الزام سے پہلے تحقیق کرلو/محمد جمیل آصف

گیس کی سہولت سے پہلے متمول گھرانوں میں مٹی کے تیل کے چولہے کو کچن میں استعمال کیا جاتا تھا ۔
اس  کی وجہ سے حادثات کی خبریں اخبار کی زینت بنتیں ۔فلاں گھر کی بہو کھانا بناتے ہوئے مٹی کے تیل کا چولہا پھٹنے سے جل کر جاں بحق ہوگئی ۔بیشتر واقعات میں بہوئیں ہی اس چولہے کا شکار بنتیں۔
واقعات کی تحقیقات ہوتیں، میکہ اگر بااثر ہوتا تو اصل حقائق سامنے آ جاتے ۔
پھر موبائل فون کا دور آیا ،اور اس محاورے کے مطابق سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔ہمیشہ بہو ہی کسی سے بات کرتے پکڑی  جانے لگی ۔کردار پر انگلی اٹھتی ۔بیٹے کو غیرت کا طعنہ دیا جاتا اس کے دل میں شک، بدگمانی کا بیج بو دیا جاتا ۔جو بالآخر جڑ پکڑ لیتا اور بہو کا پتہ صاف ہو جاتا.
بہو کو طلاق کا پروانہ پکڑانے یا گھر بدری کا فیصلہ سنانے سے پہلے  اس  کی خوب  تشہیر کی جاتی ۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے شوہر تو  کام پر ہوتا ہے, گھر کے دیگر مرد حضرات بھی اپنی مصروفیات میں مشغول  ہوتے ہیں ۔تو ایسی باتوں کی ترسیل کون کرتا ہے؟
ظاہر ہے سسرال میں ساس یا نند، دیورانی جیٹھانی ہی باقی بچتی ہیں ۔دیورانی اور جیٹھانی کی نسبت ساس یا نند ہی زیادہ تر ایسے واقعات کی راوی ہوتی ہیں ۔
معاشرے میں بہو اور ساس، بھابھی اور نند کا رشتہ کتنا مضبوط ہے وہ سب ہی جانتے ہیں ۔

یہاں شوہر جس کو براہ  راست بتانے کے بجائے اردگرد کی خواتین یا مردوں کو بہو کے بارے آگاہ کرکے پہلے اس کا امیج خراب کیا جاتا ہے پھر بات بیٹے یا بھائی تک پہنچا کر،مٹی کے تیل کا چولہا پھاڑ دیا جاتا ہے ۔اور پھر بہو روحانی سماجی اور معاشی طور پر  جل کر بھی دوسروں کی نظر میں مجرم ہی  ٹھہرتی ہے ۔

یہاں سوال اس مرد سے ہے جو یہ سوچنے سے قاصر رہتا ہے ۔جس بات کو اس کی شریک حیات سے منسوب کیا گیا ہے اس میں حقیقت کتنی ہے ۔سوائے اس بات کے بتانے والی یا والا اس کی ماں، باپ، بہن یا بھائی ہیں ۔وہ یقین کر لیتا ہے ۔

julia rana solicitors

محروم ڈرامہ میں اس پہلو کی  بڑی خوبصورتی سے عکاسی کی گئی ہے ۔ ہر مرد یا عورت کو چاہیے وہ اپنے شریک حیات کیساتھ بھروسے کا رشتہ بنائے۔ کسی کی کردار کشی پر اللہ کی  پکڑ کے دنیا میں ہی  بیشتر واقعات عبرتناک انداز میں جب موجود ہوں ،تو عقل مندی اور فراست سے کام لینا چاہیے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply