مندر کی سیاست کی ہار/ابھے کمار

جب ۶ جون کو عام انتخابات کے نتیجے آ رہے تھے، تو سب سے بڑا اُلٹ پھیر ایودھیا سیٹ میں دیکھا گیا۔وہاں سے بی جے پی کے دو بار کے ایم پی لَلّو سنگھ کی بُری طرح سے ہار ہوئی۔بی جے پی کی ایودھیا میں یہ شکست بھارت کے سماجی انصاف، سیکولر اور آئین کی جیت تھی۔شاید یہ مودی کی قیادت والی بی جے پی کے زوال کی شروعات ہے۔روزی، روٹی اور عوامی فلاح کے ایشوز کو بھگوا حکومتوں نے مسلسل نظر انداز کیا ہے اور ان کے دور ِحکومت میں کمزور طبقات کے مفاد پر گہری چوٹ کی گئی۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کی شدت پسند اعلیٰ ذات کی لابی آئین میں تبدیلی کرنے کا ناپاک ارادہ بھی رکھتی تھی۔اس کو امید تھی کہ اس بار مودی کی قیادت والی این ڈی اے کو ۴۰۰ سے زیادہ سیٹیں مل سکتی ہیں، اور پھر وہ ریزویشن کو ختم ختم کرنے کی پوزیشن میں ہوگی۔مگر ایودھیا کی عوام نے ان کا اصلی چہرا بے نقاب کیا ہے۔

یاد رہے کہ ایودھیا کی پارلیمانی سیٹ غیر محفوظ ہے۔یہ بھی ایک طرح کا سیاسی “کاسٹ ازم” ہے کہ بھارت میں دِلتوں اور آدیواسیوں کو اکثر محفوظ نشستوں سے ہی ٹکٹ دی جاتی ہے۔عام انتخابات سے چار مہینے قبل آدھے ادھورے رام مندر کا افتتاح وزیر اعظم نریندر مودی نے خود اپنے ہاتھوں سے کیا تھا۔اس کے بعد پورے ملک میں بی جے پی کے کارکنان گھوم گھوم کر تشہیر کر رہے تھے کہ جو رام کو لائے ہیں ان کو دوبارہ اقتدار میں لانا ہے اور جو “ملک کے غدار” ہیں اُن کو جیل میں ڈالنا ہے۔یہ مذاق نہیں تو اور کیا ہے کہ جو بی جے پی خود ۱۹۸۰ میں پیدا ہوئی، اس نے بھگوان رام کی گھر واپسی کروانے کا دعویٰ  کیا۔خود وزیر اعظم مودی نے انتخابی ریلیوں کے دوران یہ بات کئی دفعہ کہی ہے کہ اگر کانگریس اور سماجوادی پارٹی جیت جائیں گی، تو وہ رام مندر پر تالا لگا دیں گی۔ایودھیا سے قریب، بارا بنکی کی ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے، مودی نے ساری حدیں پار کر دیں اور کہا کہ سواجوادی پارٹی اور کانگریس اقتدار میں آ گئیں، تو وہ رام مندر پر بُلڈوزر چلوا دیں گے۔بھاجپا یہ ثابت کر رہی تھی کہ سیکولر پارٹیاں ہندو مخالف ہیں اور وہ دلتوں، آدی واسیوں اور پسماندہ ذاتوں کا ریزرویشن چھین کر مسلمانوں کو دینا چاہتی ہیں۔بھاجپا نے ایودھیا سے للو سنکھ جیسے مظبوط اور پرانے بھاجپائی کو ٹکٹ دیا۔مگر جب تنیجے سامنے آئیں، تو نفرت پر مبنی مندر سیاست کی ہوا نکل گئی۔

واضح رہے کہ سماجوادی پارٹی نے ایودھیا سے اپنے ایک پرانے لیڈر اور نو بار ایم ایل اے رہے اودھیش پرساد کو میدان میں اُتارا تھا۔اودیش پرساد پرانے سماجوادی لیڈر رہے ہیں۔ان کی سیاسی سفر کی شروعات سابق وزیر اعظم اور کسان لیڈر چودھری چرن سنکھ کی “بھارتیہ کرانتی دل” سے ہوئی تھی۔مگر جب ۱۹۹۲ میں ملائم سنگھ یادو نے سواجوادی پارٹی کی تشکیل دی، تو وہ ملائم کے ساتھ آ گئے۔اودھیش پرساد ایک پڑھے لکھے اور مقبول لیڈر ہیں۔انہوں نے قانون کی پڑھائی کی ہے۔مگر سیاست کو انہوں نے اپنا شغل بنایا۔لیکن جو بات بی جے پی کے حامیوں کو سب سے زیادہ کھٹک رہی ہے وہ یہ کہ اودھیش پرساد پاسی ذات سے آتے ہیں۔ اور اس طرح للو سنگھ کو ایک دلت کے ہاتھوں منہ کی کھانی پڑی۔اسی ایودھیا میں چار مہنیے پہلے رام مندر کا افتجاح ہوا تھا۔خود مودی، سوکولر اصول کو دفن کر کے وہاں پوجا پر بیٹھے تھے۔مگر ایودھیا کی اعظیم جنتا نے بھاجپا کی پول کھول دی۔یہ جیت اس لیے بھی اہم ہے کہ بھارت کی انتخابی تاریخ میں کم ہی ایسا موقع ہے، جہاں کسی دلت اور آدی واسی کو غیر محفوظ سیٹ سے اتارا گیا ہو اور اس نے جیت بھی حاصل کی ہو۔ایودھیا میں بھاجپا کی ہار اصل معنوں میں سماجی انصاف اور گنگا جمنی تہذیب کی جیت ہے۔تمام نفرت پر مبنی پروپیگندے کے باوجود، ۷۹ سالہ اددھیش پرساد نے ۵۴ ہزار سے زیادہ ووٹوں سے جیت درج کر بڑا پیغام دیا ہے۔مگر بھگوا جماعت اس ہار کو اب تک ہضم نہیں کر پا رہے ہیں۔جیسے ہی سپا کے دلت امیدوار کی جیت کی خبر سامنے آئی، بھگوا حامی غصے سے لال ہو گئے۔انہوں نے ایودھیا کے رائے دہندگان، بالخصوص دلتوں کو بری طرح سے گالیاں دیں اور ان کو رام کا “غدار” کہا۔سوشل میڈیا پر بہت سارے ایسی پوسٹ شائع ہوئے،جن میں ایددھیا درشن کرنے والے رام بھکتوں سے یہ اپیل کی گئی کہ وہ مقامی لوگوں کی دکانوں سے کچھ بھی نہیں خریدیں اور رام، دھرم اور ملک کے ساتھ غداری کرنے کی. “پاداش” میں مقامی ہندو سماج کا معاشی بائیکاٹ کریں۔ایک لمبے عرصے سے یہی فرقہ پرست عناصر مسلمانوں کے اقتصادی بائیکاٹ کی اپیل کرتے آ رہے ہیں۔ یہ سب دکھلاتا ہے کہ رام کے نام پر سیاست کرنے والے نہ تو مسلمانوں کے خیر خواہ ہیں اور نہ ہی ان کو ہندو سماج کی ترقی سے بہت مطلب ہے۔بات تو اب اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ایودھیا کے نو منتخب دلت رکن پارلمنٹ اودھیش پرساد کو گالیاں اور دھمکیاں مل رہی ہیں۔سماجوادی پارٹی نے اتر پردیش کے محکمہ داخلہ کو ایک خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ پرساد کو زید پلس سکورٹی فراہم کی جائے۔

بی جے پی کے حامیوں کو ایودھیا کے رائے دہندگان کو گالی دینے کے بجائے، اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ مودی اور یوگی حکومتوں میں ان کو کیا حاصل ہوا ہے؟ واجب تو یہ ہے کہ وہ سوال بر سر اقتدار بی جے پی سے پوچھیں کہ جب بی جے پی وجود میں نہیں تھی، تب ہندو سماج واقع غیر محفوظ تھی؟ پھر کہنا چاہوں گا کہ ایودھیا کے عوام نے ملک کو بڑا پیغام دیا ہے کہ مندر اور مسجد کے تنازع پر مبنی سیاست کو ترک کیا جانا چاہیے۔مقامی لوگوں نے مذہب کے نام پر ووٹ دینے سے انکار کیا ہے اور روزی روٹی کے سوال کو اہمیت دی ہے۔مثال کے طور پر، رام مندر بنانے کے نام پر ایودھیا کے مقامی لوگوں کی زمیں تو ہڑپ لی گئیں اور غریبوں کے مکان توڑ دیے گئیں، مگر جب دکانوں کی تقسم ہو رہی تھی، تو کمزور طبقات کو نظر انداز کیا گیا۔رام کے نام پر گھر غریبوں کا ٹوٹا، مگر ملائی پیسہ والے اعلیٰ ذات کے لوگوں نے کھائی۔ایودھیا کے رائے دہندگان نے ووٹ دیتے وقت ان ایشوز کو ذہن میں رکھا کہ ایودھیا میں پڑھنے والے نوجوانوں کو صرف رام مندر کے درشن سے ہی تعلیم اور روزگار نہیں مل جائے گی۔ایودھیا والوں نے اس بات کو بھی سامنے رکھا کہ اتر پردیش میں بھاجپا کی حکومت مسلسل عوامی مسائل کو در کنار کر رہی ہے۔بھاجپا کو چاہیے کہ وہ ایودھیا کے نتائج پر سنجیدگی سے غور و فکر کریں اور اپنی کمیونل سیاست کو چھوڑ دے۔

julia rana solicitors

مودی نے تیسری بار حکومت سازی کر لی ہے، مگر ان کو یہ نہیں فراموش کرنا چاہیے کہ او بی سی اور دلت سماج کا ایک بڑا حصہ ان سے ناراض ہے۔ایودھیا کے نتائج ان تبدیلیوں کے گواہ ہیں۔مودی کی جیت کی بات ضورت بھاجپا والے چیخ چیخ کر کر رہے ہیں، مگر ان کو یہ نہیں دکھتا کہ این ڈی اے اتحاد ایک بھی مسلم، سکھ، بدھسٹ اور عیسائی امیدوار کو پارلیمنٹ لانےمیں ناکام رہرہی ہے۔سابقہ مودی حکومتوں میں برائے نام کچھ مسلم وزرا تھے، مگر اس بار ایک بھی مسلمان کو جگہ نہیں دی گئی ہے۔حکومت سازی کے وقت مودی کم از کم پسماندہ مسلمانوں اور مسلم خواتین کو ہی یاد کر لیے ہوتے، جن پر وہ کل تک آنسو بہا رہے تھے۔مگر ان تمام منفی رجحانات کے درمیان، ایودھیا کے نتائج امید کی ایک کرن ہیں۔

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply