• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • نظامِ عدلیہ ، الہامی اور اختراعی نظاموں کا فرق/زید محسن حفید سلطان

نظامِ عدلیہ ، الہامی اور اختراعی نظاموں کا فرق/زید محسن حفید سلطان

پچھلے دنوں ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں جیل کے قیدیوں سے گفت و شنید بھی شامل تھی ، طرح طرح کے قیدی دکھائے گئے اور ان سے بات کی گئی۔
ایک قیدی جس کو سزائے موت سنائی جا چکی تھی ، پتا نہیں کس دل سے وہ ہنستا مسکراتا انٹرویو دے رہا تھا لیکن ان الفاظ پر اس کی کیفیت ہی بدل گئی اور یقین جانیں گویا کہ اس کے الفاظ اب بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں  کہ:
“ہم عدالت میں خود تو بول نہیں سکتے ، ہمارے وکیل (lawyer) ہی بولتے ہیں ، اب وہ آگے ججوں کو مطمئن نہیں کر پاتے۔”

میں نہیں کہتا کہ وہ بندہ واقعتاً مجرم نہیں ہے لیکن آپ یہ تو سوچیں کہ اب وہ ایک کیس میں قتل ہونے جا رہا ہے لیکن اس کی زبان پر شکوہ یہ ہے کہ اس کو بولنے کا موقع نہیں دیا گیا ، وہ اپنی بات نہیں پہنچا سکا!
کیا یہ ایک مجرم کے ساتھ مجرمانہ رویہ نہیں ہے؟

ہم کسی کی نوکری پر لات مارنے کے قائل نہیں نہ کسی کی دکانوں کو تالے لگانا چاہتے ہیں اور نہ ہی ہمیں وکیلوں اور بیرسٹروں سے کوئی بیر یا دشمنی ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ قانون آخر کیوں اتنا پیچیدہ ہے کہ ایک شخص اپنا مقدمہ خود نہیں لڑ سکتا؟

آپ کے علم میں لانے کیلئے بتا دوں کہ قانون تو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کوئی بھی شخص کبھی بھی آ کر اپنا کیس خود لڑ لے ، لیکن اس کے بعد عدالتی ضابطے ، قانونی شقیں اور ہزاروں ایسی چیزیں سامنے آ جاتی ہیں کہ انسان خود کیس لڑنے سے خود ہی بھاگے اور وکیل کر لے۔یہ ہے ہمارا غیروں سے لیا ہوا نظامِ عدلیہ!

اور دوسری طرف وہ نظامِ عدالت تھا جو چند سالوں نہیں بلکہ صدیوں اسی زمین پر ہمارے جیسے انسانوں کے ہاتھوں ہمارے جیسے ہی انسانوں کیلئے مہیا کیا جاتا تھا ، جس کے نفاذ کی حدود بھی ہمارے ملک سے کہیں  زیادہ وسیع اور رقبہ کئی میلوں عریض ہوتا تھا ، بس اتنا فرق تھا کہ وہ عدالت الہامی قانون (Devine Law) کے تحت چلتی تھی اور ہم اختراعی قانون (Invention Law) کو اپنا کر چل رہے ہیں ، اور بندوں کے رب سے زیادہ بندوں کا درد رکھنے کا دعویٰ کر رہے ہیں ، اسی لئے قانونِ الٰہی کو چھوڑ کر اپنا قانون اور اپنا طریقِ عدل رائج کئے ہوئے ہیں ، اپنا یعنی انسانوں کا ورنہ وہ تو نہ رنگ و نسل کے اعتبار سے اپنا ہے ، نہ خطہ و مکان کے حساب سے اپنا ہے اور نہ دین و تہذیب کے حساب سے اپنا ہے۔

مجھے بس کوئی یہ سمجھائے کہ اگر علما  مل بیٹھ کر فیصلہ کر لیں کہ آج کے بعد جس کسی نے بھی کوئی مسئلہ دریافت کرنا ہو وہ اپنے مسئلے کے متعلقہ تمام نصوص و اقوال جمع کر کے لائے
یا پھر تمام اطباء کا یہ فیصلہ ہو جائے کہ آج کے بعد جو مریض آئے اپنے مرض سے متعلقہ تمام ادویات کے نام لکھ کر لائے۔ ۔علی ھذا القیاس
تو آپ ہی کہیے علما  و اطباء کا یہ فیصلہ کیسا رہے گا؟
کیا اس کو سراہا جائے گا؟
اس کیلئے بھی الگ سے وکیل جیسا عہدہ نکالا جائے گا؟

یعنی بات وہی ہے کہ:
بات بنائے بات بنتی نہیں ہے

اگر اطباء و علما  کا یہ فیصلہ نا قابلِ قبول ہوگا اور ہونا بھی چاہیے ، تو پھر سوال یہی اٹھتا ہے نا کہ قوم و ملک کا ایک وسیع سرمایہ صَرف کر کے ، اساتذہ کی محنت ، ماں باپ کی لگن اور خود اپنا قیمتی وقت لگا کر جب ایک شخص جج کے عہدے پر پہنچتا ہے تو آخر اس کو کیوں ضرورت پڑتی ہے کہ اسے پورا پورا کیس ، کیس کی متعلقہ شقیں ، ملتے جلتے کیسز اور ہزارہا چیزیں مدعی فراہم کرے اور پھر اس کے بعد معزز جج فیصلہ سنائیں؟اور پھر کیس لکھنے اور پیش کرنے کا خاص طریقہ جو صرف قانون کی کتابوں میں ہی لکھا ہوا ہے ۔
آخر جج صاحب کی عدالت کے علاؤہ ایسی اور کون سی مصروفیات ہیں جو ان کو اپنی مسؤلیت سے ہی دور کر رہی ہے؟
اور پھر مصروفیت اپنی جگہ اور مسؤلیت اپنی جگہ!

یاد رکھیں فیصلے صرف گواہوں ، ثبوتوں اور باتوں پر نہیں کئے جاتے۔۔

قاضی شریح اپنے وقت کے بہت ذہین و فطین قاضی سمجھے جاتے ہیں ، ان کے فیصلوں کا انداز بہت نرالا ہوتا۔۔۔ایک دفعہ ایک شخص نے دوسرے پر الزام لگایا کہ میں نے اس کو قرض دیا تھا جو یہ نہیں لوٹا رہا ، قاضی شریح نے فریقین کی بات سنی لیکن ملزم الزام ماننے کو ہی تیار نہ تھا ، قاضی نے مدعی علیہ سے وہیں بیٹھنے کا کہا اور مدعی کو کہا:
“جس درخت کے نیچے اس نے تم سے قرض لیا تھا تم وہاں جاؤ ، شاید تمہیں غلط فہمی ہوئی ہو اور تمہارے پیسے وہیں کہیں گرے ہوئے ہوں”

مدعی نہ چاہتے ہوئے بھی چلا گیا اور قاضی صاحب دوسرے کاموں میں مصروف ہو گئے ، مصروفیت جاری ہی تھی کہ ایک دم قاضی صاحب مدعی علیہ سے مخاطب ہوئے اور اچانک سوال اچھالا کہ:
“کیا خیال ہے وہ شخص اب تک اس درخت تک پہنچ گیا ہوگا یا نہیں؟”
ملزم نے کہا: “ابھی تو نہیں پہنچا ہوگا”۔۔۔۔بس قاضی صاحب نے یہیں اس کو پکڑ لیا اور ملزم ، مجرم بن کر سامنے آ گیا۔

کہنے کا مقصد ہے کہ معاملے کی حقیقت تک پہنچنے کیلئے ہزارہا قسم کے قرائن ہوتے ہیں جن سے ایک جج کیلئے معاملے کو بھانپنا اور دودھ کا دودھ ،  پانی کا پانی کرنا آسان ہوتا ہے ، ان قرائن تک پہنچنے کیلئے سب سے اہم چیز فہم و فراست ، اور عقل و دانش ہے جس کے ذریعہ کوئی بھی جج کسی بھی ملزم کے مجرم اور فقط ملزم ہونے کا فرق بھانپ لیتا ہے۔
اور ان قرائن میں یہ بھی شامل کہ فریقین کی حرکات و سکنات کو نوٹ کیا جائگ اور باڈی لینگویج سے حتمی نتائج تک پہنچنا آسان بنایا جائے۔
لیکن جہاں فریقین کو بولنے کا موقع ہی نہ ملے وہاں کس طرح سے ظالم و مظلوم کے فرق کو بھانپا جا سکتا ہے؟

ایک عادی مجرم کیلئے جرم کے بعد خاموش بیٹھنا شاید بولنے سے زیادہ آسان ہو ، کیونکہ بولنے میں زبان لڑکھڑاتی ہے ، الفاظ ٹوٹتے ہیں ، لہجہ بدلتا ہے ، چہرے کے تأثر واضح ہوتے ہیں ، لب و لہجہ بہت ساری چیزوں کا پتا دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر خود بولتے وقت انسان کا دل بھی اس کو ملامت کرتا ہے ، ضمیر بھی جھنجوڑتا ہے ، خود شرم بھی آ جایا کرتی ہے ، اس کے برعکس خاموش بیٹھنا ایک مجرم کیلئے کتنا سکون کا باعث ہے۔

پھر معاملے میں فریقین مجرم و ظالم نہیں ہوا کرتے ، بلکہ ایک فریق مظلوم بھی ہوا کرتا ہے ، اور ذرا اس مظلوم کی حالتِ زار کا تصور کریں جو بتانا کچھ چاہتا ہو اور اس کی ترجمانی کچھ اور ہو رہی ہو ، پھر اس کی خاموشی کا نقصان یہ بھی ہے کہ  آدمی کے جذبات کا مسلسل قتل کیا جاتا ہے ، کیونکہ جب ایک آدمی بولے گا ہی نہیں تو اس کے احساسات کیسے سامنے آ سکیں گے؟
اور جب فقط اس بنا پر کیس کسی کے ہاتھ نکل جائے کہ اس کا وکیل عدالتی زبان بولنے میں وکیلِ مخالف سے کمزور تھا ، یقین جانیں زندگی سے رمق ہی نکل جائے اور اگر فیصلے میں سزاء موت تک سنا دی جائے تو سوچیں تو صحیح ہم اخلاقیات کی کن پستیوں میں گرے ہوئے ہیں ، پھر یہ مجرم کے ساتھ مجرمانہ رویہ نہ ہوا تو کیا ہوا؟

آپ جائیں تاریخِ اسلامی کے سنہری دور کو چھان ماریں امراء اور خلفاء عدلیہ کے نظام کو بہتر کرنے کیلئے ہمیشہ کوشاں نظر آتے ہیں جس پر کئی ایک مثالیں دلالت کرتی ہیں ، پھر وہ سیدنا عمر کی قضاۃ کے نام لکھی ہوئی چٹھیاں ہوں ، سیدنا عثمان کا اپنے خاندان کے آدمی کو کوڑے لگانا ہو ، سیدنا علی کا جدید انویسٹی گیشن سسٹم (Investigation System) قائم کرنا ہو ، یا پھر دیگر امراء اور حکمرانوں کا از خود عدالتوں میں پیش ہونا ہو یہ سب عدلیہ کو مضبوط کرنا ہے ، بلکہ ابو المنصور تو کہا کرتا تھا کہ:
“جس طرح چارپائی چار پایوں پر قائم ہوتی ہے اسی طرح ریاست بھی چار پایوں پر قائم ہوتی ہے ، اور ان میں سے ایک عدلیہ ہے”

عمر بن عبد العزیز بھی عدلیہ کو ریاست کے پانچ اہم ستونوں میں شمار کرتے اور یہ صرف باتوں تک نہیں بلکہ عملی طور پر بھی تبدیلیاں نظر آتیں ، ابتدائی طور پر خلیفہ ہی قاضی ہوتا ، پھر قاضی کا الگ عہدہ بنایا گیا ، پھر مختلف عدالتیں قائم ہوئیں ، کہیں بادشاہ وقت خود لوگوں کو سن رہا ہے تو کہیں قاضی القضاۃ کی مجلس لگی ہے ، اور کہیں چھوٹے موٹے فوری فیصلوں کیلئے الگ قاضی کی ڈیسک نظر آ رہی ہے ، لیکن ان ساری تبدیلیوں میں وکیل کا سسٹم کہیں نظر نہیں آتا ، بلکہ مدعی اور مدعی علیہ قاضی کے روبرو پیش ہوتے ، موقع آنے پر گواہ بھی حاضر ہو جاتے اور معاملات یونہی نمٹتے رہتے ، اس میں سالوں نہیں لگتے بلکہ ۔۔۔۔۔ اس میں کوئی فرق نہیں ہوتا کہ مدعی کون ہے اور مدعی علیہ کون ؟

کبھی تو حال یہ بھی ہوا کہ شجاعت و بہادری کے نشان حیدرِ کرار ایک یہودی کے برابر میں بطورِ مدعی علیہ بیٹھے ہوئے نظر آئے ، کبھی تاریخ نے عمر بن عبد العزیز کو رعایا کے کسی عام فرد کے ساتھ بیٹھے قاضی کو جواب دیتے ہوئے پایا تو کبھی خلیفہ مامون کو قاضی نے بچھونے پر بیٹھنے سے روک دیا کیونکہ مدعی فرش پر تھا۔۔۔۔۔لیکن کبھی بھی ان عدالتوں میں قاضی یہ کہتے ہوئے نہیں سنا گیا کہ:
“تم جاؤ اور عدالتی ضوابط و قوانین پڑھ کر آؤ ، اور اپنے دعوے کو تقویت دینے والے دلائل جمع کرو” یا پھر یہ کہا ہو کہ
“تم چونکہ عدالتی پروٹوکولز سے نا واقف ہو اس لئے جاؤں اور واقفیت رکھنے والے کو لاؤ”
بلکہ نا واقفیت کی صورت میں قاضی خود ہی بتا دیا کرتا اور مدعی اور مدعی علیہ دونوں ہی کیس کی پیروی کرتے اور فیصلوں کو بخوشی و رضا قبول کر لیتے۔

julia rana solicitors london

یقین جانیں لوگ اپنے خلاف فیصلہ ہونے پر بھی خوش ہوتے ، کہ چلو جو بھی تھا دنیا میں نمٹ گیا ، اپنی سزا کیلئے خود چلے آتے۔۔۔۔اور یہ سب برکتیں تھیں اس نظام کو جو وحی کے ذریعہ ہمیں دیا گیا۔۔
لیکن پھر ہماری مت ماری گئی اور اب ہم ایسے سسٹم میں ہیں جہاں ایک ملزم مجرم بن جاتا ہے اور مجرم کو موت کی سزا بھی ہو جاتی ہے لیکن وہ شکوہ یہ کرتا ہے کہ۔
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا

Facebook Comments

زید محسن حفید سلطان
ایک ادنی سا لکھاری جو ہمیشہ اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply