یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ لباس جس طرح انسانی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے اسی طرح لباس کے ذریعہ پہننے والے کی ترجیحات اور ذہنی میلان کا بھی پتا چلتا ہے ، اسی لئے جدید نفسیات میں “Psychology of Clothing” (لباس کی نفسیات) مستقل موضوع کے طور پر پڑھا پڑھایا جاتا ہے اور پوری فیشن انڈسٹری اسی کے مطابق چلتی ہے۔
ساتھ ساتھ جس طرح کسی خاص ترجیحات کی بنیاد پر انسان لباس کا چناؤ کرتا ہے ، ایسے ہی لباس بھی اپنے پہننے والے کے ذہن پر ویسے ہی اثرات مرتب کرتا ہے جیسا لباس ہوتا ہے ، اس کی سادہ سی مثال آپ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ سڑک پر چلنے والی ایک نقاب پوش اور برقعہ میں ڈھکی خاتون کے چلنے کا انداز بہت شائستہ ہوتا ہے اور نرم گفتاری ، پست آواز غالب ہوتی ہے ، جبکہ جو خواتین نقاب وغیرہ نہیں کرتیں خاص کر جو پینٹ شرٹ پہنا کرتی ہیں ان کا چلنے کا انداز بھی شوخ و چنچل ہوتا ہے اور آواز بھی قدرے بلند ہوتی بلکہ بیچ سڑک ہنسی مذاق بھی چل رہا ہو تو ان کیلئے زیادہ غیر مناسب نہیں ہوتا۔
اس فرق میں بہت سی چیزوں کا عمل دخل ہے جس میں ایک لباس بھی ہے ، اور یہی لباس کا اپنے پہننے والی کی ذہنیت پر اثر ہوتا ہے کہ پہننے والا کم از کم لباس کا ہی پاس رکھ لیتا ہے ، یعنی جس طرح لباس ذہن کی عکاسی کرتا ہے ایسے ہی ذہن بھی لباس کے عکس میں ڈھلتا ہے۔
یہ تو ہے سادہ سی بات ، اب اگر ہم بات کریں منظم اداروں کی تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہر منظم ادارے کا خاص لباس ہوتا ہے ، جسے عام طور پر “ڈریس کوڈ” سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے ، یہ بھی اسی نفسیاتی پہلو کے تحت اپنایا جاتا ہے کہ ایک کام کرنے والا جب تک اس لباس میں رہے اسے احساسِ ذمہ داری رہے ، اب آپ ہی کہیے کہ کیا آج تک کسی نے صرف اس لئے کسی ادارے پر اعتراض کیا کہ “یہ خاص لباس پہننے پر مجبور کرتے ہیں” بلکہ ہمارے ہاں تو یہ حال ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی از خود بچوں کیلئے اسکول کا لباس خرید کر دیتا ہے اور بچے کو خاص لباس میں ہی اسکول بھیجتا ہے اسی طرح پولیس اور فوج جیسے منظم اداروں کا حال ہے اور اسی طرح کمپنیوں اور ریستورانوں کے ورکرز کا معاملہ ہے۔
اب پچھلے دنوں ہوا کچھ یوں کہ علامہ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ نے طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے صلحاء اور اذکیاء کے لباس کی تلقین کی ، صاف ستھرا اور کھلا لباس سر پر ٹوپی وغیرہ۔
لیکن کچھ لوگوں کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھائی اور ان کے آنکھ بھوں چڑھنے لگے ، بلکہ کچھ “جرأت مندوں” نے تو اسے “تنگ نظری” سے بھی تعبیر کیا حالانکہ پچھلے دنوں جامعۃ الرشید کی وائرل ہونے والی تصویر میں جو فوجی نوجوان تھا وہ بھی اپنی خاص وردی میں زیب تن کیے ہوئے تھا لیکن مدرسے کے اجتماع میں عام اور معروف لباس کو چھوڑ کر وردی پہننے کو کسی نے بھی “تنگ نظری” سے تعبیر نہیں کیا تھا ، تو محسوس یہی ہوتا ہے کہ بات ویسی نہیں جیسے بنائی جا رہی ہے ، بلکہ معاملہ کچھ اور ہے۔
یقیناً وہ معاملہ یہی ہے کہ ایک ایسے طبقے کا رہنما ہے جس طبقے کو سب سے زیادہ منظم ہونا چایئے تھا وہ اپنے طبقے کے دیگر لوگوں کو یہ تلقین کر رہا ہے کہ تمہاری وردی ایک خاص لباس ہے تمہارا ڈریس کوڈ فلاں فلاں چیزوں پر مشتمل ہے تاکہ اس طرح ان کے اندر احساسِ ذمہ داری پیدا ہو کہ میرا کام فقط آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی نہیں بلکہ دن رات میرے کاندھے پر ایک ذمہ داری ہے جسے میں نے پورا کرنا ہے ، اور یہ بات ہمارے دوستوں کو ہضم نہیں ہو رہی کیونکہ وہ چاہتے ہی نہیں کہ یہ طبقہ بھی منظم ہو کر کام کر سکے۔
یاد رکھیں علماکی باتیں یوں تو زہد و تقوی پر قائم ہوتی ہیں لیکن ان سے نکلنے والے ثمرات و نتائج لا محدود ہوتے ہیں ، اور اس لباس والے معاملے میں بھی یہ پہلو واضح ہوا ہے کہ اس میں ایک پورا نفسیاتی پہلو موجود ہے جو انسان پر خاص اثرات مرتب کرتا ہے۔
تنقید کرنے والوں کا دوسرا طبقہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو ذہنی غلامی یا کم از کم حد درجہ مرعوبیت کا شکار ہیں ، اور ان کے نزدیک شیخ کا جرم یہی ہے کہ آپ نے مرعوب لوگوں کے سامنے با رعب بننے کی بات کی ہے ، غلاموں کے سامنے آزادی کے موضوع کو چھیڑ دیا ہے اور ہمارے دانشوروں کو یہ قبول نہیں کیونکہ بہت ساروں کی روزی روٹی اسی پر منحصر ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں