آجکل منبرومحراب سے بڑی شدومدسے ایک بات کہی جارہی ہے کہ جس مسلمان نے قربانی کرنا ہو اسکے لئے یکم ذی الحج سے دس ذی الحج تک بال اور ناخن کاٹنا ممنوع ہے-
ہم توخیر “غیرقرآن” کواپنے دین کا ریفرنس مانتے ہی نہیں مگر دین حق کے اندربنایا گیایہ نیا کھڑاگ، نہ تو قرآن سے ثابت ہے اورنہ حدیث سے- (ایک ” مزعومہ حدیث” پربھی گفتگو ہوگی مگرپہلے چند اصولی باتیں کرلیتے ہیں)-
اگرچہ دس دن کوئ بڑا عرصہ نہیں مگرسوال یہ ہے کہ یہ پابندی آخرہے کیوں؟-
معدودے چند مولوی صاحبان گول مول اندازمیں بھاری عربی لفظ استعمال کرلیتے ہیں کہ اجی “مستحب” ہے- عوام کوعربی ٹرمینالوجی کاکیا پتہ؟ وہ بیچارے زیادہ مرعوب ہوجاتے ہیں-
حالانکہ مستحب کا معنی ہوتا ہے”پسند یدہ عمل” –
مگرکس کا پسندیدہ؟ خدا اوررسول کوتویہ حرکت پسند نہیں ہوسکتی- کیونکہ خدا نفاست اورجمال کو پسند کرتا ہے نہ کہ گندگی اورنجاست کو- چنانچہ سورہ اعراف آیت 32 کو شروع ہی بڑے سخت الفاظ سے فرمایا کہ ” قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ”- “ان سے پوچھو وہ کون شخص ہے جو اس زینت کو حرام قراردیتا ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کیلئے جائزفرمائ ہوئ ہے”-
جو خداکی پسند ہے، وہی تو اسکے رسول کی پسند ہے-
دیکھئے، میلاکچیلارہنا ہندوسادھواورنشئی ملنگوں کا کام ہے- مسلمانوں کا خدا، خود پاک ہے اوراپنے بندوں کیلئے پاکیزگی پسند فرماتا ہے-
پس یہ کون ہے جو مسلمانوں کو ہندوسادھو بنانا چاہتا ہے؟-
مسلم سیکولرزصاف عرض کرتے ہیں کہ ہم کسی بھی ایسی روایت کو حدیث رسول تسلیم کرنے سے انکاری ہیں جس سے غلاظت کو پروموشن ملتی ہو- اس لئے کہ یہ روح اسلام کے خلاف ہے-
جیسا کہ ہم بخاری شریف کی اس حدیث کو رسول کا کلام نہیں سمجھتے کہ “روزہ دارکے منہ کی بدبو،اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبوسے زیادہ پسندیدہ ہے”-
بندے بندوں کے ساتھ رہاکرتے ہیں نہ کہ خداکے ساتھ- (اوردیگرانسانوں کو بدبوسے تکلیف ہوتی ہے)-
یہاں ہم اپنا موقف واضح کرتے ہیں کہ اس حدیث کوتسلیم نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس کو جھوٹی روایت ہی سمجھتے ہیں بلکہ ہم اس بارے سارے احتمالات کوسامنے رکھتے ہیں-
مثلا” یہ ممکن ہے کہ رسول اکرم کی بات پوری طرح رپورٹ نہ ہوئ ہو- یہ بھی ممکن ہے کہ کسی راوی سے سننے میں غلطی ہوئ ہو یا لکھنے میں- یہ بھی ممکن ہے کہ واقعی جھوٹ گھڑا گیا ہو- جو بھی ہو، ہم اس حدیث کو سماجی زندگی کیلئے ریفرنس نہیں سمجھتے-
خالص مذہبی رسومات (جیسا کہ حج وعمرہ) میں اگر کوئ خلاف معمول ہدایات دی گئی ہوں تو وہ قبول کی جاسکتی ہیں- کیونکہ حج ایک خالص مذہبی رسم ہے(جس سے باقی دنیا کو سروکار نہیں ہوتا)-وہاں اجتماعی قربانیوں کیلئےایک ایسا الگ مقام مقرر ہوتا ہے جوشہرسے دورواقع ہے- وہاں پرچند دن کیلئے احرام باندھا جاتا ہے مگرحالت احرام میں بھی حاجی کے نہانے دھونے پر پابندی نہیں ہے- اگر احرام کی حالت میں حاجی پربال یا ناخن کاٹنے کی پابندی ہے تو یہ ایک خاص مقام پران خاص لوگوں پرہےجو اپنی مرضی سے ایسا کرنے وہاں جاتے ہیں ( نہ کہ ہرگلی محلے میں احرام میں لپٹے لوگ پھررہے ہوتے ہیں)-
اسکے باوجود، حج وعمرہ کیلئے بھی ہم ایسی احادیث کو رسول اکرم کاکلام نہیں سمجھتے کہ” خدا کو وہ حاجی پسند ہے جو میلا کچیلا ہو، اسکے بال بکھرے ہوں” –
ظاہرہے کہ کسی بھی حدیث کی کتاب میں درج، کسی بھی روایت کو حدیث رسول تسلیم نہ کرنے سے بندہ کافر قرارنہیں دیا جاسکتا-(البتہ قرآن کی کسی آیت کو کلام الہی نہ سمجھنے سے بندہ کافر ہوجاتا ہے)-
یہ بات نہیں کہ مولوی صاحبان کے پاس ناخن وبال کاٹنے بارے کوئ حدیث موجود نہیں ہوگی-( درجنوں مسالک اور سینکڑوں قسم کےمذہبی ڈراموں کیلئے ہرقسم کی روایات واحادیث ہمارے لٹریچر میں موجود ہیں جوفریقین ایک دوسرے کیلئےغلط بھی ثابت کرتے رہتے ہیں)-
چنانچہ اس بارے بھی زوجہ رسول ام سلمہ کی حدیث پیش کی جاتی ہے کہ جناب رسول اکرم نے ان دس دنوں میں ناخن اوربال کاٹنے سے منع کیا ہوا ہے-
مگرمزےکی بات یہ کہ ایک اورزوجہ رسول حضرت عائشہ سے بھی ایک حدیث مروی ہے جس میں یہ بتایا گیا کہ نبی اکرم نے انہی ایام میں ، کوئ ایسا کام ممنوع نہیں کیا تھا-
محدثین اس پرمتفق ہیں کہ حضرت عائشہ والی حدیث، حضرت ام سلمہ والی حدیث سے زیادہ مضبوط ہے- مگرمسلم سیکولرز کو اس سے غرض ہی نہیں کہ محدثین کے پاس حدیث کو وزن کرنے کا کون سا پیمانہ ہوتا ہے؟ ہمیں تو چونکہ ایسی احادیث، قرآنی حکم ” قل من حرم زينة الله التي أخرج لعباده” سے متصادم نظر آتی ہیں تو بلا کسی حیل وحجت کے، ہم انہیں حدیث رسول تسلیم کرنے سے انکاری ہیں-
تمام مسلمانوں کو ہماری طرف سے یہی نصیحت ہے کہ آپ اپنے روٹین کے مطابق بال وناخن کاٹا کیجئے- کسی کو یہ اختیار نہیں کہ اس زینت کو آپ پرحرام قراردے جواللہ نے آپ کیلئے حلال کی ہوئ ہے- باقی آپکی دل چسپی کیلئے دونوں احادیث کا متن پیش کردیتا ہوں-
سیدہ امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت:
صحیح مسلم میں اِس روایت کا ایک متن اِن الفاظ میں نقل ہوا ہے کہ: قَالَ رسول الله ﷺ: «إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَعِنْدَهُ أُضْحِيَّةٌ يُرِيدُ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلَا يَأْخُذَنَّ شَعْرًا، وَلَا يَقْلِمَنَّ ظُفُرًا». (صحیح مسلم، رقم١٩٧٧)
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عشرۂ ذی الحجہ شروع ہوجائے تو جس شخص کے پاس قربانی کا جانور موجود ہو، جس کی قربانی کرنے کا وہ ارادہ رکھتاہے تو وہ (قربانی کرنے تک) ہرگز اپنے جسم کے کوئی بال اتارے، نہ کوئی ناخن تراشے‘‘۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت:
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: ’’كُنْتُ أَفْتِلُ الْقَلَائِدَ لِهَدْيِ رَسُولِ اللهِ ﷺ، فَيَبْعَثُ بِهَا ثُمَّ يُقِيمُ عِنْدَنَا، وَلَا يَجْتَنِبُ شَيْئًا مِمَّا يَجْتَنِبُ الْمُحْرِمُ‘‘.(مسند احمد، رقم۲۵۵۸۰)
’’سیدہ عائشہ کا بیان ہے: میں نبی ﷺ کی ہدی کے جانوروں کے قلادے (اپنے ہاتھوں سے) بٹا کرتی تھی۔ پھر نبی ﷺ اُسے (مکہ مکرمہ) روانہ کر کے ہمارے ساتھ (مدینہ ہی میں) مقیم رہتےاور جن کاموں سے آدمی حالتِ احرام میں اجتناب کرتا ہے، آپ اُن میں سے کسی کام سے اجتناب نہیں کیا کرتے تھے‘‘۔
یعنی حالت احرام میں اگربال وناخن کاٹنا منع ہے تو نبی اکرم نے قیام مدینہ میں، ایام حج میں، بال وناخن کاٹے ہی ہونگے توتبھی ام المومنین نے فرمایا کہ ان کاموں سے اجتناب نہیں کیا کرتے تھے (ورنہ دس دن تو معمول میں بھی آدمی وقفہ کرہی لیا کرتا ہے)-
باقی، یہ کہ اللہ نے ہم سے یہ تو نہیں پوچھنا کہ آپ نے کس بزرگ کی مان کرزندگی گذاری تھی البتہ یہ ضرور پوچھنا ہے کہ میری کتاب تیرے پاس پہنچ چکی تھی تو اس پر میرا عطا کیا ہوا دماغ بھی کبھی استعمال کیا تھا یا نہیں؟ –
بشکریہ فیسبک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں