تاریخ میں دوسری بار دنیا بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی پیداوار بڑھ رہی ہے۔ ایسا اس سے قبل فقط کرونا وائرس کی وبا کے دوران ہوا تھا جب عالمی لاک ڈاؤن کے باعث تقریباً تمام نقل و حمل محدود ہوگئی تھی اور انٹرنیشنل آئل مارکیٹ کریش کر گئی تھی۔ طلب تقریباً نہ ہونے کے برابر ہونے سے عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمت حیران کن حد تک گر گئی تھی۔ لاک ڈاؤن کے آخری دنوں میں یہ قیمت منفی میں بھی چلی گئی تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ پٹرول مفت ملنا شروع ہوگیا تھا بلکہ ذخیرہ اندوزی کی صلاحیت سے زائد پٹرولیم کی پیداوار ہونے اور مطلوبہ مقدار فروخت نہ ہونے سے روزانہ کی بنیاد پر عالمی تیل کی کمپنیوں کو خسارہ آرہا تھا۔ خدا خدا کرکے لاک ڈاؤن ختم ہوا اور تیل کا کاروبار دوبارہ پٹڑی پر آیا۔ اب جبکہ گذشتہ ایک دہائی سے کرہ ارض پر گلوبل وارمنگ کے اثرات ناقابل برداشت ہوئے ہیں تو پچھلے چند سالوں سے عالمی ماحولیات کے تحفظ کے بارے انسانی کاوشوں میں واضح تیزی آئی ہے جس کے نتیجے میں ہر حال میں کرہ ارض کے درجہ حرارت کو مزید خطرناک حد تک بڑھنے سے روکنا شامل ہے۔ اس مقصد کے لئے سب سے زیادہ زور فاسل فیولز کے استعمال کو کم سے کم کرتے ہوئے بالآخر ترک کرنے پر لگایا جارہا ہے۔ فرسٹ ورلڈ کے بہت سے ممالک فاسل فیولز کے دور سے تقریباً آزاد ہوا ہی چاہتے ہیں۔ توانائی کے دیگر ماحول دوست ذرائع پر تیزی سے کام ہورہا ہے۔ گرین انرجی ، الیکٹرک گاڑیاں اور سولر انرجی سمیت متعدد دوسرے ذرائع کا دور شروع ہوچکا ہے۔ ایسے میں امریکا ، چین اور بھارت ایسی بڑی معیشتوں نے بھی بالآخر فاسل فیولز کو خیر باد کہنا شروع کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل انرجی ایسوسی ایشن نے رواں سال جو اعداد و شمار جاری کئے ہیں اس کے مطابق ڈیمانڈ اور سپلائی کے تفاوت کے باعث سن دوہزار تیس تک پٹرولیم مصنوعات کی کھپت آج کے مقابلے میں شاید بہت کم رہ جائے گی۔
یہ بات جہاں زمین کے موسم اور ماحولیات کے خوش آئیند ہے وہاں پٹرولیم کمپنیوں کے سر پر لٹکتی ننگی تلوار بھی ہے۔ پیٹروکیمیکلز مذہب کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا کاروبار ہے۔ پیٹرولیم کی عالمی کمپنیوں نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے اپنے بزنس ماڈل میں تبدیلی کرکے نئے سرے سے لانچ کرنا شروع کردیا ہے۔ جس کے مطابق صارفین کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دے کر پٹرولیم مصنوعات خریدنے پر قائل کرنا ہے۔ اس ضمن میں مختلف آفرز ، فیول کے ساتھ دیگر مفت سروسز ، موبائل گیس سٹیشنز کا اجرا (یعنی صارف کی مرضی کی جگہ پر فیول فراہم کرنا) اور ساتھ ہی ساتھ دیگر سٹیک ہولڈرز کو اس بات پر قائل کرنا شامل ہیں کہ وہ ابھی کچھ عرصہ فاسل فیول انجن بنانا بند نہ کریں۔ اس سلسلے میں آنے والے سالوں میں پٹرولیم مصنوعات میں واضح کمی بھی متوقع ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کسی کا سورج غروب ہونے لگتا ہے تو اسے کوئی واپس نہیں پلٹا سکتا۔اگر انسانوں نے عقل سے کام لے لیا تو شاید فاسل فیولز کا سورج بھی بہت جلد غروب ہونے کو ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں