جوان فلم پر ایک لکھت/عامر کاکازئی

سب کہہ رہے تھےکہ ختم ہوچکا ہوں میں،میرا ٹائم اب کبھی واپس نہیں  آ ئے گا۔

But they forgot one thing

I am the King

اور ویسے بھی شہرت ہو، چاہے عزت یا  پیسہ، سب کمانا ہوتا ہے۔دن، رات اور ٹائم لوگوں کے ہوتے ہیں۔شیروں کا تو زمانہ ہوتا ہے۔۔پٹھان تو بس ایک ٹریلر تھا۔ جوان اور ڈنکی  ابھی باقی ہے میرے دوست۔

تو دل تھام کر بیٹھیے، نا امید نہیں ہوں گے آپ۔جلدی ملتے ہیں اس بار۔ جوان کے ساتھ!

اور یہ ہی ہوا۔ سات ستمبر کو جوان نے ریلیز ہوتے ہی سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ 300کروڑ کی فلم نے ساری دنیا سے تقریباً بارہ سوکروڑ کما ڈالے۔ پہلے دن  75 کروڑ انڈیا سے اور ورلڈ وائیڈ 129 کروڑ کما ڈالے۔جوان آسٹریلیا کی پہلی ہندی فلم ہے جس نے باکس آفس پر دھوم مچائی اور 400k آسٹریلین ڈالر کی کمائی کی۔ پہلی ہندی فلم جس نے صرف تین دن میں دو سو کروڑ ، تین سو کروڑپانچ دنوں میں، چار سو کروڑ  نو دنوں میں اور پانچ سو کروڑ سے اوپر صرف تیرہ دنوں میں کماۓ۔

یہ صرف شاہ رخ خان کا کرزمہ تھا اور کچھ نہیں۔ اب وہ  چاہے ہیرو آے، دل والے دلہنیا سے لے کر ویر زارا تک یا پھر ولن آے، ڈر ،انجام، بازیگر اور ڈان سے لے کر جوان تک ، اس کے آگے ٹکنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ بقول شاہ رخ خان کے

“جب میں ولن بنتا ہوں نا ،  تو میرے سامنے کبھی بھی کوئی ہیرو ٹِک نہیں سکتا۔ “

جوان فلم کی بات کریں تو ایٹلی کا ایک مکمل سکرپٹ جس میں رتی برابر بھی خامی نہیں تھی۔ شاندار ایڈیٹنگ کہ نہ  آنکھ جھپکنےکی فرصت ملتی ہے اور نہ  ہی کچھ سوچنے کی۔ ایک سین دوسرے سین کے ساتھ اس طرح جُڑا ہوا ہے کہ جیسے تسبیح کے دانے۔جیسے فلم شروع ہوتی ہے ناظر فلم کا حصہ بن جاتا ہے اور وہ یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ اس کہانی کا حصہ ہے۔  جوان فلم کےذریعے شاہ رخ خان کا ایک بہت پاور فل کریکٹر وجود میں آ چکا ہے۔ وہ ہے وکرم راٹھور۔ ایٹلی نے ایک عجیب کریکٹر کو تخلیق کیا اور  پٹھان نے اسے بہت شاندار طریقے سے اپنا کر اور ایکٹ کر کے اپنے چاہنے والوں کو پیش کیا۔  وکرم راٹھور کا سگار پی کر دھواںچھوڑتے ہوۓ ایک عجیب سے ہتھیار کے ساتھ ایکشن سین کو الگ انداز کے ساتھ  پیش کرنا صرف شاہ رخ خان کا ہی خاصہ ہے۔ایٹلی “وکرم راٹھور” کے کریکٹر پر ایک الگ سے فلم بنانے کی بھی سوچ رہا ہے۔

ایٹلی کی کہانی دو فلموں سے کسی حد تک متاثر ہے، ایک اکشے کمار کی فلم گبر سنگھ از بیک دوسری سپینش فلم منی ہائیسٹ ہے۔کہانی کی بُنت ان ہی دو فلموں پر اَدھارت ہے۔ کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ فلم کہانی کسی سوشل میسج کے بغیر تھی۔ جبکہ فلم کی پوری کہانی کا اساس کرپشن پر تھا۔  سیاست دانوں سے لے کر بیوروکریٹس ، بزنس مین اور حتی کہ انڈین فوج کے اندر کی کرپشن پر بھی بات کی گئی ہے۔ ایٹلی نے شاہ رخ خان کے لیے ایک اور کریکٹر بھی تخلیق کیا، وہ ہے آزاد کا۔۔ جس کو ہندوستان کا رابن ہڈ بناکر عام غریب عوام کا نمائندہ بنا ڈالا۔ جو امیروں سے پیسہ چھین کر غریبوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایٹلی نے منی ہائیسٹ کے پروفیسرکی طرح وکرم راٹھور کو بھی اینٹی ہیرو بنا کر پیش کیا۔

ایٹلی نے اپنی کہانی میں وومن امپاورمنٹ کو بہت زبردست انداز میں بیان کیا۔   دپیکا ہو یا نین تارا یا پھر شاہ رخ خان کی چھ ساتھی لڑکیاں، یا پھر نُنی سی نین تارہ کی بچی سوجی، سب کو انصاف کے ساتھ سکرین پر پاورفل انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

سمیت اروڑا کے لکھے ہوئے خوبصورت ڈائیلاگ جیسے کہ

پتا ایک رشتہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک بھروسہ ہوتا ہے جو تمہیں یقین دلاتا ہے کہ چاہے پوری دنیا تمہارے سامنے کھڑی ہو جائے مگرتمہارا پاپا لڑنے کے لیے تمہارے ساتھ کھڑا ہو گا۔

شاہ رخ خان نین تارہ کی بچی سے پوچھتا ہے کہ تمہیں پاپا کیوں چاہیے؟

بچی معصومانہ انداز میں کہتی ہے کہ ممی نے مجھے سب سیکھایا ہے مگر لاڈ پیار سے بگاڑنے کے لیے مجھے پاپا چاہیے۔

پھر پوچھتا ہے کہ تمہیں کس قسم کا پاپا چاہیے؟

مجھے ہارر مووی پسند ہے مگر ڈر بھی لگتا ہے مجھے ایسا پاپا چاہیے جس کا ہاتھ پکڑ کر میں ہارر مووی دیکھوں تو ڈر نہ لگے۔

سب سے بڑھیا ڈائیلاگ “ بیٹے کو ہاتھ لگانے سے پہلے باپ سے بات کر” پر تو سنیما میں لوگ جیسے پاگل ہو جاتے ہیں۔ سیٹیاں اورتالیاں مار مار کر پورا ہال سر پر اُٹھا لیتے ہیں۔

اس فلم کی ایک اور خوبی ہے کہ اس کی کہانی اور سکرین پلے، کے جی ایف کی طرح بہت زیادہ ٹینس نہیں ہے اور اعصاب پر سوارنہیں ہوتا۔ بیچ میں آڈینس کو ریلکیس کرنے کے لیے کبھی ہنسی مذاق اور کبھی گانا، ایٹلی نے خوبصورت انداز کے ساتھ ایک ٹینس مووی کو لائیٹ انداز میں پکچرائیز کیا۔

میوزک کمپوزر ایک تیس سال کا لڑکا انورادھ روی چندر ہے۔ جس نے جیمز بانڈ یا مشن امپاسبل کی طرح وکرم راٹھور کے لیے بھیایک خوبصورت سی تھیم دھن تخلیق کی ہے۔ روی کا بیک گراونڈ میوزک انت ہے۔   ایکشن سین  ہوں  یا تھرلنگ   اور  اموشنل سین  آ ڈینس کو میوزک کے ذریعے کہانی کے ساتھ باندھ کر رکھتے ہیں۔ انو رادھ  کے باقی کے گانے اور دھنیں بھی میلوڈیس ہیں۔خاص کر ان کی شاعری

تو عشقِ خواب، خواب سا ہے میرا بے حساب سا ہے

“تیرے لب چوم لوں میں اردو کی کتاب سا ہے۔ “

فرح خان نے کافی عرصے بعد شاہ رخ خان کی کوریو گرافی کی ہے۔ اچھے اور زرا مختلف سٹیپس کے ساتھ ڈانس پیش کیے گے۔

دوسری خوبصورت دھن کے ساتھ راما واستاوایا ہے۔ جس میں شاہ رخ خان نے ڈبل رول کے ساتھ پرفارم کیا۔ وکرم راٹھور کے ایکشن سینز کی طرح ڈانس سٹیپس بھی بالکل الگ انداز کے تھے۔

البتہ انورادھ نے میوزک، تامل سٹائل میں کمپوز کیا ہے۔ جسے ہندی سنیما دیکھنے والوں کو سمجھ نہیں آئی۔

ایکشن سین بہت ہی الگ انداز میں فلماے گے ہیں شاہ رخ خان کی اینٹری کے سین سے لے کر بیلٹ سے مارنے تک کا سین بہت ہیودھیا انداز میں پکچرائیز کیا گیا۔

وجے سیتاپتی ہمارا پسندیدہ ساوتھ کا ایکٹر ہے مگر بدقسمتی سے وجے، جو اس فلم کا ولن ہے، اس فلم میں اپنی ایکٹنگ کے جوہر نہ دکھا سکا۔ جیسے فلم مولا جٹ میں سب سے کمزور کریکٹر ماہرہ خان کا تھا، ٹھیک اُسی طرح اس فلم کا سب سے کمزور پوئینٹ وجےہے۔ مگر بہترین کہانی، مضبوط سکرین پلے ، عمدہ ڈاریکشن ، دوسرے اداکاروں کی شاندار  پرفارمنس اور شاہ رخ خان کے پاورفل کریکٹر نے وجے کی کمزور ایکٹنگ کو چھپا دیا۔ دوسرا کمزور کرکیٹر سنیل گرور کا ہے۔ رول مختصر تھا مگر پھر بھی گتھی متاثر نہ کر سکا۔

فلم کے پانچ بنیادی سوشل  پیغامات  ہیں:

کرپشن : (ا) زراعت اور بینکنگ سسٹم میں کرپشن کہ مرسیڈیز کے لیے تین کروڑ کا لون معاف ہو جاتا ہے مگر ایک کسان کےصرف چالیس ہزار کے ٹریکٹر لون پر اسے بےعزت کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کسانوں میں خود کشیاں کی ریشو زیادہ ہوئی۔(ب) صحت کے میدان میں زبردست کرپشن، جس کی وجہ سے ہسپتالوں میں نہ  دوائی ہے نہ  ڈاکٹر اور نہ  ہی ضروری سہولیات(پ) فوج میں کرپشن کہ ناقص اسلحہ خرید کر جوانوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالی گئیں۔
امیروں کے لیے قانون کچھ اور ہیں اور جو ہیں ان میں بھی نرمی کی جاتی ہے جبکہ غریبوں کے لیے سخت قانون۔
پولوشن اور انڈسٹریل ویسٹ کے مسئلے کو بہت عمدہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے
وومن امپاورمنٹ : کا زبردست میسج دیا گیا ہے۔ اگر دیکھا جاے تو شاہ رخ خان کے بعد فلم کی ساری عورتیں ہی کہانی پرچھائی ہوئی تھیں۔
ووٹنگ پاور: فلم کے آخر میں عوام کو ایک زبردست میسج دیا گیا ہے۔ وہ ہے عوام کی انگلی کی طاقت۔ مطلب ووٹنگ پاور۔ آزادسوال پوچھتا ہے کہ سو روپے کی کوئی چیز خریدتے ہو تو دکان دار سے پچاس سوال پوچھتے ہو مگر جب سیاست دانوں کوپانچ سال کے لیے ملک حوالے کرتے ہو تو ایک سوال بھی نہیں پوچھتے۔ سیاست دان کو ووٹ دینے سے پہلے اس کے پچھلے پانچ سال کا حساب مانگو اور پھر پوچھو کہ اگلے پانچ سال میں، کیا  مجھے تعلیم صحت اور روزگار دو گے۔ اگر دو گے تو کیسے؟مجھے عزت کی زندگی گزارنے کے لیے کیا اقدام اُٹھاو گے؟

اس تین گھنٹے کی فلم نے غریب عوام کے ڈھیر سارے مسائل کو اُجاگر کیا ہے۔ جیسے کہ ظالمانہ کیپیٹلزم، غریب سے نفرت، کرپشن،کسانوں کے مسائل، ہسپتالوں کا ناقص سسٹم، صحت سے متعلق مسائل،  انڈسٹریل ویسٹ کی وجہ سے پولوشن کے مسائل ،  الیکشن کے لیے الیکٹرونک مشین کا استعمال ، ووٹنگ اور کرپٹ سیاست دانوں کو چننا وغیرہ۔

فلم کی کامیابی کا راز اس میں ہے کہ کہانی نگار نے وکرم راٹھور کے کریکٹر کے  ذریعے فلم بینوں کو یہ یقین دلا دیا کہ وکرم راٹھور وہ مسیحا ہے جو ان کے مسائل حل کر سکتا ہے۔

فلم کا اہم پیغام کہ الکیشن کے دن اپنی انگلی کا درست استعمال کرتے ہوے ایسے سیاست دانوں کا انتخاب کیجیے،  جو اپ کے مسائل حل کر سکیں۔ ایک کمرشل فلم کے ذریعے انڈین عوام کو ان کی ووٹنگ پاور کا پیغام دیا گیا ہے۔ یہ فلم جمہوریت کی خوبی بھی بیان کرتی ہے کہ اس سے بہترین حکومت چلانے کا سسٹم آج تک نا آیا کیونکہ اس سسٹم میں عوام کے پاس پاور ہوتی ہے کہ کس قسم کےاپنے حکمران چُنے۔ اور اگر پسند نا اے تو ایک مخصوص مدت کے بعد بدل دو۔

فلم کی پوری کہانی کی بنیاد اوپر بیان کیے گئے  پانچ عوامی میسجز پر تھی۔ ہم نے ایک جگہ لکھا تھا کہ  برصغیر کا سنیما بینوں کاالگ مزاج ہے، جس میں رومینس، ایکشن، گانے، ڈانس، کامیڈی، غرض کہ جیسے اِدھر کے لوگوں کو چٹ پٹے کھانے پسند ہیں،اسیطرح فلمیں بھی بارہ مصالہ کی چارٹ کی طرح پسند ہیں۔  ایٹلی نے فلم کو کمرشلی کامیاب بنانے کے لیے بھرپور انداز میں ہندیفلمی بارہ مصالہ کی چارٹ کا بالتّمام استعمال کیا۔ جس میں ڈانس، ایکشن، رومانس، مزاح اور ایموشنز شامل تھے۔

تین قسم کے فلم بینوں کے لیے یہ فلم ایک شراپ ہے۔

پہلے فیس بکی سوشل میڈیا کے دانشور : جن کو انڈین بارہ سو کروڑ (پاکستانی چار ہزار کروڑ روپے) کی فلم کا چوری کاکیمرہ پرنٹ چار انچی پر دیکھتے ہوئے یہ سب کچھ کیسے سمجھ آ سکتا ہے؟
دوسرے بارلے پاکستانی: جن کی سمجھ سے یہ کمرشل فلم باہر ہے۔ وجہ کہ انہوں نے پاکستان میں زندگی بھر کوئی فلم بھی سنیما میں نہیں دیکھی اس لیے اب کمرشل فلمیں ان کی عقل/ سمجھ سے اوپر ہیں
تیسرے دانش ور : جو ڈبل ایسپریسو کافی کا شاٹ لیتے ہوئے ماہ میر کے ایک ایک سین پر سر دھنتے ہیں اور تجریدی آرٹ سنیما پر ڈسکشن کرتے ہیں (یاد رہے کہ ماہ میر جب ہم نے سنیما میں دیکھی تو تین سو سیٹس کے ہال میں صرف تین بندےتھے)

ہمارا مشورہ ہے کہ ان تینوں فلم بینوں کی پہنچ سے یہ کمرشل فلم دور رکھیں۔

ایک ہندوستانی کرکٹ کس کے بقول اس کو ڈائلاگ کی سمجھ ہی نہیں آ رہی  تھی کہ سنیما ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا،  پوری فلم کےدوران ہر ہر سین پر ہال میں سوائے سیٹیوں، شور اور تالیوں کے علاوہ اور کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ بقول جان ریمبو، جب تک ہال میں تماش بین گانوں اور ہیرو کے آنے پر سیٹیاں نہ ماریں، یا ہال میں پیسے نہ اچھالیں اور بار بار فلم دیکھنے نہ آئیں تو مطلب کہ فلم ناکام ہے۔ شاہ رخ خان نے اس فلم کے ذریعے سنیما تھیٹر کو ایک سٹیڈیم میں بدل ڈالا تھا۔

پاکستانی سنیما بینوں کی بدقسمتی کہ وہ سنیما پر فلم نہیں دیکھ سکتے۔ فلم نیٹ فلیکس پر ایچ ڈی پرنٹ میں ڈاریکٹر کٹ کے ساتھ دستیاب ہے۔ فلم کو کم از کم بتیس انچ کی ایل سی ڈی پر دیکھنے کی کوشش کیجیے۔ یاد رہے کہ یہ ایک کمرشل فلم ہے اور جوکمرشل فلموں سے نفرت کرتے ہیں، ان کے لیے یہ فلم ہرگز بھی نہیں ہے، ان کے لیے ود ھو ونود  چوپڑا نے ایک آرٹ فلم “بارویں فیل” بنائی ہوئی ہے۔ چار انچی آرٹ لورز اس فلم سے لطف اندوز ہوں۔  بہرحال پسند اپنی اپنی۔

(1200 indian rupee equalant to 4000 pakistani rupee )

julia rana solicitors london

(ہندوستانی سنیما ہال کا بیان مختلف انڈین کریٹکس کی زبانی اور ہال کے اندر کی ویڈیوز سے پتہ چلا)

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply