بھائیو سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم اس وقت بھارت کی ٹیم سے ہر معاملے میں کم تر ہے۔ انتظامی معاملات ہوں، پلئیرز کی سلیکشن ہو، ہٹرز کی کوالٹی ہو، میچ کے دوران مضبوط اعصاب کی بات ہو یا پلاننگ کا مرحلہ، ہم ہر معاملے میں اس وقت ان سے پیچھے ہیں۔ لیکن کیا کریں کہ یہ دل مانتا ہی نہیں۔
اپنے پلئیرز کو ہی دیکھ لیں، پورے سکواڈ میں صرف تین بلے باز ہیں جن پہ کسی حد تک بھروسہ کیا جا سکتا ہے، بابر، رضوان اور فخر۔ ان کے مسائل اپنی جگہ لیکن باقی پورے سکواڈ میں تو کوئی اایسا ہے ہی نہیں جس نے بیٹنگ میں انٹرنیشنل لیول پہ کوئی پرفارمنس دے رکھی ہو۔
اعظم خان تقریباً پندرہ میچز کھیل کر ابھی تک مجموعی طور پہ سو رن نہیں بنا پایا۔ ایوریج اس کی دس رنز فی میچ کی بھی نہیں۔ آئرلینڈ کے دو میچز نکال دیں تو اتنے میچز میں اس کا ٹوٹل سکور پچاس بھی نہیں بنتا۔
صائم ایوب اکیس میچز کھیل کر پندرہ کی ایوریج سے سکور بنا رہا ہے۔ ٹانگ اٹھا کر چھکا مارنے کے علاوہ اس کے کریڈٹ پہ ہے ہی کیا؟
عثمان خان کے پلے پی ایس ایل کی تین سنچریوں کے علاوہ کیا ہے؟ یو اے کی کچھ لیگز کا تجربہ، بس؟ سات میچز کھیل کر اس کی ایوریج سولہ رنز کی ہے۔
شاداب خان کو بطورِ بیٹسمین کھلانا چاہ رہے ہیں کیونکہ باؤلنگ والا شعبہ تو اس کے بس میں ہی نہیں رہا۔ لائن لینتھ اس کی خراب ہوئی پڑی ہے، گیند اس سے سوئنگ نہیں ہوتی۔ اور بیٹنگ میں چند پی ایس ایل اننگز کے علاوہ اس کے پلے کچھ نہیں لیکن ہم اسے ہی کھلائیں گے کیونکہ ہمیں پورے پاکستان میں اور کوئی کھلاڑی، کوئی بیٹسمین اس قابل ہی نہیں لگتا۔
ابرار احمد کو دو سال سے بس سیر کروانے کے لیے ہی رکھا ہوا ہے ہم نے۔ میچز میں تو اس کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔
حارث رؤف مسلسل ناکام ہو رہا ہے، رنز کھا رہا ہے لیکن ہمیں ورلڈکپ میں بھی اسے ہی مسلسل کھلانا ہے۔
عامر کے پلے ماضی کی شاندار باؤلنگ کے علاوہ کیا ہے؟ اس پی ایس ایل یا اس سے پہلے کھیلی گئی پانچ سات لیگز میں مجموعی طور پر پہ اس کی پرفارمنس کیا تھی؟
شاہین شاہ کو آل راؤنڈر کہلانے کا شوق چڑھا ہوا ہے۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے بیٹنگ پہ توجہ دیتے دیتے اس نے اپنی باؤلنگ خراب کر لی ہے۔
تو بات یوں ہے کہ اعظم خان ہو، صائم ہو، حارث روؤف ہو یا کوئی اور۔ پچھلے کچھ عرصے میں مسلسل ناکام ہونے کے بعد ان کی ورلڈکپ میں گنجائش بچتی تھی کیا؟
کسی سپنرز کی کوئی گیند خطرناک نہیں محسوس ہو رہی ہوتی۔ کسی کھلاڑی میں جیتنے کا کوئی جذبہ نظر نہیں آ رہا ہوتا۔ ایسا لگ رہا ہوتا ہے سب اپنے لیے ہی کھیل رہے ہیں، ملک جیتے یا ہارے یہ اہم ہی نہیں ان کے لیے۔
ہم نے تو سکواڈ میں بھی کوئی ایسے کھلاڑی نہیں رکھے جو ان کے ناکام ہونے پہ ان کا متبادل بن سکیں۔ نہ ریزرو کے طور پہ کوئی کھلاڑی ساتھ رکھے ہوئے ہیں۔ البتہ ہماری ایڈمنسٹریشن اپنی فیملیز کے ساتھ جہاز بھر کے امریکہ کی سیر کرنے ضرور گئی ہوئی ہے۔
یا تو قبول کریں کہ ہم پوری طرح زوال پذیر ہو چکے ہیں اور ہمارے پاس ان سے بہتر کھلاڑی ہی نہیں رہے۔ یا یہ قبول کریں کہ ہم نے بس پی ایس ایل میں بلے گھمانے والے ہر کھلاڑی کو سر پہ بٹھا لیا ہے، جن میں ابھی انٹرنیشنل میچز کھیلنے کی صلاحیت ہی نہیں۔
سونے پہ سہاگہ ہماری انتظامیہ ہے، ہمارے میچز میں کیے گئے فیصلے ہیں۔ ہماری فضول ترین قسم کی کپتانی ہے۔ سادہ سی مثال پچھلے میچ میں آخری گیند پہ فیلڈنگ سلیکشن دیکھ لیں۔ جب گیند بلے کے نیچے کروانے کا پلان تھا تو فیلڈنگ اس حساب سے کیوں نہیں سیٹ کی گئی تھی؟ سپر اوور میں ایکسٹراز کے بنے رنز دیکھ لیں یا ہمارے بھیجے گئے بیٹسمینوں کی ترتیب دیکھ لیں۔ سب شرمناک ہے۔
تو سادہ سی بات یہ ہے کہ ہیں تو ہم بھارت سے بہت پیچھے لیکن میچ والے دن کچھ بھی ہو سکتا ہے، اس لیے ہم امیدیں لگا کر میچ تو ضرور دیکھیں گے۔ لیکن اس کمزور ٹیم، فضول انتظامیہ اور عام سے کھلاڑیوں سے زیادہ توقعات لگانے کی ضرورت نہیں۔
اللہ کرے پاکستان جیت جائے اور اس کا حل یہی ہے کہ مصلے بچھا لیں، تسبیح پکڑ لیں۔
کہ میچ ہم دعاؤں سے ہی جیت سکتے ہیں، ان کھلاڑیوں سے نہیں
رہے نام اللہ کا !
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں