ہندی مسلمان، جن میں ہندوستان بنگال اور پاکستان شامل ہیں، مذہب کے معاملے میں عقیدت میں اتنے آگے جا چکے ہیں کہ یہ عقید ت اب اندھی دیوانگی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس خطہ کے مسلمان مذہب کے معاملے میں متشدد ہو چکے ہیں۔ ہندوستان اور بنگال کسی حد تک اپنے علاقے کے مسلمانوں کو کنٹرول کر چکے ہیں، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں ریاست اپنے سیاسی مفادات کے لیےاس دیوانگی کو بڑھاوا دینے میں روزِ اوّل سے مصروف رہی ہے۔
اگر ہم کچھ سو سال پیچھے کی تاریخ کی طرف جائیں تو سب سے پہلے شاہ اسماعیل اور سعید احمد شہید کی تحریک مجاہدین کی متشدد تحریک تھی۔ جو بجاۓ اپنے علاقے دہلی میں انگریزوں کے خلاف کوئی قدم اُٹھانے کے، سکھوں کے خلاف پشتونوں کےعلاقے پشاور میں آ گئے ۔ چونکہ اس تحریک کی قیادت متعصب اور تنگ نظر ملاؤں کے ہاتھ میں تھی، تو ادھر آتے ہی اپنا خود ساختہ مذب لوکل مسلمانوں پر زبردستی مسلط کرنا چاہا، جس کی بنا پر لوکل پشتونوں نے انہیں مار کر بھگایا تو یہ ہزارہ کی طرف بھاگئے، مگر ادھر کے پشتونوں نے بھی ان تنگ نظر متشدد مُلاؤں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے سکھوں سے مدد لی۔
دسمبر 1919 میں جب سارے عرب ترکوں کی خود ساختہ خلافت کے خلاف اتھ کھڑے ہوۓ تھے تو ہندوستانی مسلمانوں نے ہندوستان میں خلافت بچاؤ موومنٹ شروع کر دی۔ یاد رہے کہ جب ٹیپو سلطان نے ترکی خلیفہ کو مدد کے لیے خط لکھا تو خلیفہ نے بجائے مددکرنے کے اس خط کے مندرجات انگریز حکومت کو آشکار کر دیے تھے۔
تقسیم کے وقت پاکستان کے علاقے پنڈی کے مسلمانوں نے ہی سکھوں کے خلاف خونی فسادات شروع کیے جو بعد میں پورے انڈیا میں پھیل گئے ۔ تقسیم کے دوران لاکھوں انسانوں کے قتل کے ذمہ دار پاکستان کے پنجاب کے علاقے کے مسلمان ہی ہیں۔
ہم پاکستانی مسلمان عربی نام رکھتے وقت عربی زبان کو صرف عقیدت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یا پھر لغوی معنی دیکھ لیتے ہیں۔ہمارے ایک دوست کی بیٹی پیدا ہوئی تو اس نے ایک عربی نام رکھا جس کے لغوی معنی مقدس کے تھے۔ اس کے ایک کزن، جو کہ کویت میں تھا کو نام کا پتہ چلا، تو فوراً تبدیل کرنے کو کہا کہ عرب کی سلینگ زبان (بازاری بول چال) میں اس نام کے معنی “بُری عورت “ کے ہیں۔
اسی قسم کے ایک واقعہ کی طرف سوشل میڈیا کے دوست جناب رشید صاحب نے بھی اشارہ کیا تھا۔ اس واقعہ کو کچھ فاکس نیوزاور فارن پا لیسی نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ ان کے مطابق 2010 میں عرب ٹائمز میں ایک سٹوری فلوٹ ہوتی تھی کہ سعودیہ عرب ، بحرین اور یو اے ای نے ایک پاکستانی ڈپلومیٹ کو اس لیے سفیر کے طور پر لینے سے انکار کر دیا تھا کہ ان کا نام عربی زبان کے حساب سے نامناسب تھا۔ فاکس نیوز کے مطابق ایک پاکستانی ڈپلومیٹ “اکبر زیب” کو اس لیے سفیر کے طور ہر لینے سے انکار کردیا کہ اس کا مطلب عربی میں “بڑا علامتِ مردمی” کے ہے۔ جنوبی ایشیا میں اس نام کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہوتا مگر عرب میں بہت بڑا مسئلہ تھا۔ عرب نیوز کے مطابق سعودی عرب کے کلچرل کرٹک احمد آل عمران نے اس انکار کی تشریح کچھ اس طرح کی کہ“یہ نام عرب کی ثقافتی سرخ لکیر کو عبور کرتا ہے لہذا مجھے نہیں لگتا کہ میڈیا اس طرح کا نام شائع کرنے کی ہمت کرے گا۔ اس لیےجب بھی وہ میڈیا کو فیس کرتے، انہیں نام کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا اور اس کے ساتھ کام کرنا مشکل ہو جاتا، اور یہ پاکستان کےلیے شرمندگی کا باعث بنتا۔”
اکبر عربی اور غیر عربی بولنے والوں کے لیے ایک روایتی مسلم نام ہے۔ مگر زیب کے لیے ایسا نہیں کہا جا سکتا۔ یہ نام اردو میں عام ہے، تاہم عربی کی سلینگ زبان (بازاری بول چال) میں زیب کا مطلب مردانہ تولیدی اعضاء کے لیے مخصوص ہے۔
یہ خطہ کیوں مذہب کے معاملے میں اتنا حسّاس ہے کہ ایک عربی باشندے کے کہنے کے مطابق “مذہب ہم پر اُترا اور باولے پاکستانی ہوگئے ہیں”۔ اسی طرح مصر کے سربراہ جمال عبدل ناصر صاحب نے ایک بار کہا تھا کہ پاکستانیوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اسلام ابھی ابھی نازل ہوا ہے اور پاکستانیوں پر ہی نازل ہوا ہے۔ ہمارے ایک انکل کا کہنا ہے کہ “پاکستان” نامی ملک ایک الگ فرقہ ہے جس کا اسلام نامی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ اس فرقہ کے اپنے رسم و رواج ہیں، اپنی سوچ ہے، مذہب کے بارے میں اپنی تشریح ہے جوباقی کی مسلم دنیا سے یکسر مختلف ہے۔ پاکستان خود ایک مذہب ہے۔
تحریر کو ہم ختم کریں گے، جناب معاذبن محمود کی ایک تحریر سے، منتخب چُنندہ سے، جس میں پاکستانی مسلمانوں کی مذہب کےساتھ عقیدت کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ “پاکستانی مسلمان ناسمجھ ہیں ان کے پاس علم ہے ہی نہیں صرف مذہب کا جذبہ اور عقیدت لے کر گھومتے ہیں۔ ان کی مثال اس بندے کی سی ہے جس نے شادی نہیں کی تھی اور روز دوکان سے ویاگرا لے کر کھاجاتا تھا۔ ایک دن میڈیکل سٹور پر کھڑے بندے نے پوچھا جب شادی نہیں کی تو ویاگرہ کاہے کھاتے ہو؟ بندہ جواب میں بولا۔۔۔ ایویں بس ذرا چڈی کے اندر رونق لگی رہتی ہے۔۔”
(ہم ایک بات کی تصحیح کر دیں کہ فارن پالیسی کی مطابق جناب اکبر زیب نے سختی کے ساتھ اس بات کی تردید کر دی تھی کہ “یہ واقعہ جھوٹ پر مبنی تھا۔ ان کے مطابق یہ ایک پریکٹیکل جوک ( عملی مذاق) سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ زیب صاحب نے اس بات کی تردید کی کہ انہیں کبھی سعودی عرب میں سفیر کے عہدے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ وہ اوٹاوا میں 9 ماہ پہلے تعینات کیے گے ہیں جبکہ کینیڈا میں ان کی مکمل اسائنمنٹ تین سال کے لیے ہے۔ “
اوٹاوا میں پاکستانی ہائی کمیشن کی پریس کونسلر میمونہ امجد نے بھی FP کو تصدیق کی کہ یہ کہانی غلط ہے۔ انہوں نے اس افواہ کو مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ “اس میں کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ کینیڈا کے علاوہ کہیں بھی کوئی پوسٹ قبول کریں گے۔)
سورس :فاکس نیوز ، عرب نیوز اور فارن پولیسی کے ان لائین میگزین
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں