• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • چنڑے(دنیا کے جھمیلوں سے دور ایک الگ دنیا کی کہانی) -علی ہلال/قسط6

چنڑے(دنیا کے جھمیلوں سے دور ایک الگ دنیا کی کہانی) -علی ہلال/قسط6

لمبی لمبی سیاہ گھنی مونچھوں کو تاؤ  دینے والے کسی قدر فربہ جسم کے مالک چچا جی ہمیں صبح کا ناشتہ کھلانے کے پا بند تھے ۔۔ زمانہ طالب علمی میں صبح کی نیند ایک بے مثال نشہ ہے جس کے اثرات سے شاید  ہی کوئی محفوظ رہ گیا ہو ۔

درس نظامی کے طلبہ کو تو اس سے جی بھر کر سیرا بی کا موقع مل جا تا ہے لیکن اس کے برعکس حفظ کے طلبہ دنیا کی بہت ساری دیگر نعمتوں کی طرح اس سے بھی بہت ہی کم فیضیاب ہوتے ہیں۔
خیر کم ہو یا زیادہ ، حفاظ اپنا حصہ لینے کے لئے راستہ نکال ہی لیتے ہیں ۔ گرمیوں کے موسم میں فجر کے بعد بڑے قاری صاحب کے جاتے ہی ہم چوبی تپائیوں کے پاس ہی سونے میں دیر نہیں کرتے تھے ۔۔ آدھے گھنٹے کی اس مختصر سی نیند میں ستر راتوں سے زیادہ لذتیں اور مسرتیں بھری تھیں ۔

ہماری شامت مگر تب آتی جب اوپر سے لہک لہک کر نعتیں پڑھتے ہوئے چچا جی سیڑھیاں اُتر کر آجا تے ۔ چچا جی اچھے تھے یا بُرے، میں یہ فیصلہ آج تک نہ کرسکا ۔ مگر میرے خیال سے وہ اچھے تھے ، تاہم رعب جمانے کی خاطر وہ سوئے ہوئے طلبہ پر اچھلتی بوٹیوں پر بھوکی چیل کی طرح جھپٹے ۔ طلبہ کو اندازہ تھا کہ چچا جی کسی قدر بزدل ہے اور ردعمل سے ڈرتے ہیں وہ بھی مگر ان کی اس معرفت کو بھانپ گئے تھے، لہذا انہوں نے خالی ہاتھ کبھی بھی طلبہ کے پاس جانے کی غلطی یا جرات نہیں کی ۔۔ تانبے کا ایک لمبا مضبوط چمچہ  ان کا موثر ہتھیار تھا ۔۔ سوئے ہوئے طلبہ کو چمچے سے آہستہ سے مارنے کے ساتھ یخ بستہ موسم میں ٹھنڈے پانی کا چھڑکاو بھی ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا ۔

اس زمانے میں بڑا تندوری نان دو روپے کا اور چھوٹا ایک روپے کا ملتا تھا ۔اکثر تندور والے ایک روپے یا آٹھ آنی لیکر آدھا نان بھی دیتے تھے۔ مدرسے میں جانے کیوں ناشتہ میں صرف آدھا نان اور رات کا سالن دیتے تھے۔۔چائے نہ کوئی پیتے تھے اور نہ  ہی دینے کا تصور تھا ۔

دیگر طلبہ کا تو نہیں معلوم لیکن خدا گواہ ہے کہ جب تک لاہور میں رہا کبھی بھی پیٹ بھرکر ناشتہ نہ کرسکا۔ ایک تو لاہور کا پانی ایسا زود ہضم تھا کہ پیٹ جتنا بھی بھرو خالی ہونے میں دیر نہیں لگتی ۔ میں جب تک لاہور میں رہا کھانے کے لیے ترستا رہا۔ مصیبت یہ تھی کہ ناشتے کے وقت مدرسے کا گیٹ بند رکھا جا تا تھا ۔ باہر سے روٹی منگوانا ممنوع عمل تھا جس کے باعث لاہور کا یہ مدرسہ میرے لیے شبرغان کا قیدخانہ بنا رہا ۔

دس بجتے ہی چچاجی اکبری منڈی میں اپنی دکان کیلئے نکلتے جبکہ ان کی گدی پر ان کے بڑے بھائی المعروف تایا جی براجمان ہونے پہنچ جاتے۔ 70 کے پیٹے میں داخل تایاجی ایک لمبے قد کا حامل کلین شیو شخص تھا ۔ ان کا تمام تر کمال ان کی کسی قدر ٹیڑھی آنکھوں میں ذخیرہ ہوکر رہ گیا تھا ۔ صوم وصلاۃ نامی عبادتوں سے انہیں کسی قدر بھی دلچسپی نہیں تھی ،اس شخص کا کام دن بھر بڑے قاری صاحب کی تعویذوں کی مہریں لگا لگا کر قینچی سے کتر کتر کر تعویذوں کی بڑی بڑی گڈیاں بنانا تھا ۔ طباعت کے اس عمل کے علاوہ خواتین پر حاوی ہونے والے گناہ کار قسم کے سرپھرے جنات بھگانے کا فریضہ بھی انہی  کے سپرد تھا، چونکہ بڑے قاری صاحب کسی خاتون کو ہاتھ لگا نا حرام سمجھتے تھے لہذا یہ ذمہ داری تایاجی کے سپرد تھی جسے انہوں نے ایک مشغلے کے طورپر اپنا لیا تھا ۔

اس چیلنج سے نمٹنے کیلئےانہوں نے پسی ہوئی سرخ مرچی بھر کر سوتی کپڑے سے ایک لمبی سی موم بتی بنا رکھی تھی۔ جنات کے زیر اثر خاتون کو چوٹی سے پکڑ کر تین یا چار طالب علموں کے ذریعے قابو کرنے کے بعد وہ اسے مرچوں والی دھواں دار قلفی سونگھا تے اور ساتھ میں محاذ چھوڑ کر بستی خالی کرنے کے تہدیدی کلمات کہتے۔

جب تک میں وہاں تھا ان گناہ گار آنکھوں سے کسی ایسے باہمت جن کو نہیں دیکھا جس نے ایک بار مرچوں بھری قلفی سونگھنے کے بعد دوبارہ اس گلی کا کبھی چکر لگا نے کا سوچا ہو ۔۔ جانے یہ وظیفے کی تاثیر تھی یا دھونی کا کرشمہ ۔۔مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک سونگھ کے بعد جنات یہاں کا رخ کبھی نہ کرتے ۔

مدرسے میں صدقے کی بکریوں کا تانتا بندھا رہتا تھا ۔ مرادیں پوری ہونے ، بچوں کے مناسب رشتے ملنے ، سنگ دل شوہروں کو رام کرنے اور اکڑو و نک چڑی بیگمات کی تابعداری کے خوابوں کو عملی جامے میں ملبوس دیکھ کر نہال ہونے والے سخی انسان بکریوں کی بکریاں لا لا کر تعویذ جھاڑ پھونک اور نقش قرآنی کا شکرانہ دے جاتے ۔
بڑے قاری صاحب اوران کی بیگم مدرسے کی چیز کو ہاتھ لگانا حرام سمجھتے تھے ۔سو یہ سب بھیڑ بکریاں خالص طلبہ کے لئے مختص تھیں۔
ہفتے میں کئی روز ایک قصائی آکر بکریوں کی گردن سے خون نکال کر انہیں کھال سے الگ کرنے کے بعد تایا جی کے حوالے کرکے چلاجاتا ۔۔

تایا جی ہفتہ یا دس دن میں صرف ایک مرتبہ سالن بناتا ۔۔گوشت دھوتے ہوئے اسے کبھی کسی نے نہیں دیکھا تھا ۔۔ بالوں سے بھرے ہوئے شوربا میں تیرتی ہوئی ایک بوٹی اور آدھا نان فی طالب علم کا حصہ تھا ۔۔ ایک دو روز کے بعد پتیلے کو چولہے پررکھ کر کچا پانی انڈیل کر اوپر سے مصالحے کا چھڑکاؤ  کر کے وہ چمچہ  گھما گھما کر اسے قابل تناول بنانے کی کوشش کرتے ۔۔.

آپ کے دل میں ضرور آتا ہوگا کہ رحم دل تایا جی بکریوں کا گوشت سنبھال کر مقبوضہ کشمیر کی بیوائوں اوریتیموں کو بھجواتا ہوگا ۔۔ لیکن ایسا نہیں تھا ۔۔ اپنی خوش فہمی کو ابھی پٹاری میں ہی رہنے دیجئے ۔۔

موصوف کا ایک پالتو مسٹنڈا المعروف لمبو تایاجی کے دیگر اسٹرٹیجک مفادات کے ساتھ ساتھ مٹن کی صورت میں اس غذائی رسد کی بڑی تندہی سے حفاظت کے لئے ہمہ وقت موجود رہتا تھا ۔۔ گوشت بننے کے بعد وہ اسے بڑے احتیاط کے ساتھ ڈی فریزر میں بھر بھر کر مقفل کردیتا اورچابی ہاتھ میں گھما گھما کر تایاجی کے ساتھ گپیں ہانکتے ہوئے رات کا انتظار کرتا ۔۔

پنجاب کے کسی ضلع سے تعلق رکھنے والا یہ لڑکا پچیس چھیبس برس کا ہوگا ۔۔ لمبے قد کے ساتھ وہ ایک اچھا خوبصورت جوان تھا ، مگر تایا جی کی چپاتیوں کے عشق نے اس کے پیر ایسے باندھ رکھے تھے کہ وہ گھر کے بجائے تایا جی کے گھاٹ کا ہوکر رہ گیا تھا ۔

رات دس کے بعد جب نیند کی دیوی دن بھر کے تھکے ہارے طلبہ کو اپنی آغوش میں لیتی ایسے میں تایا جی بیٹھک اٹھاکر اپنے مصاحب کے جلو میں گھر کی راہ پکڑلیتے ۔۔ مگر خالی ہاتھ نہیں ۔۔
بکری کی رانوں اورچانپوں سے بھرا ہوا ایک بڑا تھیلا زاد سفر کے طورپر ان کے ساتھ ہوتا ۔۔۔ یہ شائد اس لئے بھی تھا تا کہ دن بھر ان کی دھونی سے پسپا ہونے والے باغی جنات کہیں راستے میں خالی ہاتھ دیکھ کر ان پر حملہ آورنہ ہوں۔

صدقے کے گوشت اورتازہ خون سے جنات کے ڈر اورخوف کا یقین دل میں لئے وہ اس عملی حصار کی حفاظت میں بڑے نپے تلے قدم لیکر تانگے کے اسٹاپ پر پہنچ جاتے ، جہاں ایک بوڑھا کوچوان  انہیں لیکر لاہور کی سڑکوں پر سرپٹ دوڑنے کے لئے بیتاب رہتا تھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

علی ہلال
لکھاری عربی مترجم، ریسرچر صحافی ہیں ۔عرب ممالک اور مشرقِ وسطیٰ کے امور پر گہری دسترس رکھتے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply