تاریخ کے کسی دور کے واقعات کی اپنے دور کی حسیت کے مطابق تشریح حقیقت سے دور لا پھینکتی ہے ، اور یہ دوری اس وقت اور عجیب و غریب نتائج پیدا کرتی ہے جب معاصر دور اور زیر بحث دور کے طریق ہائے پیداوار مختلف ہوں ( ظاہر ہے پھر دونوں ادوار کے سماج کا بالائی ڈھانچہ بھی مختلف ہوگا جو مطابقت پذیری میں کبھی منعکس نہیں ہوگا) -اسلام کی ابتدائی تاریخ کو جدیدیانے
Modernization of Primary Islamic Historyکی کوششوں کا نتیجہ بھی یہی نکلتا ہے ۔
ایران کے دو دانشوروں کی ابتدائی اسلام کی تاریخ کو جدیدیانے کی کوشش کے دو الگ الگ نتائج نکلے۔
پہلے دانشور ڈاکٹر علی شریعتی ہیں جو اس زمانے میں ابتدائی تاریخ اسلام شیعہ اثنا عشری حسیت کے ساتھ جدیدیانے کی کوشش کررہے تھے ۔
اس زمانے میں ایران کی فضائے دانش اشتراکیت، فرائیڈ کے نظریات، سارتر کی وجودیت کے نظریات درمیانے پڑھے لکھے ایرانی طبقے پر چھائے ہوئے تھے ۔ یہ وہ مہا بیانیے تھے جن کی روشنی میں ایرانی سماج میں نظریات کا جدال ہو رہا تھا ۔
ایران میں شیعی اثنا عشری نظریات کے تحت پولیٹیکل اسلام کے دو بڑے رجحانات تھے ، ایک کا مرکز قم تھا اور اسے سید روح اللہ خمینی لیڈ کر رہے تھے اور وہ شیعی ولایت فقیہ میں “مطلق ولایت فقیہ” کے نئے تصور کے ساتھ سامنے آئے اور اس کی روشنی میں وہ اسلامی ریاست اور معاشرت پر تصورات وضع کر رہے تھے اور یہ سنی اسلام میں اخوان اور جماعت اسلامی کے نظریہ ساز سید قطب اور سید ابوالاعلی مودودی کے پولیٹیکل اسلام کے ساتھ بڑی ہم آہنگی رکھتا تھا اور معیشت کے باب میں اسے سرمایہ داری کے بنیادی اصولوں سے کوئی جوہری اختلاف نہیں تھا ۔ اگرچہ یہ شاہ ایران کی سخت گیر اشرافیت کے خلاف تھا اور سیکولر تصورات ریاست کے مدمقابل یہ تھیوکریٹک تصور ریاست کا حامی تھا ۔
پولیٹیکل اسلام کا دوسرا رجحان وہ تھا جس کے ایران میں سب سے بڑے نمائندے ڈاکٹر علی شریعتی تھے ۔ڈاکٹر علی شریعتی نے معشیت کے باب میں جدید سوشلسٹ معاشی نظریات سے اسلامی تعلیمات کی مطابقت پذیری کا کام کیا، لیکن وہ اس باب میں مارکسزم کی بنیاد جدلیاتی مادیت پرستی کے سخت مخالف تھے اور اسی لیے وہ مارکسزم کو رد کرتے تھے – چہار زندان انسان میں انہوں نے اشتراکیت، وجودیت کی مادی بنیادوں کو ہی رد کیا تھا۔
ڈاکٹر علی شریعتی نے کیا یہ کہ انھوں نے شیعی اسلام کی خلافت پر تنقید کے ڈسکورس کو جدید سوشلسٹ نظریات اور اصطلاحات کو مستعار لیکر تبدیل کیا اور خلافت کے نظام حکمرانی کو انھوں نے سرمایہ داری نظام کے جدید ترین آمرانہ ریاست کے قائم مقام دکھایا اور اموی و عباسی ملوکیت کو انھوں نے جدید سرمایہ دارانہ ملوکانہ نظام ریاست کے قائم مقام ٹھہرا دیا ۔ انھوں نے قرآن میں فرعون کے شخصی کردار کو جدید دور کے سرمایہ دارانہ نظام سیاست کی ادارہ جاتی شکل دے ڈالی اور بلعم باعور کو جدید جابر ریاست کے ساتھ کے ساتھ کھڑی مذہبی پیشوائیت کے مترادف بنادیا ، اور قارون کو سرمایہ دار اشرافیہ کے مساوی۔ یہ بالواسطہ شاہ ایران کو فرعون ، اس کے دور میں ابھرنے والی سرمایہ دار اشرافیہ کو قارون اور اس کی حمایت میں کھڑی مذہبی پیشوائیت کو بلعم باعور قرار دینے کا عمل تھا اور اس کی زیادہ تصدیق ان کی کتاب حج سے ہوتی ہے جس میں وہ فرعون کو موسی ، نمرود کو ابراہیم اور یزید کو امام حسین کا کاسٹیوم پہنے دکھاتے ہیں کیونکہ شاہ ایران ، اس کے پروردہ سرمایہ دار اور مذہبی پیشوا سب کے سب شیعہ تھے اور شیعی اسلام سے وابستہ ہونے کے دعوے دار تھے ۔ اس باب میں شریعتی اور خمینی ایک باب میں نظر آتے ہیں وہ شاہ ایران ، ایرانی شاہ پرست اشرافیہ اور شاہ پرست ملاوں کی مذہبیت کو ڈھونگ اور سانگ کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں ۔
ڈاکٹر علی شریعتی نے شیعی اثناعشری روایت کے تحت ہی ابو ذر غفاری کی شخصیت کی تشکیل جدید کی اور جدید سوشلسٹ سیاسی تنقید کے بڑے تصورات کو ان کی شخصیت سے نتھی کر دیا ۔
ابوذر غفاری کو اگر ہم ابتدائی اسلام یعنی پہلی صدی ہجری کے اندر موجود روایات اور آثار کی روشنی میں دیکھیں تو ان سے کم از کم پہلی اور دوسری صدی ہجری کے احادیث اور تاریخ کے متون میں ہمیں خلافت کے وجود پر کوئی تنقید سننے کو نہیں ملتی ، ہمیں وہ کہیں بھی ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق اور خود حضرت عثمان کے بطور خلیفہ انتخاب پر تنقید کرتے ہوئے نہیں ملتے ، ہوسکتا ہے کہ شیعہ اثناعشری متون تاریخ و احادیث میں کہیں اس باب میں کوئی تنقید موجود ہو تو ہو جو بہت بعد میں مرتب ہوئے۔ یہی معاملہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعض اقدامات کے ناقد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا تھا کہ ان سے بھی ہم خلفائے ثلاثہ کے انتخاب پر کوئی تنقید کہیں مروی نہیں دیکھتے ۔
ابو ذر غفاری ہوں یا عبداللہ بن مسعود ہوں ان کی حضرت عثمان پر تنقید ان کے بعض اقدامات پر ضرور تھی لیکن اس بنیاد پر انھوں نے ان کی خلافت کو ماننے سے انکار نہیں کیا تھا ۔ یہ تنقید عمومی طور پر مدینہ میں مقیم کئی ایک مہاجر اور انصار صحابہ کی تنقید کی طرح تھی اور انہیں بھی یہ اعتراض تھا کہ حضرت عثمان نے بطور خلیفہ حضرت عبدالرحمان بن عوف کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے ابوبکر اور عمر فاروق کی سنت پر عمل کرنے کا جو وعدہ کیا تھا اسے کئی ایک امور میں ترک کر دیا تھا ، لیکن ڈاکٹر علی شریعتی شیعی اثناء عشری روایت کے زیر اثر ابو ذر غفاری کو خلافت کا ہی مخالف بناکر پیش کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ نہ تو یہ بات پیش نظر رکھتے ہیں کہ ابو ذر غفاری کے زمانے میں نہ تو موڈ آف پروڈکشن پوری طرح سے جاگیردارانہ تھا اور نہ ہی ریاست ابھی پوری طرح سے ملوکیت میں تبدیل ہوئی تھی ہم اسے زیادہ سے زیادہ ایک ٹرائبل جمہوریت کی شکل قرار دے سکتے ہیں، جبکہ ان کے زمانے میں مدینہ ،مکہ ، بصرہ اور شام میں جو تجارت تھی وہ پوری طرح سے مرکنٹائل ہوئی تھی اور جو مرکنٹائل کلاس تھی وہ وہ بہت پرائمری سطح پر تھی، جبکہ اس کا سرمایہ دارانہ نظام کے اندر ابھرنے والی جدید مرکنٹائل کلاس کی طرح ڈویلپ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، ابو ذر غفاری ہی کیا اس دور کا کوئی بھی مصلح اس زمانے میں غلاموں اور لونڈیوں کے سوال کو اس طرح سے دیکھ ہی نہیں سکتا تھا جیسے آج کا جدید ذہن دیکھتا ہے ، لیکن ڈاکٹر علی شریعتی نے غریب ربذہ میں ابوذر غفاری کو ان کے زمان و مکان سے اٹھاکر انھیں اپنے دور کے زمان و مکان میں لاکر بٹھایا اور ان کی شخصیت پر جدید سوشلسٹ نظریات کو چسپاں کردیا اور دیکھا جائے تو انھوں نے یہ مقدمہ پیش کیا جیسے اسلام کا مطمع نظر جدید سوشلسٹ سسٹم تھا ۔
ایران کا دوسرا اسلامی دانشور عبدالکریم سروش ہے جو پوسٹ آئیڈیالوجی دور میں ابھرا اور وہ لبرل ازم ، نیو لبرل ازم ، لاجیکل پازیٹوازم اور دیگر پوسٹ ماڈرن نظریات کی روشنی میں اسلامی فکر کو دیکھتا ہے۔وہ Meta Narrative and Meta Ideologyپر ہونے والی دریدائی تنقید کے زیر اثر خود ڈاکٹر علی شریعتی کے تصورات کی بھی ردتشکیل کرتا ہے اور سوشلسٹ آئیڈیل کو مسترد کر دیتا ہے ۔ وہ لبرل ڈیموکریسی کو اسلام کے مطابق قرار دیتا ہے اور اس نے خمینی کے ولایت فقیہ مطلق پر مبنی پولیٹیکل اسلام کو ویسے ہی مسترد کیا جیسے وہ مودودی اور سید قطب کے پولیٹیکل اسلام کو مسترد کرتا ہے ،اسے شریعتی اور خمینی کے برعکس اسلام سیکولر ریاست کا مخالف نہیں لگتا ۔ اور وہ آج کی شیعی مطلق فقیہ ولایت کے تصور پر استوار ہونے والی ایرانی ریاست کی تقلیب چاہتا ہے اور اسے سیکولر لبرل ڈیموکریٹک ریاست بنانے کی حمایت کرتا ہے ۔
آج کے ایران میں ولایت فقیہ مطلق کے ناقدین میں پڑھے لکھے درمیانے طبقے کے نوجوانوں کے اندر ڈاکٹر علی شریعتی کو وہ مقبولیت اور قبول عام نہیں ہے جو سروش کو ہے ۔
پولیٹیکل اسلام کے نظریہ سازوں کا اس جہت سے تنقیدی جائزہ ان نظریہ سازوں کے بہت سے خیالات کو تنقید کی زد میں لاتا ہے اور ہمارے ہاں ابھی تک ایسے کسی مربوط تنقیدی جائزے کا دور شروع نہیں ہوا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں