ہم شامل ہیں ظلم میں/بنتِ مہر

فلسطین رفح کا ایک بچہ چہرے پر ڈھیروں امید لیے کاغذ پر کچھ لکھ رہا تھا ۔ لکھنے کے بعد اس نے کاغذ کو تہہ کیا تو کسی نے پوچھا اس کا کیا کرو گے۔ اس بچےنے بڑے یقین سے کہا” یہ کاغذ میں مصر پھینکوں گا (رفح کے ساتھ مصر کی سرحد لگتی ہے ) اور اسے پڑھ کر ہمارے مسلمان بھائی ہماری مدد کو آئیں گے۔”

اس جملے میں موجود امید آس اور بے بسی روح تک کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ فلسطین کے حالات دیکھ کر اگر اب بھی کسی کا دل نہیں کانپتا تو اسے غور کر لینا چاہیے کیا اس کے اندر ابھی بھی انسانیت باقی ہے۔فلسطینیوں کی مظلومیت اور مسلمانوں کی بے حسی دیکھ کر کربلا کے واقعہ کی یاد آتی ہے بالکل ویسے ہی آج بھی مسلمان کٹ رہے ہیں شہید ہو رہے ہیں بھوک پیاس سے موت کے منہ تک پہنچے ہیں لیکن امت مسلمہ میں سے کوئی ان کی مدد کو نہیں پہنچا، ان کی عملی طور پر مدد کرنا تو درکنار ہم تو اپنے الفاظ سے بھی ان کا اس طرح ساتھ نہیں دے پا رہے جیسے وقت کا تقاضا ہے۔ ابھی بھی ہمیں لگتا ہے کہ ہم نماز روزے سےہی بخشے جائیں گے؟ بروز قیامت جب یہ فلسطینی اپنے خون آلود دامن کے ساتھ اقصیٰ کی طرف اشارہ کر کے پوچھیں گے کہ اس مظلوم قبلہ اوّل اور اس کے محافظوں کو ظالموں کے چنگل سے آزاد کروانے کوئی مسلمان کیوں نہیں آیا تو ہمارے پاس کیا جواب ہو گا؟ اب بھی ہم مظلوم فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بن کر نہ نکلے تو یقیناً ہم ایمان کے کمزور ترین درجے پر ہیں۔ دنیا کے ہر کونے سے بہت بڑی تعداد میں مسلمان و غیر مسلم فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں اس کے برعکس ہمارے یہاں اس کی طرف لوگوں کا خاص رجحان نہیں ہے۔ اسلام کے قلعے سےایسا مایوس کن احتجاجی رویہ بہت دل شکن ہے وجہ پوچھی جائے تو ہمارے پاس بہت سے بہانے تیار ہوتے ہیں یہ سب بہانے صرف اس لیے ہیں کہ ان کٹتے مرتے مسلمانوں میں کوئی ہمارا بھائی بیٹا نہیں نہ ہماری بہن بیٹیوں پر یہ آفت آئی ہے اگر آج ایسا ہو جائے تو ہم کسی بھی ممکنہ حد سے گزر کر اپنوں کی حفاظت کریں گے ۔تو کیا مسلمانوں کا آپسی رشتہ اتنا کمزور ہے۔ اقبال نے تو کہا تھا
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیر و جواں بیتاب ہو جائے

یہاں تو ہمیں مسلمانوں کوہزاروں کی تعداد میں شہید ہوتے دیکھ کر بھی کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ اگر جہاد اب بھی فرض نہیں تو کب فرض ہے۔ آپ تلوار سے نہیں تو الفاظ سے جہاد کریں اپنے عمل سےجہاد کریں ہمیں اس وقت تک سکون سے بیٹھنا زیب نہیں دیتا جب تک ہمارے شیرخوار بچوں اور عورتوں پر ہوتا یہ ظلم بند نہیں ہو جاتا۔ آپ نے کبھی سوچا ہے مسلمانوں کے ساتھ ہی یہ سب کیوں ہو رہا ہے تو اس کی وجہ ہمارا یہی رویہ ہے ہمارا آپسی تعلق اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ دشمن بھی جانتا ہے وہ ہمارے بہن بھائیوں کے ساتھ جو چاہے کرے ہمارے کانوں پر جوں نہیں رینگنے والی۔
تلواریں بیچ کر مصلے خرید لیے ہم نے
عزتیں لٹتی رہیں ہم دعا کرتے رہے

ویسے تو دنیا بھر میں صیہونی مصنوعات کا بائیکاٹ چل رہا ہے لیکن کچھ کم فہم لوگ ایسے بھی ہیں جن کو اسرائیلی مصنوعات خریدنے سے روکا جائے تو وہ کہتے ہیں ہمارے بائیکاٹ سے کیا ہوجائے گا۔ وہی جو اس وقت ہو رہا ہے قطرے قطرے سے بنتے اس دریا نے اسرائیلی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔اسرائیلی مصنوعات خریدنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے ان مصنوعات کی خریداری کے بدلے ہم اپنے معصو م بچوں کے قتل میں حصہ دار بن رہے ہیں
عشق قاتل سے مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا ء مانگے گا ؟
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟

julia rana solicitors london

جو قومیں متحد نہیں ہوتیں وہ ایسے ہی تباہ و برباد ہو جاتی ہیں اور یقیناً ہم تباہی کے آخری دہانے پر کھڑے ہیں اب بھی نہیں جاگیں گے تو اسی غفلت کی نیند میں مارے جائیں گے، خدارا ہوش کے ناخن لیں اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہم اپنی ذات اور اپنی زندگیوں سےباہر نکل کر سوچیں بالکل اسی انداز میں جس میں ہم اپنے بہن بھائیوں یا اولاد کی حفاظت کا سوچتے ہیں اپنے حکمرانوں کے آگے ڈٹ جائیں کہ اب فلسطینیوں کےلیے کچھ کرنے کا وقت ہے اگر اب نہیں تو پھر کبھی نہیں۔ آج فلسطینی مسلمانوں کو بے حسی سے دیکھتے رہے تو عین ممکن ہے اس کے بعد اگلا نمبر ہمارا ہو جو آفت آج ہمارے مسلمان بھائیوں پر آئی ہے وہی کل کو ہمارے اپنے بچوں پر بھی آ سکتی ہے اس لیے ظلم کے اس سلسلے کو یہیں روکنے کے لیے ہمیں اب اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ خدارا اب ان مظلوموں کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اللہ کے بعد جن کی واحد امید آپ ہیں ۔
ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply