بنجر بھٹ/عارف خٹک

وہ انتہائی تیزی سے میرے کمرے میں داخل ہوا۔ میں حیران کہ میرا سیکرٹری مجھے بتائے بغیر کسی ملاقاتی کو اندر آنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ میں غور سے اس مفلوک الحال بندے کو دیکھ رہا تھا۔ جس کے وجود پر میلے کچیلے کپڑے، بایاں ہاتھ کٹا ہوا ، آنکھوں میں ویرانی  اور دائیں ہاتھ میں ایک کاغذ تھا۔ میں سوالیہ نظروں سے اس کو دیکھنے لگا۔ بالآخر میں پہچان گیا یہ بندہ میرے ادارے کے ایک سیکشن میں صفائی کرنیوالا مزدور تھا۔ میں نے ملائمت سے اس سے پوچھا

“کیا ہوا؟”۔

وہ بھاگ کر میرے پیروں میں بیٹھ گیا۔ میرے اوسان خطا ہوگئے۔ میں اپنی جگہ سے اٹھا، دونوں بازوؤں سے پکڑ کر اس کواٹھایا اور کرسی پر بٹھایا۔ اس کی گھبراہٹ کسی طور کم نہیں ہورہی تھی۔

“جی بیٹا کیا مسئلہ ہے؟”۔

اس کی بے چینی مزید بڑھ گئی۔ وہ بات کرنے کی ہمت جمع کررہا تھا۔ بالاخر آدھی سندھی اور آدھی اردو میں بتانے لگا۔

“سر میری ایک بیٹی پچھلے سال گردوں کے  مرض کی وجہ سے مر گئی۔ اب دوسری بھی مر رہی ہے۔ ایک این جی او نے علاج معالجہ میں مدد کی مگر انھوں نے جواب  دے دیا۔ پچھلے ہفتے اس کی ماں اسے کراچی لیکر چلی گئی ہے۔ آج اس کا فون آیا کہ بچی آج رات مرجائیگی۔”

وہ خاموش ہوا۔ میں ہمہ تن گوش اس کو سن رہا تھا۔

“سر، میں بہت غریب ہوں۔ تنخواہ سے مشکل سے گھر چلاتا ہوں۔ دو ایکڑ زمین تھی گزارہ ہوتا تھا۔ دو سال سے وڈیرے نے اس پر قبضہ جمایا ہے۔ اب تو مشکل ہورہی ہے”۔

مجھے میرے بچے یاد آگئے مجھے حلق میں نمی کا ذائقہ محسوس ہونے لگا۔

“اچھا ایک منٹ رکو، میں آپ کو پیسے دیتا ہوں”۔

اکاونٹ ہیڈ کو فون کرکے پچاس ہزار منگوائے۔ اس کے حوالے کیے کہ یہ لیجاؤ۔ مزید کی ضرورت ہو تو مجھے بتانا۔

اس دن میں نے فیصلہ کیا کہ ان جیسے غریبوں کیلئے مجھے کام کرنا ہوگا۔

میں ایک ادارے کا سربراہ تھا – میرا ادارہ اندرون سندھ کے ایسے علاقے میں تھا جہاں وسائل پر قابض فقط دو تین لوگ ہیں۔ زرخیز زمینیں ،لہلہاتی فصلیں، نہری پانی کی فراوانی الغرض زمینیں سونا اگلتی تھیں۔ مگر  آس پاس کے  کیڑے مکوڑوں جیسے حقیر لوگ ان دو تین وڈیروں اور سیاسی خانوادوں کے غلام ابن غلام تھے۔

میرے پاس ایک مخصوص رقم ہوتی تھی جس سے میں مفاد عامہ کے کام کراتا تھا۔ قریبی گاؤں کے بچوں اور بچیوں کے مخدوش اسکول ازسر نو تعمیر  کرانے سے اس کا آغاز کیا۔ ایک دن اے سی صاحب نے بلایا اور سمجھایا کہ آپ خود سے سرکاری عمارتوں کی تزئین و آرائش نہیں کرسکتے اس لئے آپ کو ایسے کام کرتے ہوئے مجھے بتانا پڑیگا۔ میں آپ کو اجازت دونگا تو آپ کرسکتے ہیں۔

ادارے کا ایک اپنا چھوٹا سا ہسپتال تھا جس پر مقامی وڈیرے نے قبضہ کیا ہوا تھا۔ بڑی مشکل سے اس ہسپتال کا قبضہ چھڑوایا اور ہیڈ آفس کو لکھا کہ وہ مجھے بجٹ دیں تاکہ میں اس ہسپتال کو چلا سکوں۔ کچھ این جی اوز کیساتھ ملکر ایک جامع منصوبہ بنایا کہ ہسپتال کو سہولیات سے آراستہ کرکے گردوں کی جدید مشینیں لگائی جائیں گی۔ علاج مکمل مفت ہوگا۔ ہسپتال کا دوسرا حصہ زچہ بچہ کیلئے مخصوص کیا جائیگا کیونکہ اس پورے ضلع میں ایسی کوئی سہولت نہیں تھی۔

کراچی سے ٹیمیں بلائی  گئیں۔ ڈاکٹروں اور این جی اوز کی ٹیمیں آئیں۔ ابھی ہسپتال کا معائنہ کرنے ہی لگی تھیں کہ باہر شور اٹھا۔ دیکھا تو سو دو سو بندے ہاتھوں میں کلاشنکوف لہرا رہے تھے۔ کراچی سے آئے ہوئے ماہرین نے جب یہ حالات دیکھے تو سیدھا اپنی گاڑیوں میں سوار ہوکر نکل گئے اور یہ منصوبہ بھی نامکمل رہ گیا۔

اگلے دن مقامی اخباروں اور سوشل میڈیا پر میرے خلاف کمپین چلنے لگی کہ پشاور سے ایک افغانی پٹھان سندھ کے وسائل پر قبضہ کرنے آیا ہے۔

دل ٹوٹا اور میں خاموشی سےایک طرف بیٹھ گیا۔ آئندہ کیلئے توبہ کی اب ادارے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرونگا۔

کچھ روز کے بعد ان وڈیروں کے گماشتوں نے ادارے سے بھتہ مانگا کہ آپ کا ادارہ ہمارے علاقے میں ہے لہذا سائیں کا حکم ہے کہ ماہانہ پانچ لاکھ آپ ہمیں ادا کریں گے اور ساتھ سائیں کے پانچ بندوں کو ملازمت پر رکھیں گے ورنہ آپ کا یہاں رہنا دوبھر ہوجائیگا۔

میں نے مقامی پولیس اسٹیشن کے ہاؤس آفیسر کو فون کیا تو بات سنے بغیر اس نے فون کاٹ دیا، ضلع کے ایس ایس پی کو فون کیا، وہ شریف بندہ تھا الٹا مجھے مشورہ دیا کہ سائیں بہتر ہوگا کہ اگر ادارہ چلانا ہے تو ان کیساتھ بنا کر رکھو بصورت دیگر میں کیا کوئی بھی آپ کی مدد نہیں کرسکتا۔ مجبوراً ڈویژن کے ڈی آئی جی کو اپروچ کیا۔ انھوں نے چائے پر بلایا۔ اگلے دن ان کے دفتر پہنچا۔ چائے پینے کے بعد ڈی آئی جی صاحب نے خوش اخلاقی سے مسئلے کا پوچھا۔ ساری بات گوش گزار کی۔ مسکراتے ہوئے انھوں نے فرمایا۔

“بھیا ایس ایس پی نے آپ کو صحیح مشورہ دیا، آپ اسی پر عمل کریں یہی اس کا حل ہے”۔

میں حیرت سے گنگ ہوگیا کہ ڈی آئی جی جیسا بندہ مجھے “بھتہ” ادا کرنے کا کہہ رہا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ بات صرف وڈیرے کی نہیں ہے۔ اس کہانی کا سرا کہیں اور سے  جڑا ہے۔ سو فیصلہ کیا اب کھل کر سامنے آنا پڑیگا۔ اسلام آباد میں موجود کچھ سینئر اور جونئیر کو فون گھمائے۔ بات ان کے گوش گزار کی۔ انھوں نے اگلے دن بتایا کہ اس سب کے پیچھے ملک کی ایک مشہور سیاسی شخصیت کی بہن کا ہاتھ ہے۔ وڈیرے ان کے گماشتے ہیں۔ لہذا ایک ہی صورت ہے یا تو خاموشی سے معاملات طے کئے جائیں یا لڑائی کی ایسی صورت بنائی جا سکے جس کی بنیاد پر ان کی مداخلت ممکن بن سکے۔

میں حیران و پریشان اب کروں تو کیا کروں۔ کیونکہ بھتہ دینے کا مطلب یہ تھا ان لوگوں کی مزید فرمائشیں۔ جو پوری ہونا ممکن نہیں تھیں۔ اس رات مجھے ادراک ہوا کہ سائیں شاہ عبدالطیف بھٹائی کی سرزمین ابھی بھی ترخانو کے قبضے میں ہے جس سے شاہ کے سارس، بگلے، باز، طوطے، مور، قصبوں میں مغلوں اور کلہوڑوں کے عہد کے مکانات اور زرد دھوپ میں صحرا جو تنہا تھا، سب خاموش ہوگئے تھے۔ شاہ نے کہا تھا کہ صحرا، جہاں پرندوں کا گزر نہیں وہاں جوگی اپنی آگ جلاتے ہیں اور جب وہ جوگی چلے گئے تو ان کی جگہ پر نہ تنکے ملے نہ پتھر، راکھ اڑ گئی اور جوگی سنکھ پھونکتے ہوئے اپنے ابدی سفر پر روانہ ہوگئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگلے دن اس پاس کے علاقوں سے کوئی سو سے زیادہ لوگ اکھٹا ہوکر ہمارے ادارے کے مرکزی گیٹ پر دھرنا دیکر بیٹھ گئے۔ مجھے میرے چیف سیکورٹی آفیسر نے بتایا کہ کچھ لوگوں کے ہاتھ میں آتشیں اسلحہ ہے۔ میں نے مرکزی دروازے کا کیمرہ کھولا واقعی قریباً ڈیڈھ سو افراد گیٹ کے سامنے دھرنا دیئے بیٹھے تھے۔ کیمرہ جب زوم کیا تو میری حیرت کی انتہاء نہ رہی کہ کافی لوگ اسی ادارے کے مزدور تھے جو میرے ساتھ کام کررہے تھے۔ کیمرہ گھماتے ہوئے میری انگلیاں اایک جگہ پر جامد ہوگئیں اس چہرے کو میں ہزاروں میں پہچان سکتا تھا یہ وہی مزدور تھا جس کی دونوں بیٹیاں گردے کے مرض کی وجہ سے گزر گئی تھیں۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply