سادگی میں ہی زندگی کا سکون پوشیدہ ہے اسلام سادگی اور سادہ طرز زندگی کا مذہب ہے اور ہر شعبہ زندگی میں اسلامی ثقافت اور طرز کو اپنانے کا حکم دیتا ہے۔ جس کے لیے ہمارے پیارے نبی ﷺ کی سنت ہمارے لیے مشعل راہ ہے ۔آپ نے ہر شعبہ زندگی میں سادگی پر عمل پیرا ہوکر ہمارے لیے مثال قائم کی ۔ لیکن خواہشات کی غلامی ،حرص وہوس اور اسکے اظہار کی خواہش نے ہم سے قناعت پسندی چھین لی ہے دنیا کی ریل پیل اور اسکے اظہار کی خواہش نے ہمیں سادگی سے محروم کردیا ہے اور ہم دوسروں کی دیکھا دیکھی اپنے دینی احکامات سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں ۔مجموعی طور پر اپنے معاشرےاور ماحول کا جائزہ لیں توپتہ چلتا ہے کہ نمود ونمائش کی بڑھتی ہوئی دوڑ ہمیں سادگی اور سادہ طرز زندگی سے محرم کرتی جارہی ہے جبکہ سادہ زندگی اسلام کا امتیاز اور بندہ مومن کی پہچان ہے لیکن ہماری خواہشیں اور تمنائیں ہمیں نمود ونمائش اور اسکے اظہار کی جانب راغب کر رہی ہیں جو سراسر دین سے دوری کا نتیجہ ہے اور ہمیں معاشرتی زوال کی جانب دھکیل رہی ہے ۔
اسلام باقی تمام معاملات کی طر ح شادی میں بھی بڑی سادگی کا حکم دیتا ہے اور اسے ایک فریضہ قرار دیتا ہے ۔ریاست بہاولپور ہمیشہ اسلامی طرز معاشرت کا گہوارہ رہا ہے ۔یہاں کی تمام تقریبات میں سادگی کو بنیادی حیثیت حاصل رہی ۔آج سے دو تین دہائی قبل تک یہاں شادی کی تقریب بڑی سادہ اور پروقار ہوتی تھی جس کا میں خود عینی شاہد ہوں ۔ خوشی کا بے پناہ اظہار کیا جاتا تھا رسم نقارہ و شہنائی ،جھومر ،گیت،جاگے،مہندی ،بارات ،نکاح ،رخصتی اور ولیمہ سب ہوتے مگر کوشش ہوتی کہ کسی فریق پر اخراجات کا بوجھ نہ پڑے ہر معاملے میں سادگی اختیار کی جاتی تھی ۔ کہتے ہیں یہ شادی کا رواج سرزمین عرب سے یہاں آیا تھا ۔شادی کے تمام اخراجات لڑکے والوں کی ذمہ داری ہوتی تھی یہاں تک کہ بارات کے لیے کھانا پکا کر بارات کے ساتھ لڑکے والے ہی لے جاتے تھے تاکہ لڑکی والوں پر بوجھ نہ ہو ۔ بری اور جہیز سب لڑکے والے کی ذمہ داری ہوتی، کسی نمودو نمائش کے بغیر دولہا ایک لال دوپٹہ گلے میں ڈال کر ڈھول والے جھمریوں اور گیت گانے والوں کے ساتھ آتا اور لڑکی والوں کے گھر پہنچ کر نہا کر نیا لباس تبدیل کرتا ۔ نکاح کے بعد چھوارے نچھاور کئے جاتے اور دعاکی جاتی اور رخصتی تاروں کی چھاؤں میں ہوتی اور دلہن کو شادی کے گیت گاتے ہوئے لایا جاتا تھا ۔ولیمہ کا کھانا پیسوں سے تول کر دیا جاتا تھا۔جو لینا اور کھانا لازمی تھا اسے برادری کا کھانا کہا جاتا تھا۔بعض اوقات ولیمہ بارات سے قبل بھی کر دیا جاتا تھا ۔اس طرح بے پناہ خوشیوں کے ساتھ ساتھ ما لی بوجھ بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا اور شادی کو فریضہ کی طرح سمجھا جاتا تھا ۔ اورپھر رفتہ رفتہ وقت اور زمانہ بدلنے لگا ۔ صورتحال تیزی سے بدلتی گئی رسم ورواج وہی ہیں مگر دولت اور پیسے کی نمائش میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور اپنی امارت کا اظہار کرکے ایک دوسر ے سے آگے بڑھنے کی دوڑ شروع ہوگئی اور شادی والدین کے لیے ایک مشکل ترین مرحلہ بنتا چلا گیا ۔لوگ ہندوانہ رسوم سے متاثر ہونے لگےاور اسلامی معاشرت سے دوری اختیار کرتے گئے ۔
ہمارے معاشرے میں شادی کی تقاریب میں ہندوانہ رسوم بڑی تیزی سے فروغ پانے لگی ہیں ۔ ہمارے ایمان کا یہ حال ہے کہ ہم زبان سے سے نفرت اور کردار سے انکے رسم و رواج سے محبت کرتے ہیں ۔آج منگنی اور پھر عید شب رات ،مایوں ،تیل،مہندی تک اورپھر بارات ،رخصتی اور مکلاے سے لیکر بچے کی پیدائش تک ہر رسم اور عمل اسلام اور قرآن وسنت کے خلاف ہندوانہ رسوم کے مطابق انجام پا رہی ہیں ۔یہ شادیاں اور تقاریب ہمارے مطابق ایک یادگار ہوتی ہیں اور یادگار سے مراد ہم ُ رسموں رواجوں اور اچھی خاصی فضول خرچی کو بتا رہے ہوتے ہیں ۔یہ ہمارے معاشرے کا بڑا دوغلہ پن ہے کہ ہم خوشی کے تین دن گزارنے کے لیے ساری زندگی کی جمع پونجی لگا دیتے ہیں اور اسے خوشی کا نام دیتےہیں ۔لڑکی والوں کو اپنی عزت اور لڑکے والوں کو اپنے اپنے معیار اور جھوٹی نمود ونمائش کی پڑی ہوتی ہے ۔یہ سب کچھ نبھاتے نبھاتے دو خاندان اپنا سب کچھ لٹا دیتے ہیں اور رب کی رضا حاصل کرنے کی بجائے انسانوں کو خوش کرنے اور اپنی جھوٹی انا کی تسکین کر رہے ہوتے ہیں ۔ بڑے بڑے ائر کنڈیشنڈ شادی ہال ،مہنگے مہنگے بیوٹی پارلر سے میک اپ ،لمبا چوڑا جہیز ،قیمتی عروسی ملبوسات،مہندی ،شادی اور پھر ولیمے کے لاتعداد کھانے ،فوٹو شوٹ ،موویزاور بے شمار ہندوابہ رسوم پر بے پناہ اخراجات اب ہمارے کلچر کا حصہ بن گئے ہیں ۔ جہیز ایک سماجی لعنت ہے جو لالچ کو فروغ دیتا ہے لمبے چوڑے جہیز کی غیر اسلامی رسم نے تو معاشرے کو دیوالیہ کرکے رکھ دیا ہے ہمارا معاشرہ جتنا پیسہ جہیز ، شادی بیاہ او ان فضول رسموں پر خرچ کر تا ہے اتنے پیسوں میں نیا جوڑا ایک خوشگوارزندگی شروع کر سکتا ہے ۔ میڈیا ،فلم اور ڈراموں نے اس میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے شادی کی رسوم میں شادی کی یہ فضول خرچی اب ہمارے معاشرے میں بھی نظر آتی ہے اور ہر شخص اپنی حیثیت سے بڑھ چڑھ کر اخراجات کرتا ہے ان سب رسوم کو نبھانے اور دیکھنے والے کوئی اور نہیں بلکہ میں اور آپ ہی ہوتے ہیں ۔لیکن نہ کوئی شور ہے ! نہ کوئی احتجاج ہے ! نہ ان غیر شرعی رسوم کے خلاف آواز !نہ اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کا ڈر !بلکہ رفتہ رفتہ برادری اور معاشرہ کے خوف سے خود بھی ان کا حصہ بنتے جارہے ہیں ۔ ان تما م ہندوانہ رسموں اور فضول خرچی کا خاتمہ ضروری ہے ۔ اگر صرف جہیز کی لعنت ہی ختم ہوجاے تو شادیاں سستی اور آسان ہونے لگیں تو کئی نوجوان بچیوں کے چہرے ان گنت خدشات سے پاک ہو جائیں گے اور غریب والدین داخلی زنجیروں اور فرسودہ رسموں کے طوق سے آزاد ہوکر اپنا یہ شرعی فریضہ ادا کر سکیں گے اسلام نکاح کو عام اور شادی کو آسان بنانا چاہتا ہے تاکہ معاشرے میں برائی جنم نہ لے ۔ آئیں ہر بے بنیاد اور غیر اسلامی رسم ورواج سے بغاوت کا اعلان کریں اور اسلامی طرز زندگی اپنا کر اس نیک کا م کا آغاز اپنے آپ سے شروع کریں تاکہ ہمارے آنے والی نسلیں ان رسموں سے آزاد زندگی گزار سکیں۔کیونکہ حالات کے مارے لوگ ہی معاشرے میں تبدیلی کا آغاز کر سکتے ہیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں