پاکستانی سنیما اور ہندی فلم/عامر کاکازئی

پاکستانی سنیما میں جب تک ہندی فلم نہیں لگے گی، یہ ترقی نہیں کر سکتا، کم ازکم اگلے دس سے بیس سال پاکستانی سنیما کو ہندی فلم کی ضرورت ہے۔ کیونکہ پاکستانی سنیما بین کو ہندی فلم کو دیکھنا ہے۔ وہ سنیما ہندی فلم دیکھنے جاتا ہے جب ٹکٹ نہیں ملتا تو پاکستانی فلم دیکھ لیتا ہے۔ اب تو سنا ہے کہ ہالی وڈ کی انگلش فلمیں بھی نہیں لگ رہیں، تو سنیما کا بزنس کیسے چلے گا؟

فلم سے منسلک ایک شخصیت کا کہنا ہے کہ اب ہندوستان انکاری ہے فلم پاکستان کو دینے کے لیے۔ ہندی فلم لگنا انڈیا کی ضرورت نہیں بلکہ پاکستان سنیما کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ یہ ہماری ضرورت ہے نہ کہ ان کی۔ ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا  کہ لگے یا نہ لگے۔ مگر پاکستان پچیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے جسے ہندی سمجھ آتی ہے تو یہ ایک بہت بڑی مارکٹ ہے جس کے بزنس سےہندوستان انکار نہیں کر سکتا۔ جب چین میں ہندی فلم بزنس کر سکتی ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں کر سکتی؟ یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ فلم اور سنیما دو الگ فیلڈز ہیں، لیکن سنیما پرائمری ہے، اگر سنیما پھلے پھولے گا تو ہی فلم کا بزنس بھی کامیاب ہو گا۔ ہندی فلم نہ  لگانے کی ایک اور وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کی کہانی پاکستان دشمنی پر مبنی ہوتی ہے تو ہمارا سنسر بورڈ کس دن کام  آئے  گا؟ آپ پٹھان اور غدر نہ  لگاؤ لیکن جوان، مسز چتر جی ، او مائی گاڈ، ڈریم گرل، ار آر آر ، پشپا، میدان اور بارویں فیل لگانے میں کیا رکاوٹ ہے؟

کچھ ہندی فلموں کا پاکستان میں بزنس دیکھ کر اندازہ لگاتے ہیں کہ ہندی فلمیں کیسے ہمارے سنیما کی ترقی کے لیے اچھی ہیں۔

Sanju 1.3 million us $

Sultan 1.1 million us $

Dhoom 3 870,000 us $

Bajrangi bhaijaan 800 ,000 us $

Pk 810 ,000 us $

Padamat 780 ,000 us $

SImba 740,000 us $

Dilwalay 690 ,000 us $

Kick 570 ,000 us $

Thug of Hindustan 540 ,000 us $

Zero 520 ,000 us $

Bhagi 2 520 ,000 us $

Happy new year 560 ,000 us $

ایک بہت ہی مزے کی بات ہے کہ زیرو، دل والے اور ٹھگ  آف ہندوستان ، انڈیا میں ناکام فلمیں تھیں مگر ان فلموں نے پاکستان سےکافی بزنس کیا اور پاکستان کے سیکٹر میں یہ تینوں کامیاب تھیں، تو کیا پاکستانی ریاست سنیما انڈسٹری کو فروغ دینے اور پاکستانیوں کو نوکریاں اور بزنس دینے کے لیے ہندوستان کی سرکار سے بات کرے تو وہ کیوں نہیں پاکستان میں ریلیز کی اجازت دیں گے؟

ہمارے سنیما کی بڑھوتری کے لیے کم از کم دو فلمیں ہر جمہ کو لگنی چاہئیں مطلب تقریباً سو فلمیں ہر سال۔ اب کیا پاکستانی فلم میں اتنا  پوٹینشل ہے کہ وہ سو اچھی فلمیں بنا کر سنیما کو کما کر دے سکے؟ اس وقت پورے پاکستان میں ، پختون خوا، بلوچستان، سندھ(کراچی چھوڑکر) فاٹا، کشمیر، گلگت بلتستان، اور پنجاب کے صرف چند شہر چھوڑ کر سنیما ہی نہیں کہ ادھر پاکستانی فلم لگ کرکمائی کر سکے۔

ہندی فلم کا پاکستان میں لگنے کا دوسرا بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہمارے فنکار آسانی سے سرحد پار جا کر اپنے فن کے سہارے ڈالرکما کر لائیں گے۔ جب تک یہ پابندی نہیں تھی ، اس وقت تک ہمارے بے شمار فنکار سرحد پار کا سنیما اور ٹی وی کر رہے تھے۔ اگر آپکو یاد ہو، توزیوالوں نے زندگی کے نام سے ایک سپیشل چینل شروع کیا تھا جس پر صرف اور صرف پاکستانی ڈرامے لگتےتھے۔  جس سے قیمتی فارن ایکسچینج آتا تھا۔ ہم جو ایک ایک ڈالر کے لیے ہر ایک ملک کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں تو ہم اس میڈیا انڈسٹری سے کیوں نہیں کماتے؟

دوسری طرف ہمارے پاس مشرقی پنجاب کی صورت میں ایک بہت بڑی مارکٹ ہے، جہاں تین کروڑ لوگ پنجابی بولتے ہیں۔ ہم پہلے سےہی اچھی پنجابی فلم بنانے میں ماہر ہیں، ہمارے پاس ناصرف اچھے پنجابی ایکٹر ، ڈائریکٹرز، کامیڈین بلکہ اچھے سنگرز، موسیقار اور دوسرے ٹیکنیشن موجود ہیں۔ تو کیا ہماری پنجابی فلم مولا جٹ مشرقی پنجاب میں نہیں کما سکتی؟ کیا ہم اپنی پنجابی فلم کے ذریعے نہیں کما سکتے؟

انویسٹر صرف اس وقت پاکستان میں سنیما پر انویسٹ کرے گا جب اسے پیسہ واپس ہونے کا یقین ہو۔ اور لانگ ٹرم میں کما کر بھی دے۔

پشاور میں پہلا سنیما بننے جا رہا تھا جو کہ کینسل ہو گیا کہ بار بار کی انڈین فلم کی پابندی کی وجہ سے انویسٹر بھاگ گیا۔

ایک سنیما تقریباً دس کروڑ کا لگتا ہے( یہ فگر تقریباً بیس سال پہلے کی ہے، ) (اب شاید تیس کروڑ کا ہے) تو کوئی انسان پاگل ہے کہ اتنی بڑی انویسٹمنٹ ہوا میں کر دے؟ ایک سنیما کے ساتھ ہزاروں جاب منسلک ہیں۔ مگر ہمارے جنگ کے شوقین اور دشمن پالنے والوں اور نئے نئے دشمن بنانے والے اداروں کو یہ کون سمجھاۓ؟ کہ ملک دشمنی سے نہیں چلتے بلکہ انویسٹمنٹ پیسہسے چلتے ہیں۔ ہم عوام کو نوکریاں اور بزنس چاہیے کہ اس پیسہ سے کما کر ہمارا گھر چلے، بھوک مٹے نہ کہ ہمارے گھر اُجڑیں اور ہمارے بچے بربادہوں۔عوام کو پیسہ چاہیے کہ بھوک مٹے، خوش حالی آنے نا کہ عوام کو میوزیم میں سجانے کے لیے گولہ بارود چاہیے۔

پشاور میں ایک سنیما اونر نے اپنے پرانے سنیما پر کروڑوں روپے کا خرچہ کر کے اسے جدید سنیما میں ڈھالا، اس اونر کے بقول کہ شاہ رخ خان کی ایک پرانی ہندی فلمدل والے دلہنیا لے جائیں گےنے کھڑکی توڑ بزنس کیا تھا، پورا ہال فل  ہو گیا تھا، اس کے مقابلے میں عید کے دن پر بھی پاکستانی فلم کے لیے صرف چالیس فیصد ہال فل تھا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟ سنیما اونر نے سنیما کو بند کرکے اس کی بلڈنگ کرانے پر دے دی۔

ایک چیز اور بھی واضح کر دیں کہ ہندی فلم پاکستانی فلم کے بزنس کے لیے ہرگز ہرگز بھی خطرہ نہیں ہے، بلکہ ہندی فلم ان کے بزنس کا سہارا ہیں۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ پاکستانی فلم کو جب کمپیٹیشن ملے گا تو وہ بہتر فلم بنائیں گے۔

آج سے تقریباً دس سال پہلے ، 2015 کی عید پر تین فلمیں لگیں تھیں۔ بجرنگی بھائی جان ، جوانی پھر نہیں آنی اور نا معلوم افراد۔بجرنگی بھائی جان نے تقریباً 800,000 us $ کا بزنس کیا جبکہ اس کے مقابلے میں جوانی پھر نہیں آنی نے 1.2 million us $ کابزنس کیا، اسی طرح نا معلوم افراد نے 420,000 us $ کا بزنس کیا۔ اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سلمان خان کی ہندی فلم بھی پاکستانی فلم کا بزنس متاثر نہ  کر سکی۔ ہم اور ہمارے ساتھ تقریباً پندرہ فیملی ممبرز اور ادھر بے شمار لوگوں نے جوانی پھر نہیں آنی اور نا معلوم افراد اس لیے دیکھی کہ بجرنگی بھائی جان کا ٹکٹ نہیں ملا تھا۔ ہندی فلم، نا صرف پاکستانی سنیما بلکہ پاکستانی فلم کا بھی سہارا ہے۔

اگر ہندی فلم، پاکستان میں نہ  ریلیز ہوئی تو ہمیں پاکستانی فلم کی بہتری کی امید چھوڑ دینی چاہیے کہ یہ انڈسٹری تیسری  بار برباد ہونے جا رہی ہے، بلکہ گھر بسنے سے پہلے ہی اجڑ رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سنیما بینوں کا کیا مسئلہ ہے؟ وہ پہلے بھی چوری کے پرنٹس دیکھتے تھے، اب بھی دیکھ لیں گے۔ مگر اس فیلڈ سے وابستہ ہزاروں لوگوں کا روزگار، یہ ریاست اپنے جنگی جنون کی وجہ سے ان سے چھین رہی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply