سے کرکٹ بورڈ اب مکمل طور پر سیاسی ادارہ بن چکا ہے جو حکومت آتی ہے اسے اپنا بندہ کرکٹ بورڈ میں چاہیے، چاہے اسے کرکٹ کے معاملات کا کچھ پتہ ہو یا نہ ہو۔
یہ سب چیزیں اب ادارہ جاتی پروفیشنل ازم کے مرہون منت ہو چکی ہیں کہ بہتری کس طرح لائی جا سکتی ہے اس طرح کے اٹکل پچو اور ہر چند دن بعد نئے نئے کردار سامنے لانے سے بہتری نہیں ہوا کرتی۔
ہمارے ماہرین کی کرکٹ سینس یہ ہے کہ ہم بابر اور رضوان کی ریکارڈ ساز اوپننگ جوڑی کے اس لیئے خلاف ہو گئے کہ انکا سٹرائیک ریٹ بہتر نہیں۔
جب انکی جگہ دوسرے کھلاڑیوں کو موقع دیا تو پتہ چلا کہ انکا کچھ بھی بہتر نہیں اور یہ اس لیئے ہوا کہ ہمیں ٹیم کی ساٹھ ستر فیصد فتوحات پسند نہیں تھیں اور سو فیصد رزلٹ چاہتے تھے مگر آج یو ایس اے کو پاکستان کے مقابلے میں فیورٹ قرار دیتے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ ایسا ہوتا بھی نظر آتا ہے۔
کیا یہی نقاد اعظم خان کے بارے یہ نہیں کہتے تھے کہ وہ ٹیم کی ضرورت ہے کیونکہ وہ چھکے مار لیتا ہے؟
کیا تمام لوگ اسی عامر اور عماد وسیم کے لیے مرے نہیں جا رہے تھے؟
کیا یہی لوگ صائم ایوب کو پاکستان کا مستقبل قرار نہیں دے رہے تھے؟
ہم اس وقت بھی بابر رضوان جوڑی کو برقرار رکھنے کی بات کرتے تھے۔
ہم اس وقت بھی صرف اس بنیاد پر اعظم خان کو ٹیم کے قریب بھی نہ کرنے کا کہتے تھے کہ اسکی فٹنس کلب لیول کھلاڑی کی بھی نہیں پرفارمنس تو بعد کی بات تھی۔
ہم اس وقت بھی صائم ایوب کو ایک درشنی کھلاڑی کہتے تھے جو آج وہ ثابت ہوا ہے۔
ہم عامر اور عماد کو بھی کوئی میچ وننگ کھلاڑی نہیں مانتے تھے کیونکہ وہ اپنی پیک گزار چکے تھے اور اب اندھوں میں کانے راجے تو ہو سکتے ہیں مگر پاکستان کو جتوا نہیں سکتے انکی جگہ ہمیں وہ کھلاڑی درکار تھے جن میں پوٹینشل بھی ہو اور وہ لمبے عرصے کے لیے پاکستانی ٹیم کو سرو بھی کروا سکیں۔
ہم نے ہمیشہ کوالٹی کرکٹرز ڈھونڈنے کی بات کی ہے اور کوالٹی صرف چھکا مار لینے کا نام نہیں ،اس میں اور بھی بہت سی چیزیں شامل ہوتی ہیں مگر ہم نے ایک ایک اننگ کی بنیاد پر کھلاڑیوں کو ویرات کوہلی بنانا شروع کیا ہوا تھا۔
میرے نزدیک جو نقصان ہو چکا وہ اب راتوں رات درست نہیں ہو سکتا اسکے لیے بھی ایک لمبی پلاننگ اور تسلسل والی حکمت عملی درکار ہے اور سب سے بڑھ کر معاملات میں شفافیت چاہیے، پھر کہیں جا کے ہم چار پانچ سال میں پاکستان کرکٹ میں بہتری دیکھ سکتے ہیں۔
اس وقت یہ صورتحال ہے کہ دنیا میچ ونرز سامنے لا رہی ہے اور ہم نے میچ لوزرز بھرتی کیے ہوئے ہیں جس کسی کو بھی موقع ملتا ہے وہ پاکستان کو ہروا دیتا ہے اور ہم کہتے ہیں کہ فلاں ہوتا تو یہ کر دیتا اور ڈھمکاں صاحب ہوتے تو اُڑا کے رکھ دیتے جبکہ حالت یہ ہے کہ آپکے پاس منتخب ہونے والی ٹیم میں اعظم خان کا متبادل تک موجود نہیں کیونکہ بنچ پر صرف صائم ایوب موجود ہے اور صائم ایوب جو تیر مار مار کے باہر ہوا ہے وہ سب دیکھ چکے ہیں۔

آج ہم یہاں پہنچ چکے ہیں کہ کوئی معقول آپشن بھی بتانے کے قابل نہیں کیونکہ ٹیم تو جو ہے سو ہے، باہر بھی کچھ نظر نہیں آرہا، سب تیس مار خان ٹرائی کر چکے ہیں اور پبلک ڈیمانڈ والے بھی آزما چکے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں