بیوگی کا ٹیگ/سلمیٰ کشم

کپڑے کی دکان پہ بیٹیوں کو کپڑے دلواتے ہوئے عبیرا کو کھلتے آتشی رنگ کا ایک سوٹ بہت دلکش لگا۔ سٹف بہت اچھا تھا پرنٹ بھی دل کو بھا گیا ، یہ رنگ اسے ہمیشہ سے پسند تھا اس کی رنگت پر خوب کھلتا بھی تھا۔

میم یہ بالکل نیا والیم ہے بے حد پسند کیا جارہا ہے، لے لیں خوب جچے گا آپ پر۔۔۔

ملازم نے اس کی آنکھوں میں پسندیدگی دیکھ کر کہا۔ عبیرا نے سوٹ ہاتھ سے یوں چھوڑا، جیسے کرنٹ لگ گیا ہو ۔ بیٹیوں کے پسند کردہ کپڑے پیک کروائے، ادائیگی کی اور بیٹیوں کے ساتھ تیزی سے باہر نکل آئی۔

گرمی کی  تپش، جون جولائی کی دن کو جھلسانے والے گرمی حبس زدہ راتیں جہاں کائنات کی بہترین تخلیق انسان کو اس کے وجود سے متنفر کر دیتی ہیں وہاں اچانک چلنے والی خوشگوار ہوا ، جھلسے بدنوں کو ترو تازہ بھی کرتی ہے۔آسماں کی چھاتی پر رقص کرتی سرمئی گھٹائیں جب دعاوں کا سندیسہ قبول کر لیتی ہیں ۔ نھی ننھی بوندوں کا جلترنگ مٹی کے بوند بوند ترستے جسم کو اپنی قربت کی خوشی سے سرشار کرتا ہے۔اس جہاں کی ہر جاندار شے ملن کی سرشاری کی جستجو رکھتی ہے ۔جو وجود کے سرور سے شروع ہو کر روح کی سیرابی تک کا سلسلہ ہے تشنگی کا حاصل پیاس ہی تو ہے جو فطری تقاضوں کی تابع ہے۔جب چاند اماوس سے پہلے اپنے جو بن پر آتا ہے اس کے ہر داغ سے روشنی کے ہالے بنتے ہیں ، نہ صرف چاند اور چاندنی کا وصل ان انمول لمحات کی تکمیل کرتا ہے ، ہر دیدہ فروزاں کے لیے یہ نظارہ داستان وصل کی تکمیل کرتا نظر آتا ہے چکور جس طرح دیوانہ بنا پھرتا ہے۔ جیسے مور بارشوں میں دیوانہ وار ناچتا ہے، ہجر و کرب کے جتنے طویل اور درشت وقت جھیلے ہوں وصل کی چاہت بھی اتنی شد مد سے ابھر آتی ہے ،
یہ اس کائنات کا ایک بڑا سچ ہے جو جھٹلانے سے اپنی معنویت نہیں کھو سکتا۔ وصل کی صفت اور چاہ سے کوئی انسان ماورا نہیں یہی اس کا اصل گن ہے۔

عبیرہ نے بچوں کو رات کا کھانا دینے کے بعد بڑی بیٹی کے ساتھ مل کر کچن سمیٹا ، بچے اپنے کمروں میں سونے کے لیے چلے گئے ۔

عبیرہ کے ساتھ اس کی دس سالہ چھوٹی بیٹی سوتی تھی، جس سے اکیلے پن کی شدت میں کچھ کمی آجاتی۔بڑی بیٹی جو پندرہ سال کی تھی اسی کمرے میں لیٹ جاتی ۔جب کہ اس سے بڑے دونوں بیٹے اپنے کمرے میں لیٹتے  اور ساتھ والے کمرے میں عبیرا کی خالہ ساس اور سُسر سوتے ،دونوں کمروں کی درمیانی دیوار سانجھی ہونے کی وجہ سے وقتاً فوقتا ًساس سسر کی آوازیں آتی رہتیں۔

سر صاحب خاصے ہنس مکھ ، رنگین طبیعت اور صحت مند تھے، بس خالہ ساس کچھ بیمار رہتیں ،عبیرا کو اکثر رات میں ان کا خیال رکھنے کے لیے بستر سے اٹھنا پڑتا۔

عبیر اعشاء کی نماز کے بعد لمبی تسبیح پڑھتی ، شمر کے جانے کے بعد سے اس کا معمول تھا کہ عشاء سونے سے پہلے پڑھتی ،تاکہ سکون سے وظائف اور تسبیحات پڑھ سکے اور پڑھتے پڑھتے نیند بھی آجائے۔

شمر سے بچھڑے اسے ایک سال ہوا تھا، بچوں کے باپ سے جدائی کی تکلیف ان کا رونا اور اپنے آنسو پونچھتے ہوئے وہ ایک سال کی مسافت طے کر آئی ، کیسے طے ہوئی یہ وہی جانتی تھی ۔وہ 35سالہ نسوانیت سے بھر پور ایک خوبصورت پرکشش عورت تھی جس کا ساتھی بھری جوانی میں داغ مفارقت دے گیا۔

کہتے ہیں عورت پر جوانی دو بار آتی ہے پہلی جوانی کا آغاز تیرہویں سال سے جبکہ دوسری اور اصل جوانی تیس کے بعد شروع ہوتی ہے ، جب عورت اپنے آپ پر منکشف ہوتی ہے۔یہی وہ دور ہوتا ہے جب عورت کو اپنی پہچان ہوتی ہے اس کے نسوانی نشیب و فراز اپنے حسن کی تکمیل کو پہنچتے ہیں، عورت مزید پُرکشش لگتی ہے۔اس کے احساسات اور زیادہ خوبصورت اور نازک ہو جاتے ہیں ، وہ ہر دم اپنے جیون ساتھی کی چاہت کی اوڑھنی اوڑھے رکھنا چاہتی ہے ، اس کے جذبات زیادہ شدت سے سامنے آتے ہیں ۔ عبیرا کی دوسری جوانی کی سیج کانٹوں سے بھر گئی، محبت کرنے والے شوہر کی جدائی اس کی راتیں تاریک کر گئی۔ آنسو ، آہیں ، چپ، صبر کا چولا پہنے رکھنا، یہی بچا تھا اس کے پاس۔۔۔۔۔ شمر کی نشانی چار بچے ، ان کی تعلیم تربیت سب ضروری تھا تین بچے جو ٹین ایج میں تھے ان کا خیال رکھنا بذات خود بہت بڑی ذمہ داری تھی ۔

سسرال والے کھاتے پیتے لوگ تھے معاشی تنگی نہیں تھی ۔

“تم ٹھیک ہو نا؟ بچوں کو کوئی مسئلہ تو نہیں؟ کسی بھی چیز کی ضرورت ہو فون پہ بتا دیا کرو بچے کسی چیز سے محروم نہ رہیں۔ ”

بڑے بھائی جب آتے یہی جملہ دہراتے۔ اس سے ملتا جلتا جملہ بچوں کے چچا اور دادا کہتے۔

عبیرا کو بچوں کے لیے جو چاہیے ہوتا ،بتادیتی یا شکریہ کہہ کر سر جھکا لیتی۔

آنے والے دنوں میں اس کی صحت گر رہی تھی ، مہینے کے کچھ خاص دنوں عجیب انزائیٹی غیر معمولی سطح پر آجاتی ، اس کی رنگت اور حسن کملا رہا تھا ،وہ رات کو سو نہیں پاتی، اس کا جی چاہتا ہے اپنا گریبان چاک کر کے چیخنا شروع کر دے ، بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روئے مگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تھی۔

عبیرا کا ہر دن گھر اور بچوں کی فکر میں مصروف تر اور رات، شب یلدا تھی ۔رات کی تنہائی عجیب خوف ، بے بسی اس کی نیند اچک لیتا ، بنا الارم کے وہ تہجد کے لیے اٹھ جاتی اور ربّ کے کے ساتھ راز و نیاز کرتی رہتی۔

وہ ایک عزت دار شخص کی بیوہ تھی خاندانی لوگوں کی بہو تھی اور ایک مجبور ماں تھی۔ کسی عزیز سے عزیز رشتے کو اس کا حال نظر کیوں نہیں آتا ۔۔۔ دیکھنا یا سمجھنا نہیں چاہتے اور یہی بیوگی کے ٹیک کا تقاضا تھا۔

” آج سامیع نے آنا ہے کیوں نا کوئی ڈھنگ کا جوڑا پہن لوں”

اس کی بچپن کی دوست ثمر کے جانے کے بعد آج اس سے ملنے آرہی تھی۔

الماری میں ٹنگے ایک سے ایک خوبصورت جوڑے بس اب دیکھنے کے لیے رہ گئے  تھے، وہ نہیں پہن سکتی تھی ، بہت ساری پروڈکٹس سکن کئیر کی چیزیں میک اپ دھرے کا دھرا رہ گیا ،دل  نہیں  رہا روح روٹھ گئی۔۔۔۔۔ ایسی بات بھی نہیں تھی ۔
وہ جینا چاہتی تھی ، پہننا اوڑھنا چاہتی تھی، اس کی زندگی تھی اس کا حق تھا لیکن نہیں وہ ٹیک شدہ تھی یہ سب وہ کیسے کر سکتی تھی۔

سامیع نے عبیرا کی یہ حالت دیکھی تو ذرہ  برابر حیران نہیں ہوئی کیونکہ وہ عبیرا کی رگ رگ سے واقف  تھی ۔ سامیع نے بات گھمانے کی بجائے سیدھا مدعا بیان کر دیا کہ وہ اپنے بھائی وصی کے ساتھ کس مقصد کے لیے آئی ہے۔ وصی بھی بیوی کے انتقال کے بعد دو بچوں کے ساتھ تنہا تھا۔ عبیرا اور اس کی شادی سے پہلے بے تکلفی بھی رہی۔

خالا  ساس ، سسر سارے رشتہ داروں نے عبیرا کے خلاف ایک محاذ کھڑا کر دیا کہ اس کی ایما پر رشتے کی بات چلی ہے۔ عبیرا نے نظر بھر کے وصی کی طرف دیکھا بھی نہیں تھا ( یہ الگ بات تھی کہ اس کے دل میں کیا چل رہا تھا)

کئی دن وہ اپنے نو عمر بچوں سے شرمندہ ہوتی رہی ۔

اپنے بیگانے سب ایک صف میں تھے ۔

رشتے داروں میں عبیرا کے لیے موجود ہمدردانہ جذبات برانگیتہ جذبے میں بدل گئے ۔

وہ دیور جو بھا بھی آپا  بھا بھی آپا کہتے نہیں تھکتے تھے ،عجیب نظروں سے اسے گھورنے لگے اور  شمر  کے کزنز بھی سامنا ہونے پر اس کے  جسم کے آر پار ہونے والی نظر ڈالتے ۔۔

عبیرا کی کوشش  ہوتی کہ اب کسی مہمان کے سامنے بھی نہ آئے ۔  شادیوں اور دیگر فیملی اجتماعات پر جانے سے کتراتی کیونکہ خاندان کے ہی مرد بچوں کا رسمی حال چال پوچھنے کے بہانے اپنا مقصد پانے کی کوشش کرتے ، جب جانا ترک کر دیا تو رشتے داروں کی ناراضگی مول لینی پڑی۔ جس کا کوئی محافظ نہ ہو اسے ہر کوئی ہتھانا چاہتا ہے ،وہ کسی ہاری جنگ کا مال غنیمت تھی جسے سب لوٹ لینا چاہتے تھے ، وہ اپنے اندر ہونے والی جنگ سے لڑ رہی تھی دنیا نے ایک جنگ باہر چھیڑ رکھی تھی۔

پھر ایک دن وہ ڈاکٹر سائرہ قاظمی کے کلینک میں بیٹھی کہہ رہی تھی ۔ بھلے آپ کوئی دوا دیں یا آپریشن کریں مگر میری زندگی آسان کر دیں ،

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے بد صورت بنادیں ، مجھے نسوانیت سے آزاد کر دیں۔۔۔ مجھے مرد کی ضرورت محسوس نہ ہو ۔۔۔۔۔۔ میں عورت نہیں رہنا چاہتی پلیززز”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply